• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہر چھوٹے ، چھوٹے اور کھوٹے آدمی کی طر ح مجھے خوش فہمی ہے کہ پچھلے ہفتے میری غیر حاضری کے بارے میں آپ شش و پنج میں پڑ گئے ہوں گے۔ آپ نے سوچا ہوگا کہ سچے اور کھرے لوگو ں کے معاشرے میں دیدہ و دانستہ جھوٹ بولنے والا واحد شخص کہاں غائب ہوگیا؟ بالم اس قابل تو تھا نہیں کہ اسے تاوان کے لئے کسی نے اغوا کر لیا ہو۔ اسے کسی نے غلطی سے اغوا کر بھی لیا ہو تو وہ سر پیٹتا رہ جائے گا۔ اسے اغوا کرنے والوں سے چھڑانے کے لئے کوئی دوٹکے دینے کے لئے رضا مند نہیں ہوگا۔ اس دوران جھوٹی باتیں بتا بتا کر بالم اغوا کرنے والوں کو حواس باختہ کردے گا۔ وہ اسے دس روپے اور ایک وقت کا کھانا دے کر چھوڑ دیں گے۔ آپ سب کی اصلاح کے لئے عرض کردوں کہ میرے ساتھ ایسا کچھ نہیں ہوا تھا۔ پچھلے ہفتے دو ناپسندیدہ کام میرے گلے پڑ گئے تھے۔ میں مانتا ہوں کہ ماضی بعید میں ایسے کام میں ہنسی خوشی کر لیتا تھا۔ میں اگر یہ کہہ دوں کہ ایسے کام میرے لئے روزگار کا ذریعہ تھے تو یہ بات غلط نہیں ہوگی۔ ایک عامل کامل پیر سائیں کی مریدی کرتے ہوئے میں نے گڑھے مردے کھود کر قبروں سے نکالنے اور ان سے چنچل ٹی وی چینل کے لئے انٹرویو لینے کا ہنر سیکھ لیا تھا۔ اس کے علاوہ میں نے روحوں کو بلانے اور ان سے راز و نیاز کا عمل سیکھ لیا تھا۔ اس دوران میں نے عامل کامل پیر سائیں سے تعویز گنڈے اور جادو ٹونے کرنے کا علم بھی سیکھ لیا تھا۔ روحوں اور غیبات سے مسلسل رابطے میں رہتے ہوئے میرا دماغ چکرا گیا تھا۔ چلتے پھرتے، چنگے بھلے لوگ مجھے کبھی مردے، کبھی بھٹکتی ہوئی آتمائیں اور کبھی جن دکھائی دینے لگے تھے۔ ہر خوبصورت عورت مجھے ڈائن لگتی تھی۔ میری گرل فرینڈ کسی سے کم خوبصورت نہیں تھی۔ وہ بھی مجھے چڑیل دکھائی دینے لگی تھی ۔ وہ ایئر ہوسٹس تھی۔ مجھے مجذوب جان کر اس نے مجھ سے کنارہ کشی کرلی تھی۔ ایک مر تبہ امریکہ سے پاکستان آتے ہوئے پرواز کے دوران ایک سندھی سردار سائیں نے جو ایم این اے تھا اور بار بار وزیر بنتا تھا، اسے شادی کے لئے پروپوز کیا۔ پاکستان میں لینڈ کرنے کے فوراً بعد دونوں نے شادی کرلی ۔ جو دھوم دھام سے ہوئی تھی جس میں قومی اسمبلی کے تمام ممبروں نے مع اسپیکر کے شرکت کی تھی اور صدر مملکت بھی تشریف لے آئے تھے۔ وہ ایک یادگار شادی تھی اس شادی کا تذکرہ آئین میں آتے آتے رہ گیا تھا۔
مجھے دکھ ہوا تھا۔ میں نے مُردوں سے باتیں کرنا، روحوں کو بلانا اور غیبات سے رابطے میں رہنا چھوڑ دیا۔ میں نے سوچا میں دنیا میں نیک کام کروں گا، لوگو ں کے دکھ دور کروں گا۔ گپی اور گپی کی طرح کھپی اور دیگر ساہو کاروں اور ارب اور کھرب پتیوں کی طر ح میں دو لت مند تو ہوں نہیں کہ ان کی طرح ملک میں اسکول، کالج اور یونیورسٹیوں کے جال بچھادوں۔ اسپتالوں اور کلینک کھولوں۔ غریبوں ، یتیموں اور بیواؤں کے لئے فلاحی ادارے قائم کروں۔ ملک سے مفلسی اور جہالت کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینک دینے کے لئے منصوبے بناؤں اور ان منصوبوں پر عمل کروں۔ میں ٹھہرا اللہ سائیں کا آدمی۔ جو دے اس کا بھی بھلا جو نا دے اس کا بھی بھلا۔ ٹھیک ہے میں ساہوکاروں کی طرح فلاحی کام نہیں کر سکتا جنہوں نے ہر طرح سے پاکستان کو خوشحال بنا دیا ہے۔ میں مولائی اپنے طور پر کچھ تو کر سکتا ہوں! مگر کیا کروں؟ میں نے اپنے بے انتہا خوشحال ملک پرنظر ڈالی۔ مجھے حیرت ہوئی کہ لوگ پچھلے چھیاسٹھ برسوں سے سچ سنتے، سچ بولتے اور سچ لکھتے لکھتے بیزار ہوچکے ہیں۔ حاکموں نے اس قدر سچ بولا ہے کہ لگاتار سچ سنتے سنتے لو گوں کے کان پک گئے ہیں۔ ان کے پکے ہوئے کانوں سے کیڑے گرنے لگے ہیں مگر سیا ستدانوں کو کون سمجھائے کہ بھائی سچ بولنا بند کرو۔ لوگ سچ سنتے سنتے نیم پاگل ہوگئے ہیں اور علاج کے لئے نیم حکیموں سے رجوع کر رہے ہیں۔ جس طرح لگا تار میٹھا کھانے سے ایک شخص شوگر یعنی ذیابیطس کے مرض میں مبتلا ہو جاتا ہے، اسی طرح لگاتار سچ سننے سے ایک شخص کو نامعلوم بیماریاں گھیر لیتی ہیں۔ میں نے سوچا اس معاشرے کو اب منہ کا ذائقہ بدلنے کے لئے جھوٹ سننے کی سخت ضرورت ہے ورنہ معاشرہ ذیابیطس کا شکار ہوجائے گا۔ وہ دن اور آج کا دن میں جھوٹ بولتا ہوں اور جھوٹ لکھتا ہوں اور وہ بھی ڈنکے کی چوٹ پر۔ اتنے بڑے ملک میں جہاں لوگو ں سے صرف سچ بولا جاتا ہے اور سچ کے سوا کچھ نہیں بولا جاتا، کوئی ایک بدبخت تو ہو جو جھوٹ بولے اور کھلم کھلا جھوٹ بولے۔
اب آپ پوچھیں گے کہ پچھلے ہفتے میں اچانک کہاں غائب ہو گیا تھا؟ اب میں آپ سے کیا چھپاؤں، ماضی میں میری وجہ شہرت میرے گلے پڑ گئی تھی۔ دوستوں نے دو کام مجھے سونپ دیئے تھے ۔ ایک یہ کہ ہمارے نئے صدر مملکت کی آمد آمد ہے ۔ ہمارے پچھلے صدر صاحب تعویز گنڈوں اور جادو ٹونوں میں مکمل یقین رکھتے تھے۔ شام ڈھلے اگربتیاں اور لوبان جلاتے تھے۔ ایوان صدر کے کو نے کونے میں جنتر منتر پڑھواتے تھے ۔ آدھی رات کے بعد انہیں ایوان صدر میں کسی کے چیخنے چلانے کی آوازیں سنائی دیتی تھیں۔ انہیں شبہ تھا کہ ایک پراسرار خاتون کالے لباس میں ملبوس، ہاتھ میں موم بتی تھامے ایوان صدر میں چلتے پھرتے نظر آئی تھی ۔ میرے پرانے دوستوں نے میرے ذمہ کر دیا کہ میں ایوان صدر جاکر ایوان صدر کو تعویز گنڈوں اور جادو ٹونو ں کے اثرات سے صاف کردوں تاکہ نئے صدر صاحب کو ایوان صدر میں آدھی رات کے بعد کسی کے چیخنے چلانے کی آوازیں سنائی نہ دیں اور انہیں کالے لباس میں ملبوس ایک پراسرار عورت ہاتھ میں موم بتی تھامے ایوان صدر میں گھومتے پھرتے نظر نہ آئے، میں نے اپنی ذمہ داری پوری کر دی۔ ایوان صدر کو جادو ٹونوں اور تعویز گنڈوں کے اثرات سے پاک کر دیا لیکن ایک گونج کا میں سدباب نہ کرسکا۔ ایوان صدر کے کونے کونے سے حتیٰ کہ درجنوں باتھ روموں سے وہ صدا مجھے سنائی دی ،کھپے کھپے کھپے۔
دوسرا کام بھی ماضی میں میری وجہ شہرت کے عین مطابق تھا ایک خفیہ ایجنسی میں کام کرنے والے میرے دوست بدرو اور قمرو کسی خودکش حملہ آور کا سر میرے پاس لے آئے اور کہا کہ میں اس سے پوچھوں کہ ایک اہم شخص کو اس نے کیوں قتل کیا؟ اور اسے قتل کرنے کی سپاری اس نے کس سے لی تھی؟ لوبان سے اٹھے ہوئے دھوئیں میں تنتر منتر جنتر پڑھتے ہوئے میں نے خودکش حملہ آور کی منڈھی یعنی سر سے پوچھا کہ اس نے ایک اہم شخص کو کیوں اور کس کے کہنے پر مارا تھا، تو خودکش حملہ آور کے سر نے جو جوابات دیئے وہ ہلا کر رکھ دینے والے تھے جوکہ میں اپنے قصے میں نہیں لکھ سکتا اگر لکھ دیتا تو یہ قصہ آج آپ کبھی نہیں پڑھ رہے ہوتے اور پھر مجھے ایک ہفتہ غائب رہنا پڑتا۔
تازہ ترین