• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ملک سے باہر جب بھی کوئی نکلتا ہے اسے دور سے ملک کچھ بدلا بدلا یا جسے انگریزی میں Big Picture کہتے ہیں وہ نظر آنا شروع ہوجاتی ہے۔ یہاں واشنگٹن میں ملک کی خبریں ٹی وی پر دیکھ کر اب ایسا لگتا ہے کہ سب کچھ ڈوب رہا ہے اور امید کی کرنیں کم ہوتی جا رہی ہیں۔ ایک خاتون نے وزیراعظم میاں نواز شریف کو کراچی میں مزار قائد پر دیکھ کر ایسا تبصرہ کیا کہ دنگ رہ گیا۔ کہنے لگیں ہمارے وزیراعظم اتنے پریشان کیوں دکھائی دے رہے ہیں۔ وہ بے بس اور خوفزدہ کیوں نظر آتے ہیں۔ کیا 50 دن بعد ہی ان کو یہ معلوم ہو گیا کہ یہ حالات ان کے قابو میں آنے والے نہیں ہیں اور انہیں بھی جناب زرداری کی طرح مفاہمت کی پالیسی چلا کر جتنے سال حکومت چل سکتی ہے چلا لینی چاہئے اور زیادہ سے تبدیلی کی بات نہیں کرنی چاہئے۔ خاتون خانہ کی بات سن کر میں سوچنے پر مجبور ہو گیا کہ ان کو زرداری صاحب اور نواز شریف کی پالیسیوں میں کونسی مماثلت نظر آرہی ہے۔ ذہن پر زور ڈالا تو ایک ایک کر کے چیزیں ملتی جلتی لگنے لگیں۔ مثلاً زرداری صاحب نے اپنے پرانے اور منجھے ہوئے لیڈروں کو سائیڈ پر لگا دیا تھا اور ایک نئی ٹیم بنائی تھی جو ہر شعبے کو کنٹرول کرتی تھی۔ ان کی ٹیم میں رشتے دار اور دوست اہم تھے یعنی اویس مظفر ٹپی، ڈاکٹر عاصم حسین، رحمن ملک، راجہ اشرف، عبید جتوئی، ڈاکٹر قیوم سومرو وغیرہ۔ پرانے لوگ یعنی رضا ربانی، اعتزاز احسن، تاج حیدر، نفیس صدیقی، امین فہیم، ڈاکٹر صفدر اور ناہید خان سب کھڈے لائن لگے ہوئے تھے اگر کسی کا کہیں چھوٹا موٹا ہاتھ لگ گیا تو لگا لیا ورنہ شام کو مشروبات کے ساتھ قیادت کو گالیاں دینا صرف رہ گیا تھا۔ میاں صاحب نے جو ٹیم بنائی ہے وہ بھی کچھ ایسی ہے۔ ان کی اے ٹیم میں شہباز شریف، اسحاق ڈاراور عابد شیر علی سمیت جو رشتے داروں کی ٹیم ہے بی ٹیم میں خواجہ آصف، پرویز رشید، سعد رفیق اور احسن اقبال ہیں جبکہ پرانے بابے سرتاج عزیز، غوث علی شاہ، جھگڑا صاحب، ظفر علی شاہ اور مہتاب عباسی ابھی کھڈے لائن لگے ہیں۔ صدارت اور پنجاب کی گورنری اپنے ذاتی محسنوں کو دے دی گئی ہے جس طرح زرداری صاحب نے ایک ڈمی وزیراعظم رکھنا پسند کیا چاہے وہ گیلانی تھے یا راجہ اشرف۔ میاں صاحب نے بھی اسی روایت کو نبھایا ہے۔ اب وہ میرٹ کی ساری باتیں نظر آنا بند ہو گئی ہیں۔ پریشانی تو یہ ہے کہ میاں صاحب نے بڑے زور شور سے بیان دیا تھا کہ نیا آرمی چیف سب سے سینئر جنرل ہو گا یعنی یہ عہدہ آٹومیٹک طریقے سے پر ہوجائے گا مگر اب خبریں آرہی ہیں کہ جرنلوں کے انٹرویو ہو رہے ہیں تو اس کا مطلب ہوا جو انٹرویو میں پاس ہو گیا وہ چیف بنے گا اور سینیارٹی گئی ایک طرف۔ پھر اور غور کیا تو سمجھ میں آنے لگا کہ میاں صاحب نے کراچی میں متحدہ اور پیپلزپارٹی سے جو مفاہمت شروع کی ہے وہ بھی زرداری صاحب کی کتاب کا ہی ایک باب ہے یعنی سب کو ملا کر ساتھ لے کر چلو جو پہلے کھا پی گئے ان کو بھول جاؤ اور مٹی پاؤ کی پالیسی رکھو اور نئے اربوں کھربوں کے منصوبوں کی بات کرو۔ چین گئے تو وہاں بھی زرداری کی طرح Mous پردستخط کر آئے اور جہاں زرداری خود موجود ہوتے تھے وہاں میاں صاحب نے اپنے ہونہار بچوں اور بھتیجوں کو شامل کر لیا جس طرح زرداری صاحب کا ایک خاص سرکل تھا امیر پرائیویٹ جیٹ جہاز رکھنے والوں کا اس طرح اب ایک نیا سرکل سامنے آرہا ہے۔ وہی آنیاں جانیاں ہیں۔ ملک میں جیلیں ٹوٹ رہی ہیں اور خطرناک قیدی فوج انٹیلی جنس ایجنسیوں، رینجرز، پولیس اور بڑے چھوٹے سرکاری افسروں کی موجودگی میں رہا کروا کر لے جائے جا رہے ہیں تو میاں صاحب بے بسی کے عالم میں کراچی میں شکوہ کرتے نظر آئے کہ ملک کا کیا حال ہو گیا ہے۔ وزیراعظم کو تو شکوے کے بجائے حکم دینا چاہئے تھا کہ جو جو بھی ذمہ دار ہے وہ فوری طور پر معطل کیا جاتا ہے اور ایک بھرپور آپریشن شروع کیا جاتا ہے ان دہشت گردوں کے خلاف۔ مگر یہاں تو لگ رہا ہے سب کو علم تھا کہ لوگ قیدی چھڑانے آرہے ہیں اور بھاگنے کا بندوبست کرو۔ خود میاں صاحب بجائے قومی سلامتی کی کانفرنس فوری طور پر بلانے کے سعودی عرب چلے گئے جیسا زرداری صاحب کرتے تھے۔ ملک میں سیلاب آرہے ہیں اور لوگ درجنوں کے حساب سے مر رہے ہیں مگر حکومت کو جلدی تھی کہ فوراً ان کا صدر منتخب ہو اور وزیراعظم غیرملک روانہ ہوں۔ یعنی وہی پچھلی حکومت کی Take it easy پالیسی ہے۔ کراچی ڈوب جائے تو کراچی والے جانیں اور سندھ والے جانیں۔ پنجاب بلوچستان اور خیبر میں سیلاب آئے تو وزیراعظم کو کوئی فکر نہیں۔ یوں لگتا ہے وزیراعظم صاحب نے مصباح الحق کی طرح ٹیسٹ میچ کی اننگ شروع کی ہے اور ٹک ٹک سے کام چلا رہے ہیں جب ضرورت پڑی ایک آدھ رن بنا لیں گے ورنہ موٹر وے اور چین سے گوادر تک چھکے اور چوکے لگانے کے خواب دکھاتے رہیں گے۔حیرانگی تو یہ ہے کہ بڑے بڑے دعوے لے کر آنے والے عمران خان صاحب بھی آنکھیں چراتے پھر رہے ہیں خاص کر جیل کے توڑے جانے کے بعد ان کی حکومت کا یہ پہلا بڑا امتحان ہے مگر وہ عدالت سے الجھ پڑے ہیں اور جانتے ہوئے یا انجانے میں پیپلز پارٹی کے جال میں پھنس رہے ہیں۔ اعتزاز احسن اور علی احمد کرد چاہتے ہیں عمران خان عدالت عظمیٰ سے بڑا پنگا لیں اور ایک ایسی محاذ آرائی ہو جس میں یہ دو وکیل حضرات اپنے بدلے چکا سکیں۔ چاہئے تو یہ تھا کہ عمران خان فوری طور پر خیبر کی حکومت کو معطل کرتے یا وزیرداخلہ اور پولیس والوں کو اور چیف سیکرٹری کو گھر بھیج کر تفتیش کراتے کہ کیوں بروقت ایکشن نہیں لیا گیا مگر خان صاحب کو ابھی رموز مملکت سیکھنے میں شاید وقت لگے گا وہ چیف جسٹس اور عدالت سے ایک نان ایشو یعنی صدر کے الیکشن پر لڑنے کے بجائے پشاور اور ڈی آئی خان جا کر ڈیرہ ڈالتے اور یہ ملک وقوم کو پیغام دیتے کہ اب اس طرح کے حملے ریاست پر برداشت نہیں کئے جائیں گے مگر وہ اڑے ہوئے ہیں کہ جنرل کیانی ان کے سامنے سچ بولیں کہ فوج نے امریکہ سے کیا معاہدے کئے ہیں۔ فرض کیجئے ایک بند کمرے میں انہیں سب کچھ بتا دیا جاتا ہے اور یہ بھی کہ اگر کوئی غلط قدم اٹھایا گیا تو کیا نقصان ہو گا تو پھر عمران خان کیا کریں گے۔ ان کی حکومت کو صوبہ اور سیاست کا انتظام تو پھر بھی چلانا ہو گا مگر وہ بجائے اپنی کارکردگی دکھانے کے خالی دوسروں پر تنقید سے کام چلا رہے ہی جو زیادہ دن چلنے والا نہیں۔
اس سارے طائرانہ جائزے کے بعد دور سے ملک کی صورتحال کچھ بہتر ہوتی نظر نہیں آرہی۔ لگ رہا ہے اینٹ کے بعد اینٹ گر رہی ہے اور عمارت کی بنیادیں ہل رہی ہیں لوگ تماشا دیکھ رہے ہیں اور باہر کے ملکوں میں ٹھکانے بنا رہے ہیں ملک میں پھر ہم آپ ہی رہ جائیں گے ایک دوسرے کا گریباں پھاڑیں گے۔
تازہ ترین