• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بااختیارعدالتی کمیشن : بامعنی احتساب کیلئے ناگزیر

چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس انور ظہیر جمالی نے پاناما لیکس کی تحقیقات کے لیے عدالتی کمیشن کے حوالے سے وفاقی حکومت کوعدلیہ کے موقف سے آگاہ کردیا ہے جو بلاشبہ قطعی قابل فہم ہے۔وفاقی حکومت کے خط کے جواب میں واضح کیا گیا ہے کہ ایک تو 1956ء کے ایکٹ آف لاء کے تحت بننے والا کمیشن بے اختیار ہوگا لہٰذا مؤثر احتساب نہیں کرسکے گا اور دوسرے یہ کہ حکومتی ضوابط کار کی رو سے تحقیقات کا مجوزہ دائرہ اتنا وسیع ہے کہ محض سماعت ہی کے لیے برسوں کی مدت درکار ہوگی رجسٹرار سپریم کورٹ کے دستخطوں سے بھیجے گئے خط میں سیکریٹری قانون و انصاف کو مخاطب کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ مجھے آپ کو یہ بتانے کی ہدایت ملی ہے کہ1956ء کے ایکٹ برائے تحقیقاتی کمیشن کے تحت بننے والے کمیشن کا اسکوپ بہت محدود ہوتا ہے،لہٰذا اس قانون کے تحت ایک بے اختیار کمیشن بنے گا جس سے کوئی مفید مقصد حاصل نہیں ہوگا اور کمیشن کے حصے میں محض بدنامی ہی آئے گی۔کمیشن کے لیے جو ضوابط کار تجویز کیے گئے ہیں وہ اس قدر وسیع اور غیر محدود ہیں کہ بظاہر کمیشن کو اس پر اپنی سماعت مکمل کرنے ہی میں برسوں لگ سکتے ہیں لہٰذا کمیشن کی تشکیل کے حوالے سے کوئی رائے قائم کرنے سے پہلے عدلیہ کو ان تمام متعین افراد، خاندانوں، گروپس اور کمپنیوں وغیرہ کے بارے میں ضروری معلومات تمام متعلقہ دستاویزات کے ساتھ درکار ہیںجن کے معاملات کی تحقیقات مطلوب ہو۔چیف جسٹس کی جانب سے حکومت پر یہ بات بھی واضح کردی گئی ہے کہ جب تک یہ کوائف فراہم نہ کردیے جائیں اور کمیشن کی تشکیل کسی موزوں قانون سازی کے ذریعے کیے جانے کے معاملے پر دوباہ غور کرکے کوئی فیصلہ نہ کرلیا جائے اس وقت تک وفاقی حکومت کے خط پر عدلیہ کی جانب سے کوئی حتمی موقف اپنایانہیں جاسکتا۔عدلیہ کا یہ جواب متوازن اور معقول ہے۔اس میں عدالتی کمیشن کے قیام سے اتفاق کرتے ہوئے اسے بااختیار بنانے اور دائرہ کار کو اہمیت کے لحاظ سے ترجیحی بنیادوں پر کیسوں کے تعین تک محدود کیے جانے کی ضرورت کا اظہار کیا گیا ہے تاکہ ایک مناسب مدت میں تحقیقاتی عمل مکمل ہوسکے۔مزید یہ کہ عدلیہ نے تحقیقات کا دائرہ محض پاناما لیکس تک محدود رکھنے کو نہیں کہا جس کا مطلب یہ ہے کہ عدلیہ قرضوں کی معافی ، کمیشن خوری اور کک بیکس جیسے معاملات کی تحقیقات کے لیے بھی تیار ہے بشرطے کہ اس کے سامنے اہمیت کے لحاظ سے مخصوص معاملات پیش کیے جائیں۔عدلیہ کا یہ جواب فی الواقع نہ کسی کی فتح ہے نہ کسی کی شکست لہٰذا حکومت اور اپوزیشن کو ہار جیت کے دعووں کی سیاسی مہم جوئی میںوقت ضائع کرنے کے بجائے حب الوطنی کا ثبوت دیتے ہوئے قوم کو کرپشن کی لعنت سے مستقل طور پر چھٹکارا دلانے کے لیے فوری طور پر ایسے ضوابط کار کی تشکیل کے لیے مل بیٹھنا چاہیے جو ایک بااختیار عدالتی کمیشن کے قیام کے لیے ضروری ہیں۔اس مقصد کے لیے پارلیمنٹ میں نئی قانون سازی کی ضرورت ہو تواس کے لیے جلد از جلد مطلوبہ اقدامات کرکے بااختیار عدالتی کمیشن کے قیام کی راہ ہموار کی جائے اور عدلیہ کو متعین کیسوں کے بارے میں تمام ضروری معلومات فراہم کی جائیں ۔وزیر اعظم پہلے ہی یہ پیشکش کرچکے ہیں کہ تحقیقات کا آغاز ان کی ذات اور ان کے خاندان سے کیا جائے لہٰذا بظاہر اس میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔اس تحقیقات کی تکمیل سے ملک میں جاری موجودہ انتشار اور تعطل کی کیفیت ختم ہوجائے گی ۔اس کے بعد بظاہر مناسب یہی ہے کہ پہلے اپوزیشن سمیت ملک کی دیگر اہم سیاسی شخصیات کے بارے میں تحقیقات مکمل کی جائے جن کے نام پاناما پیپرز میں آئے ہیں ، پھر اس دائرے کو بزنس، عدلیہ، میڈیا ، فوج اوردوسرے شعبہ ہائے زندگی کے ان اہم افراد تک بڑھایا جائے جوقرضے معاف کرانے ، سرکاری سودوں پر کمیشن کھانے، ٹیکس چرانے ،کک بیکس وصول کرنے اور دیگر طریقوں سے قومی دولت لوٹنے میں ملوث سمجھے جاتے ہیں تاکہ ملک کو بااثر طبقات کی لوٹ کھسوٹ سے ہمیشہ کے لیے نجات مل جائے اور یوں قومی ترقی کے راستے میں حائل سب سے بڑی رکاوٹ دور ہوجائے۔
تازہ ترین