• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے ڈپازٹ کا بڑا حصہ تین بینکوں میں

اسلام آباد (مہتاب حیدر) وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے ڈپازٹ کا بڑا حصہ تین بینکوں میں ہے۔ ان میں نیشنل بینک، بینک آف پنجاب اور عسکری بینک شامل ہیں۔ جب کہ ترجمان مشیر خزانہ کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف سے مذاکرات میں جلد اچھی خبر ملے گی۔ 

تاہم، ذرائع کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف چاہتا ہے کہ وسیع توازن فوری طور پر ہو جب کہ پاکستان حوالے سے مہلت کا خواہاں ہے۔ تفصیلات کے مطابق، نیشنل بینک آف پاکستان، بینک آف پنجاب اور عسکری بینک لمیٹڈ ان تین سرفہرست کمرشل بینکوں میں شامل ہے، جن کے پاس وفاقی اور صوبائی حکومتوں کا 30 جون، 2021 تک بڑا حصہ جمع ہے۔ 

آئی ایم ایف چاہتا ہے کہ کمرشل بینکوں میں حکومتی ذخائر کا بڑا حصہ وفاقی مستحکم فنڈز (ایف سی ایف) میں منتقل کرے جو کہ ٹریژری سنگل اکائونٹ (ٹی ایس اے)-1 کے تحت اسٹیٹ بینک آف پاکستان میں ہے۔ 

30 جون، 2021 تک نیشنل بینک آف پاکستان میں سب سے زیادہ حکومتی ڈپوزٹ یعنی 674.985 ارب روپے تھے جو کہ مجموعی رقم 24 کھرب 18 ارب روپے میں سے ہے۔ جب کہ عسکری بینک لمیٹڈ کے پاس 790.982 ارب روپے میں سے حکومتی ڈپوزٹ کا 257.515 ارب روپے ہے۔ 

اعلیٰ سرکاری ذرائع نے بروکریج ریسرچ ہاؤس میں سے ایک کی تحقیق کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ حکومت نے سرکاری ڈپازٹس کو اسٹیٹ بینک کے اکاؤنٹ نمبر ’’ایک ‘‘میں منتقل کرنے کی تجویز کے ساتھ TSA کے قیام کی تجویز پیش کی۔

اس کا مقصد سرکاری بینک کھاتوں کا ایک یونیفائڈ ڈھانچہ بنانا ہے جو حکومتی نقدی وسائل کی ایک جامع شکل پیش کر سکے۔وزارت خزانہ اپنے کیش بیلنس پر موثر کنٹرول حاصل کرنے کے لیے رقم کو اسٹیٹ بینک میں منتقل کرنا چاہتی ہے،اس کے نتیجے میں ایک ہی اکاؤنٹ میں وسائل کو اکٹھا کیا جائےگاجس کے نتیجے میں حکومت کی قرض لینے کی لاگت کو کم کرنے کی امید ہے۔

اس سے حکومت کو اپنے سرکاری کھاتوں کی تعداد کم کرنے میں بھی مدد ملے گی جس کے نتیجے میں ان اکاؤنٹس کو برقرار رکھنے کے لیے انتظامی لاگت میں کمی آئے گی۔

یہ بھی اندازہ لگایا گیا ہے کہ اگر حکومتوں کے ڈپازٹس کو SBP میں منتقل کیا جاتا ہے، تو بینکوں کے منی مارکیٹ کے سود کی وصولی اور ان ڈپازٹس پر ادا کیے جانے والے سود کے اخراجات کے درمیان بھٹکنے کے 2 فیصد امکانات ہونگے۔

کمرشل بینکوں کی جانب سے راتوں رات قرض دینے کے نتیجے میں اضافی ریٹرن کم ہو جائیں گے اور ساتھ ہی بینکوں کو دن کے آخر میں مرکزی بینک کو رقم منتقل کرنے کی ضرورت ہوگی۔

اس نمائندے نے وزیراعظم کے مشیر برائے خزانہ شوکت ترین اور سیکرٹری خزانہ یوسف خان کو سوال نامہ بھیجا ، تاہم خبر فائل کرنے تک ان کی جانب سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔ 

دریں اثنا سرکاری ذرائع کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف اسٹاف نے مالی اور اقتصادی پالیسیوں کی یادگار کا ابتدائی ڈرافٹ کا اشتراک پاکستانی حکام سے کیا ہے تاہم، اس میں مالی، زری اور شرح مبادلہ کے توازن کی رفتار پر اختلافات ہیں۔ 

آئی ایم ایف چاہتا ہے کہ وسیع توازن فوری طور پر ہو جب کہ پاکستان حوالے سے مہلت کا خواہاں ہے۔

اس حوالے سے جب وزیراعظم کے مشیر برائے خزانہ کے ترجمان مزمل اسلم سے رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ مذاکرات درست سمت میں جارہے ہیں اور جلد ہی آئی ایم ایف کے حوالے سے اچھی خبر ملے گی۔

تازہ ترین