• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جیالے خوشی سے پھولے نہیں سما رہے۔ تیسری نسل کے بھٹو کی گھن گرج سےماضی کی عوامی یادیں جو تازہ ہو رہی ہیں۔ کشمیر میں دو عوامی جلسوں میں بھٹو صاحب کے ’’بھارت سے ہزار سال جنگ‘‘ کے نعروں کی بازگشت بلاول بھٹو کے ’’مودی کا جو یار ہے‘‘ کے نعروں میں سنائی دی۔ عوام کے ٹھٹھ کے ٹھٹھ لگ گئے کہ غریبوں کی روزی روٹی کی دل سے کہی بات بی بی شہید کے ایک عرصے بعد جو سنائی دی۔ اُسی جلال، اُسی عوامیت اور بے پناہ توانائی کے ساتھ بلاول بھٹو میدان میں اُترے ہیں جو بھٹوز کا عوامی رنگ رہا ہے۔ معاملہ فقط کشمیر پر کشمیر میں اور وہ بھی آزاد جموں و کشمیر کے انتخابات میں گرمی پیدا کرنے کا نہیں، تاریخی تناظر میں کہیں زیادہ نازک ہے۔ اپنی پھوپھو فریال تالپور اور دومتنازع سابق وزرائے اعظم کے جلو میں نوجوان بلاول بھٹو زرداری کی کشمیر کی سرزمین پر وزیراعظم کے خلاف بھارتی مربی ہونے کی الزام تراشی کیا ظاہر کرتی ہے۔ کیا وہ نانا ذوالفقار علی بھٹو کی قوم پرستانہ میراث کے نقشِ قدم پر چل رہے ہیں اور شہید بے نظیر بھٹو کی تہذیبوں اور ہمسایوں سے مفاہمت (Reconciliation) کے نظریہ سے منہ موڑ رہے ہیں یا پھر والد آصف زرداری کی عملیت پسندی (Pragmatism) کی راہ پہ ’’جہاں سیاسی فائدہ، وہیں بچھائی بساط‘‘ کی جانب راغب۔ لگتا ہے نوجوان بلاول نے ابھی اپنی سمت طے کی ہے نہ یہ فیصلہ کیا ہے کہ بھٹوز کی عوامیت پسند میراث میں سے کیا اپنانا ہے اور کیا نہیں۔ آخر بلاول بھٹو زرداری کی سیاست کیا رنگ و روپ لینے جا رہی ہے؟
پاکستان کی تاریخ کی سب سے مقبول اور عوامیت پسندی کے تمام دھاروں کو سموئے اور ذوالفقار علی بھٹو اور شہید بے نظیر بھٹو کی کرشماتی (Charismatic) شخصیتوں کے سحر میں لپٹی پاکستان پیپلز پارٹی چار دہائیوں سے ملکی سیاست پہ چھائی رہی ہے۔ سرد جنگ کے عروج، طبقاتی کشمکش میں شدت اور دُنیا بھر میں نوجوانوں اور محنت کشوں کے پچھلی صدی کی ساتویں دہائی کے اُبھار اور فوجی آمریت کے زوال کے وقت ذوالفقار علی بھٹو کے لئے انقلابی نعرے بازی اور عوامی پذیرائی کے لئے زمین ہموار تھی۔ اور بھٹو صاحب نے 1970ء کے انتخابات میں مغربی پاکستان میں پنجاب اور سندھ میں ہر مخالف کا صفایا کر کے رکھ دیا اور اگر کھمبا بھی کھڑا کیا تو بڑے بڑے جاگیردار اور وراثتی حلقوں کے اجارہ دار ضمانتیں ضبط کروا بیٹھے۔ بھٹو کے عدالتی قتل اور بے رحم پھانسی نے اُنھیں تاریخ میں امر کر دیا۔ آج بھی جیالے ’’زندہ ہے، بھٹو زندہ ہے‘‘ کے دلاسے پہ زندہ ہیں۔ محترمہ بے نظیر بھٹو نے سیاسی آنکھ ضیاء الحق کے جبر و استبداد میں کھولی اور ایسے وقت میں جب سرد جنگ عروج پہ تھی اور کمیونسٹ دُنیا کا زوال ہونے کو تھا۔ والد کے برعکس بی بی نے ابتدا جمہوریت کے لئے جدوجہد سے کی اور سرد جنگ کے بعد زمانہ عالمگیریت یعنی گلوبلائزیشن کے مطابق بھٹوازم یا عوامیت پسندی کو اک نئی صورت دی۔ بی بی نے بھٹو کی آمرانہ روش کی جگہ جمہوریت پسندی، دُنیا اور ہمسایوں سے ٹکرانے کی بجائے تہذیبوں میں مصالحت اور اپنے والد کی عوام دوستی اور غریب پروری کو اختیار کیا اور گزشتہ نویں دہائی کی لڑاکو سیاست کی جگہ جمہوری رواداری کو اپنایا۔ چارٹر آف ڈیموکریسی اسی کا پرتو ہے۔ بعد از اشتراکی زمانے میں، بی بی نے پبلک پرائیویٹ شراکت داری اور پائیدار ترقی جس میں مفلوک الحال لوگوں کو سکھ ملے کے نظریات کو اپنایا۔ بی بی کے تہذیبوں اور ہمسایوں کے مابین مفاہمت کے نظریہ کو عالمی پذیرائی ملی ۔ اور اپنی شہادت سے قبل اُنھوں نے پیپلز پارٹی کی کھوئی ہوئی نظریاتی بنیاد کو اک نظریاتی اساس فراہم کی اور وہ تھی مذہبی انتہاپسندی اور دہشت گردی کے خلاف ماورائے مذہبی فرقہ پرستی انسان دوستی۔ بی بی کی شہادت سے جو عظیم خلا پیدا ہوا، اُس میں داخل ہوئے جناب آصف زرداری۔ جنہیں ’’مردِ حُر‘‘ اور سیاست میں ’’سب پہ بھاری‘‘کی ڈاکٹریٹ کے اعزازات سے نوازا گیا۔ آصف زرداری عوامی سیاست کے لئے بنے تھے نہ اُس کے قائل۔ کمال ہوشیاری سے زرداری نے بی بی کے تہذیبوں میں مصالحت کے نظریے کو متحارب سیاسی طبقوں اور نظریوں میں مصالحت کے لئے استعمال کیا کہ وہ اُن کی عملیت پسند اور مصالحتی سیاست کے کام آئے۔ یہ ایک عبوری دور تھا اور زرداری نے کمال ہوشیاری سے پہلی بار جمہوری عبور اور اقتدار کی پُرامن منتقلی کا کارنامہ سرانجام دیا۔ وہ بی بی ہی کی طرح بھارت سے تصادم کی راہ ترک کر کے خطے میں امن و آشتی کے قائل تھے اور پارلیمنٹ کو مقتدرِ اعلیٰ بنانے میں کامیاب رہے۔ لیکن اُن کی مصلحت کوشیاں عوام سے دوری اور بُری ساکھ (جس میں اُن کے وزرائے اعظم کا زیادہ ہاتھ تھا) کے باعث پیپلز پارٹی عارضی طور پر اپنی اپیل کھو بیٹھی۔سابق چیف جسٹس کی مخاصمت اور دہشت گردوں کے کرفیو میں پیپلز پارٹی انتخابی مہم ہی سے باہر ہو گئی۔ اور یہ کہا جانے لگا کہ جو کام مخالف نہ کر پائے وہ زرداری نے کر دکھایا۔
اب اُترے ہیں میدان میں نوجوان، وجیہہ، اعلیٰ تعلیم یافتہ، نانا کی صورت اور بی بی سے تربیت یافتہ بلاول۔ اُن پر سیاسی بوجھ اور طرح کے ہیں اور مقابلے میں نئے اور پرانے گھاگ۔ اُن پر سب سے بڑا بوجھ پیپلز پارٹی کے خراب تصور کو اچھے تصور میں بدلنا ہے۔ یہ تبھی ممکن ہے جب وہ سندھ میں جاری بدترین حکمرانی کو ختم کریں اور کرپٹ عناصر سے جان چھڑائیں۔ کرپشن کی بنیاد پر موجودہ حکومت کے استعفیٰ اور احتساب کا مطالبہ کرنے میں وہ اخلاقی طور پر تبھی سُرخرو ہو سکتے ہیں جب وہ اپنے اُن تمام رہنماؤں بشمول سابق وزرائے اعظم کو جو مبینہ کرپشن کے مقدمات بھگت رہے ہیں سے کہیں کہ وہ پہلے جاری مقدمات سے بری الذمہ ہوں اور پھر آگے آئیں۔ شریفوں کے ترقی کے تعمیراتی ماڈل کے مقابلے میں اگر وہ ایک عوامی شراکتی پائیدار ترقی کے متبادل ماڈل کو سندھ میں کر دکھائیں تو عوام کے سامنے دو واضح راستے پیش کئے جا سکیں گے۔ اب زمانہ نعروں سے بڑھ کر کچھ کر دکھانے کا ہے جو بزرگ شاہ سائیں کے بس کا روگ نہیں اور نہ ہی سندھ کے جاگیردار رجواڑوں کا ہے جنہیں کراچی پہ مسلط کرنے کی بجائے تاریخ کے عجائب گھر میں رکھ دیا جائے تو بہتر ہوگا۔ بی بی اپنے ساتھ نئی ٹیم لائی تھیں اور 2013ء میں تو وہ بالکل ہی کچھ اور کرنے پہ مائل تھیں۔ خطے میں دائمی امن، سول ملٹری تعلقات میں تبدیلی، دُنیا دوست خارجہ پالیسی، غربت کے خاتمے، انسانی ترقی اور اچھی حکومت اور ہمہ طرفہ اصلاحات کے ایجنڈے پر وہ سول سوسائٹی اور ماہرین سے تبادلہ خیال کر رہی تھیں۔ بدقسمتی سے ایسا نہ ہو سکا اور ملک ایک مدبر انسان دوست اور قابل رہنما سے محروم کر دیا گیا۔
بلاول کو نانا کے آمریت پسندانہ رویوں، والد کی مصلحت کوشیوں اور پیپلز پارٹی کو لگے کرپشن کے گھن سے پاک کرنا ہوگا۔ اپنی والدہ کے وژن، دردِ دل، رواداری اور انسان دوستی کو مشعلِ راہ بنانا ہوگا۔ اب زمانہ اُن کے نانا اور والدہ سے بھی آگے جا چکا ہے۔ یہ زمانہ بڑھتے متوسط طبقوں، نوجوانوں کے جمِ غفیر اور اطلاعاتی و سائنسی انقلابوں کا زمانہ ہے۔ ایک جاہل قوم اور بے ہنر بے مغز نئی نسل سے پاکستان آگے نہیں بڑھ سکتا۔ وہ خود اطلاعاتی انقلاب کی نسل ہیں اور نوجوان، اور ابھی تک لغزشوں سے پاک۔ اُنھیں جتلانا ہوگا کہ وہی اب پیپلز پارٹی کے حقیقی اور بااختیار لیڈر ہیں نا کہ بیٹے، بھتیجے اور بچے۔ بلاول کے بارے میں جب تک تاثر رہے گا کہ اُن کی طنابیں والد کے ہاتھ میں ہیں، وہ اپنی بنیاد پر رہنما نہیں بن پائیں گے۔ اور بار بار کی لانچنگ سے وہ اپنے بارے میں سنجیدہ تاثر کھو بیٹھیں گے۔ بلاول نے اگر پیپلز پارٹی میں پھر سے نئی روح پھونکنی ہے تو اُنھیں گزرے وقتوں کے نعروں اور متروک تصورات سے آگے بڑھنا ہوگا۔
بجائے اس کے کہ وہ جارحانہ قوم پرستی اور چھوٹے صوبوںکے بارے میںسخت گیری کے بوجھ تلے دبیں، اُنہیں اک نئے سماجی جمہوری لبرل ایجنڈے کو سامنے لانا چاہئے۔ اس وقت سماجی لبرل اور سیکولر سیاست کا خلا بھی بہت ہے اور مانگ بھی بہت۔ مذہبی انتہاپسندی اور دہشت گردی کے خلاف ایک عقلیت پسند، آزاد خیال جمہوری اور سیکولر نظریاتی متبادل پیش کرنے کے ساتھ ساتھ اُنھیں پیپلز پارٹی کا معاشی و سماجی پروگرام پیش کرنا ہوگا جو غریب محنت کش عوام اور متوسط طبقوں کو غربت کے شکنجے سے نکال سکے۔ بطور ایک سینٹر لیفٹ پارٹی کے پیپلز پارٹی کو اپنے اندر جمہوریت کو فروغ دینا چاہئے اور بجائے اس کے کہ آزمودہ کرپٹ لوگوں کو پھر سے نہلا دھلا کر سامنے لایا جائے، بلاول کو اپنی نئی ٹیم منتخب کرنی چاہئے۔ لوگ پرانی سیاست سے تنگ آ چکے ہیں اور پرانے چہروں سے بھی۔ یہی وہ عوامی اکتاہٹ ہے جو عمران خان کو سیاسی گمشدگی سے سیاست کے مرکز میں لے آئی ہے۔ پنجاب اور پختونخوا میں اُن کا مقابلہ اصل میں عمران خان کے ساتھ ہے جو پیپلز پارٹی کی جگہ لے رہے تھے۔ جو بات بلاول کے حق میں جاتی ہے کہ غریب عوام ابھی بھی بھٹوز کی مالا جپتے ہیں۔
تازہ ترین