میں کار میں ڈھائی سو گالیاں رکھ کر گھر سے نکلا۔
راستے میں ایک کولیگ کو لفٹ دی۔
پہلے چوراہے پر ایک رکشا سامنے آگیا۔
میں نے بیس بائیس حسرتوں کا اظہار کیا۔
پھر ایک موٹرسائیکل والا سامنے آکر مرتے مرتے بچا۔
اسے پچیس توپوں کی سلامی دی۔
پھر ایک بس نے راستہ روکا۔
وہاں سوا سو نکات کا خطبہ دیا۔
دفتر پہنچ کر پوچھا، ’’کتنی گالیاں بچیں؟‘‘
کولیگ نے گن کر بتایا، ’’تین سو۔‘‘
میں حیران ہوا، ’’لیکن راستے میں تو بہت سی تقسیم کردی تھیں؟‘‘
کولیگ نے کہا،
’’ہاں، لیکن دوسروں نے بھی تو تمہیں تحفے دیئے ہیں۔‘‘