• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بہت پرانی بات ہے کہ ہماری ایک گلوکارہ نیئرہ نور نے ایک بڑی خوبصورت غزل گائی تھی جس کے بول تھے
اے جذبہ دل ،گر میں چاہوں
ہر چیز مقابل آجائے
منزل کے لئے دو گام چلوں
اور سامنے منزل آجائے
یہ علیحدہ بات ہے کہ اس غزل کو گانے کے بعد نیئرہ نورسے تو منزل کھو گئی ، یہ غزل ہمیں ان دنوں اس لئے یاد آرہی ہے کہ آج وطن پاکستان کے جو حالات ہیں وہ دنیا کے کسی ملک کے نہیں، دہشتگردی تو چل ہی رہی ہے لیکن اس ملک کے کونے کونے میں رشوت کا دہشتگرد گھس چکا ہے اور جس طرح یہ رشوت خور اور رشوت دینے والے دونوں اس ملک کی جڑوں کو کھوکھلا کررہے ہیں آنے والا زمانہ ضررو اس کی بڑی ہیبت ناک تاریخ لکھے گا۔ ایسے واقعات لکھے جائینگے جس کو سن کر ا ور پڑھ کر ہر کوئی حیران رہ جائیگا۔ہم نے اس غزل میں تھوڑی سی ترمیم کردی ہے اب ملاحظہ فرمائیں۔
اے جذبہ رشوت، گر میں چاہوں
ہر کام میں رشوت مل جائے
رشوت کے لئے ہاتھ بڑھاؤں
اور سامنے رشوت آجائے
1948ء کا آہنگ پڑھ لیں جس میں لکھا ہے کہ پاکستان میں راشی افسران بڑھتے جارہے ہیں رشوت عام ہورہی ہے۔ اب تو 2013ء ہے خود ہی سوچ لیں اب کیا عالم ہوگا،
یہ عالم شوق کا دیکھا نہ جائے
حدیث پاکﷺہے کہ رشوت لینے والا اور دینے والا دونوں جہنم میں جائیں گے۔ یہ کیسے پاکستانی مسلمان ہیں جو دو دو ہاتھوں سے جہنم کے بزنس پلس کے ٹکٹ خرید رہے ہیں اور خوشی سے بغلیں بجارہے ہیں۔ ادھر رشوت لیتے ہیں ادھر حاضری دینے چل پڑتے ہیں ۔غریبوں کو کھانے کھلانے سے رشوت حلال نہیں ہوجاتی۔ حال ہی میں ایک محکمہ کے ایڈیشنل سیکرٹری نے ایک ایم پی اے کے بھائی سے پچاس ہزار روپے رشوت لے لی اور متعلقہ دلیر وزیر نے نہ صرف اس کو فوراً تبدیل کردیا بلکہ اس کی انکوائری بھی کرارہے ہیں ۔آج سیکرٹریٹ میں محکمہ صحت اور چند دیگر محکموں میں سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ رشوت کے بغیر کوئی جائز کام بھی ہوسکے۔ میرٹ پالیسیوں کی سفارش اور رشوت کے آگے دھجیاں بکھیری جارہی ہیں۔ حکومت کی پالیسی ہے کہ جس ڈاکٹر یعنی ٹیچنگ پروفیسر کی ترقی ہوگی اس کو لازمی طور پر ساؤتھ پنجاب میں ایک سال سے دو برس ڈیوٹی کرنا ہوگی مگر یہاں پر اگر کسی پروفیسر کی عزیز داری کسی بیوروکریٹ سے ہے یا خود پروفیسر کا خاوند یا بیوی یا بھائی بیوروکریٹ ہے وہ ترقی کے باوجود لاہور سے نہیں جاتا کہیں تو خادم اعلیٰ پنجاب کو ایک لسٹ اس سلسلے میں پیش کی جاسکتی ہے اور اپنے کالم میں آئندہ ذکر بھی کردیا جائے گا۔ اس وقت دس کے قریب ایسے پروفیسرز ہیں خدا کی قسم محکمہ صحت میں ایسے عجوبے واقعات کی بھرمار ہے کہ خدا کی پناہ”صرف ایک بار وزیر اعلیٰ میاں شہباز شریف ان پر نظر تو ڈال لیں تو پتہ چلے گا کہ کیا ہورہا ہے؟“اس وقت ادویات کی خریداری، مشینری کی خریداری ہر ایک میں کرپشن عروج پر ہے۔خدا خدا کرکے ایک دلیروزیر صحت خلیل طاہر سندھو اس محکمے میں آئے ہیں۔ پتہ نہیں ان کے دلیرانہ اقدامات، بیوروکریسی برداشت بھی کرتی ہے یا نہیں۔ خدا ان کو ہمت دے تاکہ اس محکمے سے برائیاں ختم کرسکیں حال ہی میں ایک ٹی وی چینل نے محکمہ اینٹی کرپشن کے آفس کے باہر آنے والے سائلین کے انٹرویو دکھائے جس میں بے شمار غریب سائلین نے بتایا کہ ایک تو پہلے ہی ہم مختلف محکموں میں لوگوں کو رشوت کھلا کر یا رشوت کا تقاضا کرنے والوں کی شکایات لے کر آئے ہوئے ہیں اوپر سے یہاں کا عملہ بھی رشوت مانگتا ہے۔ ہم لوگ کدھر جائیں اب دو دو محکموں کو رشوت دیں، اگر محکمہ اینٹی کرپشن ہی نے رشوت لینی ہے تو پھر میاں صاحب اس محکمے کی کیا ضرورت؟ بند کریں اس محکمے کو لوگ تو رشوت دے ہی رہے ہیں۔ وہ دلچسپ خبر تو آپ نے پڑھ لی ہوگی کہ محکمہ اینٹی کرپشن کے اکاؤنٹنٹ کئی برس سے خراب کھڑی گاڑی میں پٹرول، کئی لاکھوں کا ڈالوا کر رقم ہڑپ کرچکے ہیں۔ اینٹی کرپشن کی کرپشن کے خلاف لوگ کس کے پاس جائیں ا ور اس خراب گاڑی کے نام پر جو لاکھوں روپے کاپٹرول ڈال لیا گیا اس کا حساب کس سے مانگا جائے۔
دوسری خبر بھی سن لیں کروڑوں روپے کی جعل سازی کرنے والا پٹواری اب تک اپنی سیٹ پر برا جمان ہے میاں صاحب کہتے ہیں کہ پٹواری کلچر بدل دیں گے۔ کلچر تو وہاں بدلا جاتا ہے جہاں کوئی کلچر ہو، جہاں کلچر ہی نہ وہاں کس کو تبدیل کریں گے؟ پٹواریوں کی جائیدادوں کا تو حساب کتا ب لیں، یہ ایسا ملک ہے جہاں پر ہر راشی ا فسر کی جائیداد اس کی بیوی یا بھائیوں کے نام ہوتی ہے اور وہاں آکر قانون بے بس ہوجاتا ہے۔ ارے بھائی یہ توچیک کرو کہ اس کی بیوی کے ماں باپ کیا کرتے تھے۔ ان کی جائیدادیں کیسے بنیں۔ قیام پاکستان کے بعد سب سے بڑا کاروبار جعلی پی ٹی اوز کا ہوا۔ سیٹلمینٹ آفس نے بھارت میں فقیروں کو یہاں کا روساء اور سیٹھ بنادیا۔ لوگ جعلی کلیم داخل کرکے ارب پتی ہوگئے۔ وفاقی حکومت پی آئی اے میں ایسی ایسی تقرریاں کررہی ہیں جنہیں دیکھ کر مجھے جہانگیر بادشاہ کا ایک قصہ یاد آگیا ہے ۔ملکہ نورجہاں ایک مرتبہ شدید بیمار ہوگئی، جہانگیر نے بڑے بڑے حکیموں سے علاج کرایا مگر آرام نہیں آیا، تو اس نے حکیم روح اللہ سے اپنی ملکہ کا علاج کرایا اللہ کے کرم سے ملکہ تندرست ہوگئی۔ بادشاہ نے حکیم کو منصب دیتے ہوئے اس کے آبائی وطن میں تین گاؤں بطور جاگیر عطا کئے ا ور چاندی میں اس کو تول کر وہ چاندی اس کو دی۔ آج پی آئی اے میں وہ لوگ بڑی بڑی آسامیوں پر آرہے ہیں اور نئے نئے عہدے بنائے جارہے ہیں جو پہلے کبھی نہ تھے۔ ان پائیلٹوں نے بڑے میاں صاحب کی دوران پرواز خدمت کسی زمانے میں کی تھی آج یہاں صلے پر آپ کو عہدے ملتے ہیں۔ چھوٹے میاں صاحب نے پچھلے پانچ برس کام کرکے اور محنت کرکے مسلم لیگ(ن)کو اس مقام تک پہنچایا کہ بڑے میاں جی وزیر اعظم بن گئے اب بڑے میاں جی ایسے ایسے فیصلے کررہے ہیں جس سے یقینا چھوٹے میاں جی کی محنت پر پانی پھر سکتا ہے ،چنانچہ وفاقی حکومت کو ایسی تقرریاں کرنے سے گریز کرنا چاہئے۔ میاں شہباز شریف میرٹ میرٹ کی بات کرتے ہیں اور میاں نواز شریف ایسے اقدامات کرکے بالکل میرٹ کی خلاف ورزی کررہے ہیں۔ اس وقت پورے ملک میں بڑے بڑی مالی سیکنڈل اعلیٰ عدالتوں میں زیر سماعت ہیں۔ عوام چاہتے ہے کہ ان کے فیصلے اب چند دنوں میں ہوجانے چاہئیں۔
آج پاکستان کے ہر محکمے میں کرپشن اور لوٹ مار زوروں پر ہے۔ چھوٹے میاں صاحب صرف لاہور کے ایک بڑے کلب میں بیٹھنے والے ریٹائرڈ بیوروکریٹس کے اخراجات جو وہ کھانے پینے پر خرچ کررہے ہیں ان کے بل تو چیک کرائیں۔ وہ یہ اخراجات کہاں سے دے رہے ہیں اکثر ممبر کہیں گے کہ ان کی بیگمات ممبر ہیں، وہ تو بیگمات کے ساتھ آجاتے ہیں۔ یہ واحد ملک ہے جہاں چور چوری کرکے بھاگ جاتا ہے ۔ ایک ایک بیوروکریٹ نے ایک ایک محکمے کو جس طرح لوٹا ہے اس کی داستانیں ہیں، سیکرٹریٹ میں ایک فائل بھی ایک انچ نہیں آگے بڑھتی جب تک سفارش اور رشوت نہ ہو۔
کئی برس قبل غلام علی نے بڑی خوبصور ت غزل گائی ہوئی ہے جو اس ملک کے غم زدہ لوگوں کی کہانی ہے۔
ہم کو کس کے غم نے مارا
یہ کہانی پھر سہی
کس نے توڑا دل ہمارا
یہ کہانی پھر سہی
دل کے لٹنے کا سبب پوچھو نہ سب کے سامنے
نام آئے گا تمہارا یہ کہانی پھر سہی
گورا چلا گیا مگر ہمارے افسران کے طور طریقے نہ بدلے۔ گورا افسر تو پھر انصاف دیتا تھا، اپنے افسر تو ناانصافی کی حدوں کو چھو جاتے ہیں اگلے روز ڈاکٹر فرید پراچہ نے میر خلیل الرحمن میموریل سوسائٹی کے سیمینار میں بڑی اہم بات کہی۔ انہوں نے کہا کہ آج پوری دنیا میں سب سے زیادہ جنازے روزانہ صرف مسلم ممالک سے اٹھتے ہیں۔ تمام مسلم ممالک 65 لاکھ فوج رکھنے کے باوجود آج یہیودیت اور عیسائیت کے آگے بے بس ہوچکے ہیں۔ بیت المقدس کی آزادی ایک خواب بنتی جارہی ہے اسرائیل کے ظلم و ستم کے ا ٓگے پتہ نہیں یہ مسلم ممالک کیوں خاموش ہیں؟ اگر کسی مسلم ملک کے قبضے میں یہیودیوں یا عیسائیوں کی کوئی ایسی مقدس جگہ ہوتی تو وہ کب کی یہ جگہ اس مسلم ملک سے آزاد کراچکے ہوتے ۔ یہ تمام خرابیا ں صرف کرپشن سے ہورہی ہے ہیں ۔ وہ مسلم ممالک جو فلسطین کی آزادی میں رکاوٹ ہیں وہ بھی کرپٹ ہیں اور کرپشن کے حصہ دار ہیں۔بیت المقدس کی آزادی کے لئے جذبے کی ضرورت ہے، وہی جذبہ
منزل کے لئے دو گام چلوں
اور سامنے منزل آجائے
اے جذبہ دل گر میں چاہوں
جہانگیر نے کہا تھا کہ”میں نے ایک سیر شراب اور ایک سیر گوشت کے عوض ہندوستان کی سلطنت نور جہاں کو لکھ دی“۔ یہاں اپنے ملک کی سلطنت پتہ نہیں کس کس نے کس کس کے نام کتنے میں فروخت کردی۔
تازہ ترین