• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کرکٹ کا تماشہ سجانے والے بھی بڑے ہوشیار لوگ ہیں، انہوں نے اتوار کے دن ساؤتھ ایشیا سے تعلق رکھنے والی ٹیموں کے میچ رکھے کیونکہ انہیں اندازہ ہے کہ بڑی تعداد میں بھارتی، پاکستانی، بنگلہ دیشی اور کسی حد تک سری لنکن بھی امارات میں رہتے ہیں۔ 

پہلا میچ بنگلہ دیش اور سری لنکا کے مابین تھا جبکہ دوسرا میچ کرکٹ کی دنیا کا سب سے بڑا ٹاکرا پاکستان اور بھارت کے درمیان تھا۔ پہلے میچ میں سری لنکا نے بنگلہ دیش کو پانچ وکٹوں سے ہرایا۔ 

کرکٹ سے ہٹ کر سری لنکا پاکستان کا اتحادی ہے اس لئے پاکستانیوں کی ہمدردیاں سری لنکا کی طرف زیادہ ہو جاتی ہیں۔ بنگلہ دیش میں جب بھی شیخ مجیب الرحمٰن کے خاندان کی حکومت ہوتی ہے تو بنگلہ دیش کا خواہ مخواہ جھکاؤ بھارت کی طرف ہوتا ہے۔ 

شاید اس کی بڑی وجہ یہ ہو کہ شیخ حسینہ واجد نے اپنی جلاوطنی کے چھ سال دہلی میں گزارے تھے، وہ ہندوستان سے محبت کے چکر میں پاکستان کو ہمیشہ نیچا دکھانے میں لگی رہتی ہیں۔ 

اس میں کوئی شک نہیں کہ آج کل بنگلہ دیش میں ہندو مسلم فسادات کی آگ بھڑکی ہوئی ہے۔ قدرت کا کیا انصاف ہے کہ یہ آگ اسی شہر میں بھڑکی ہے جسے ہندوستانیوں اور بنگالیوں کی محبت کی علامت سمجھا جاتا ہے کیونکہ اسی شہر میں مکتی باہنی کا بیس کیمپ بنا تھا۔ 

رنگ پور شہر سے پھوٹنے والے فسادات نے حسینہ واجد کے لئے نئی مشکلات کھڑی کر دی ہیں۔ واضح رہے کہ ان فسادات کا دائرہ پھیل گیا ہے۔

ابھی لوگ سری لنکا کی جیت کے مزے لے رہے تھے کہ بابر اعظم نے ٹاس جیت کر کوہلی کو بیٹنگ کی دعوت دی۔ ٹاس کی اس ہار ہی سے بھارت کی شکست کا آغاز ہو گیا تھا، شاہین شاہ آفریدی نے راہول، روہت سمیت ویرات کوہلی کو بھی رول کے رکھ دیا۔

آفریدی بھارتی ٹیم کو ایسا دبائو میں لائے کہ پھر بھارتی ٹیم اس دبائو سے نکل نہیں سکی۔ پاکستانی بائولنگ کے جادو سر چڑھ کر بول رہا تھا، بھارتی بلے باز پورے میچ میں بےبس نظر آئے۔ کپل دیو کے مطابق ’’152کا اسکور چھوٹا نہیں تھا مگر پاکستانی اوپنرز نے کسی لمحے بھی اعتماد نہیں کھویا بلکہ میچ کو یکطرفہ بنا کر رکھ دیا‘‘۔ 

یہ باتیں تو بھارتی کپتان ویرات کوہلی بھی مانتے ہیں کہ پاکستانی بائولرز نے اپنی کلاس کو منوایا اور ہمیں آئوٹ کلاس کر دیا۔ سچی بات یہ ہے کہ ہر بال پر بھارتی غرور خاک میں ملتا رہا۔میچ سے قبل بڑی بڑی بڑھکیں مارنے والے بھارتیوں کو کیا پتہ تھا کہ اس مرتبہ آسیب کا سایہ ختم ہو چکا ہے اور پاکستانی ٹیم پہلے جیسی نہیں۔

سنا ہے کہ گرائونڈ میں 90فیصد شائقین بھارتی تھے مگر جیسے جیسے میچ آگے بڑھتا گیا ہندوستانیوں کے لئے مایوسیوں کے سائے دراز ہوتے گئے۔ بس پھر وہ ٹوٹے دلوں کےساتھ بوجھل قدموں سے گھر چلے گئے۔ پاکستانی شائقین اپنی شاندار فتح پر خوش تھے۔

دنیا کے جس بھی کونے میں پاکستان سے محبت کرنے والا جو کوئی بھی تھا اس نے دل کھول کر محبت کا اظہار کیا۔ پاکستان کے اندر ایک کونے سے لے کر دوسرے کونے تک خوشی کا سماں تھا۔ 

بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں نے بھی بھرپور جشن منایا۔ مقبوضہ کشمیر کے شہر سری نگر سمیت مختلف شہروں میں جشن منایا گیا۔ سری نگر میں آتش بازی کی گئی اور پاکستان زندہ باد کے نعروں سے ماحول گرمایا گیا۔

جیت کے اس موقع پر وزیراعظم عمران خان، صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی، وزرائے اعلیٰ سمیت اپوزیشن اور عسکری حکام کی طرف سے مبارکباد دی گئی۔ کپتان نے کپتانی کو سراہا، آرمی چیف جنرل باجوہ نے اس فتح کو دشمن کو بدترین شکست دینے سے تعبیر کیا۔ 

سب سے مزے دار بیان عثمان بزدار نے داغا، انہوں نے کہا ’’کاغذی شیروں کو شاہینوں نے شکست دی ہے‘‘ عثمان بزدار کا بیان بھرپور سیاسی ہے، وہ اپنی بات کر گئے ہیں۔ ٹیم کے ساتھ ساتھ رمیز راجا کو بھی مبارک ہو کہ پی سی بی کا چیئرمین بننے کے بعد پہلا میچ تھا۔ 

جو لوگ کرکٹ سمجھتے ہیں وہ رمیز راجا کے چیئرمین بننے پر خوش ہیں کیونکہ پرانے کرکٹروں میں صرف رمیز راجا ہی ایسے ہیں جنہوں نے کسی نہ کسی روپ میں خود کو کرکٹ سے جوڑے رکھا۔ انہوں نے پاک بھارت ٹاکرے سے پہلے کھلاڑیوں کا حوصلہ اور ہمت بڑھانے کے لئے بڑی شاندار گفتگو کی۔

سابقہ حکومتیں کبھی کسی کو چیئرمین بناتی تھیں تو کبھی کسی کو۔ یہاں ایسی شخصیات کو بھی چیئرمین پی سی بی بنایا گیا جنہیں کرکٹ کی الف ب کا بھی پتہ نہیں تھا۔محض سیاسی رشوت کی بنا پر کرکٹ بورڈ کی چیئرمینی عنایت کر دی جاتی تھی۔

مگر بعض لوگ بڑے یادگار کام کر جاتے ہیں۔ خیبرپختونخوا کے لڑکوں پر پی سی بی کے دروازے بند تھے۔ جنرل توقیر ضیاء کرکٹ بورڈ کے چیئرمین بنے تو یہ بند دروازے کھل گئے۔ 

قصہ کچھ یوں ہے کہ جونہی جنرل توقیر ضیاء پی سی بی کے چیئرمین بنے تو انہوں نے کہا کہ وہ لڑکا ڈھونڈو جو مردان کا رہنے والا ہے۔ جب میں وہاں جی او سی تھا تو وہ بہت شاندار بیٹنگ کرتا تھا جن کی ذمہ داری لگائی گئی انہوں نے لڑکے کا نام پوچھا تو جنرل توقیر ضیاء نے کہا کہ اس لڑکے کا نام یونس خان تھا۔ 

پتہ کروانے پر معلوم ہوا کہ غربت اور بیروزگاری کی وجہ سے یونس خان کراچی چلا گیا اور اس نے وہاں اسٹیل مل میں نوکری کر لی ہے۔ توقیر ضیاء نے بندے اسٹیل مل دوڑائے جنہوں نے یونس خان کو ڈھونڈ نکالا، اسی شام یونس خان کراچی سے لاہور پہنچا تو جنرل توقیر ضیاء نے کہا کہ صبح سری لنکا کے خلاف میچ کھیلنا ہے، مردان کے یونس خان نے سنچری بنا ڈالی۔ 

یہیں سے خیبرپختونخوا کے لڑکوں کے لئے کرکٹ کے دروازے کھلے۔ آج پوری قوم جن دو اوپنرز پر ناز کر رہی ہے، ان میں لاہور کا بابراعظم اور پشاور کا محمد رضوان ہے۔ 

پورا پاکستان ٹیلنٹ سے بھرا ہوا ہے۔ رمیز راجا کی نگاہیں شاہنواز دھانی کے علاوہ بلے بازی میں کلیم اللہ طور پر جانی چاہئیں، آپ سب کو پھر سے جیت مبارک کہ بقول احمد ندیم قاسمی ؎

خدا کرے میری ارضِ پاک پر اترے

وہ فصلِ گل جسے اندیشۂ زوال نہ ہو

تازہ ترین