• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
عمران خان کو معلوم ہونا چائیے کہ سیاسی زندگی بے رحم ہے،بقول چرچل جب کوئی لیڈر اپنی عظمت کی بلندی سے پھسلتا ہے یا گرتا ہے تو لوگ بے رحمی سے اس کی تکا بوٹی کردیتے ہیں۔عمران خان کہتے تھے کہ 2013تبدیلی کا سال ہے ،جوں جوں وقت گزررہا ہے یہ حقیقت عیاں ہوتی جارہی ہے کہ موجودہ سال تبدیلیوں کی سونامی لیکر نمودار ہوا ہے۔۔چھیاسی سالہ بزرگ فخر الدین جی ابراہیم سے لے کر جعفر آباد کی تحصیل صحبت پور کے چراسی سال بزرگ کو ایوان اقتدار میں پہنچانے والا یہی سال تھا۔خود میر ہزار خان کھوسو کہا کرتے تھے کہ مجھے اپنا وزیر اعظم بننا معجزہ لگتا ہے اور میں انتہائی انکساری سے مسکرا کر کہا کرتا تھا اتنے معجزے ہورہے ہیں تو ایک معجزہ اور سہی۔اب جب عدلیہ کے افتخار ،فوج کے سپہ سالار اور ایوان صدر کے مقیم اپنی ملازمت کے آخری ایام میں ہیں ۔ایک جمہوری حکومت دوسری جمہوری حکومت کو اقتدار منتقل کرکے جاچکی ہے ۔مگر کچھ زخم اب بھی ہرے کے ہرے ہیں ۔گزشتہ پانچ سالوں میں جس طرح قومی خزانے کو لوٹا گیا ۔اس کی شاید ہی کوئی نظیر ملتی ہو۔ایفیڈرین کوٹہ سے لے کر اوگرا اسکینڈل ہو یا ایمپلائیز اولڈ ایج بینیفٹ انسٹیٹیوشن کا اربوں روپے،ہر طرف لوٹ مار کا بازار گرم نظر آیا۔ایک طرف عدنان خواجہ جیسے شخص کو اوجی ڈی سی ایل کی کمان دی گئی تو دوسری جانب بغیر کسی میرٹ کے صدر مملکت نے حاضر سروس سیکریٹری جنرل کو وفاقی محتسب تعینات کردیا ۔ان حالات میں عدلیہ ہی امید کی واحد کرن تھی جو ان بے قاعدگیوں کا نوٹس لیتی رہی ۔یہ عدلیہ کے فیصلے ہی تھے کہ سابقہ حکومت کی کرپشن کو نکیل ڈالی جاتی رہی ورنہ کہاں کا قانون اور کونسے رولز ۔۔۔گزشتہ چند روز سے اعلی عدلیہ کوایک مخصوص گروہ کی جانب سے جس انداز میں نشانہ بنایا جارہا ہے اور کہا جارہا ہے کہ ماضی میں ایسی عدلیہ اور اس طرح کے فیصلوں کی مثال نہیں ملتی ۔تو یہ بھی واضح ہے کہ پاکستان کی 65سالہ تاریخ میں ایسی کرپٹ حکومت بھی کہیں نظر نہیں آئی۔تبدیلی کا نعرہ لگانے والے اور بار بار یہ باور کرانے والے عمران خان کہ میں نے عدلیہ کے لئیے جیل کاٹی ہے۔جناب عمران خان اعلی ٰ عدلیہ کے لئیے مسلم لیگ ن،پیپلز پارٹی(جن کی شہید قائدنے سب سے پہلے)چیف جسٹس جناب افتخار محمد چوہدری کے گھر جھنڈا لہرایا اور سب سے بڑھ کر جماعت اسلامی کے لیڈران اس تحریک کے سرخیل تھے ۔اس وقت سونامی کے تو دور دور تک کوئی آثار نہیں تھے۔اعلی عدلیہ پر جس ایک جماعت کا جو لیبل چسپاں کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ناقدین شاید بھول بیٹھے ہیں کہ عمران خان کو توہین عدالت کے نوٹس سے چند روز قبل اسی عدلیہ نے دوہری شہریت پر مسلم لیگ ن کی حکومت کے مشیر کو فار غ کیا تھا۔جہاں تک سوال رہا کہ عدلیہ کے وہ نوٹسز کہاں گئے ؟اب خود مختار اداروں کے سربراہوں کی تبدیلیوں پر نوٹس نہیں لیا جارہا؟توجناب اب قومی اداروں میں اس قسم کی بے قاعدگیاں بھی نظر نہیں آرہی ہیں،بغیر کسی وجہ کہ یا صرف اس لئیے کہ اس افسر کو فلاں حکومت نے لگایا تھاکسی وفاقی سیکریٹری کو فارغ نہیں کیا جارہا۔سابقہ دور حکومت میں تعینات کئیے گئے ڈی جی ایف آئی اے سعد مرزا سمیت متعد د قابل افسران جوں کے توں اپنے عہدوں پر برقرار ہیں۔مسلم لیگ ن کی حکومت کو برسر اقتدا آئے تقریبا تین ماہ ہوچکے ہیں مگر کسی بھی خودمختار ادارے کے سربراہ کو بغیر کسی وجہ کے غیر آیئنی طریقے سے سبکدوش نہیں کیا گیا۔جو مثالیں سابقہ حکومت نے قائم کیں تھیں جب ان کو دہرانے کا سلسلہ ہی تھم گیا تو اعلی عدلیہ کے نوٹسز لینے کا کوئی جواز ہی نہیں تھا۔عمران خان نے چند ریٹرنگ افسران کی غفلت کا سارا نزلہ لفظ عدلیہ پر ڈالا تو واضح توہین جھلک رہی تھی۔اب اگر عدلیہ اسے نظر انداز کرتی تو پھر ڈھنڈورا پیٹا جاتا کہ عمران کے معاملے پر عدلیہ سورہی ہے۔یہ آج عدلیہ کے ہی فیصلے ہیں جو ہم جمہوریت کے نئے دور میں داخل ہوئے ہیں ۔بے جا تنقید کرنے والوں کو وہ فیصلے بھی یاد ہونے چائیں۔ جب میمو جیسے سنگین معاملات پر عدلیہ جمہوری اداروں کے ساتھ کھڑی تھی،اب اگر آپ واضح طور پر عدلیہ کو کہیں گے کہ اسے شرم آنی چائیے تو اس لفظ پر مجھ سمیت اس قوم کے ہر فرد کا سر شرم سے جھک جاتا ہے۔
عمران خان جب اعلی عدلیہ کے بلاوے پر کورٹ روم نمبر ۱ میں نمودار ہوئے تو کالم نگار بھی وہیں موجود تھا۔معزز جج صاحبان کے سامنے قائد تحریک انصاف کا لب و لہجہ انتہائی مودبانہ اور انکساری جھلک رہی تھی۔مگر اگلے چند ہی لمحوں بعد اسی اعلی عدلیہ کے باہر میڈیا نمائندوں سے گفتگو میں عمران خان گرج رہے تھی۔عمران خان کی دوہری پالیسی میری سمجھ سے بالاتر تھی۔یہ رویہ ان جیسی شخصیت کو زیب نہیں دیتا۔اگر عمران خان سمجھتے تھے کہ انہوں نے عدلیہ کی توہین نہیں کی تو انہیں کورٹ روم میں دلائل سے اس بات پر معزز جج صاحبان کو قائل کرنا چائیے تھا۔عمران خان جو کہتے ہیں کہ یہ سارا الیکشن طے شدہ تھا۔پورے ملک میں ریٹرنگ افسران بالخصوص پنجاب میں ایک مخصوص جماعت کو جتوانے کے لئیے سرگرم تھے۔ یہاں پر اگرعمران کی بات کو ہی درست مان لیا جائے تو جب پورے صوبے کے سیشن ججز جو ریٹرنگ افسران کے فرائض انجام دے رہے تھے۔اگر وہ طے ہی کرچکے تھے تو پھر اعلی عدلیہ کیا کرسکتی تھی۔زیادہ سے زیادہ چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ دوسرے اضلاع میں ان کے ٹرانسفر کردیتے ۔مگر یہی دھاندلی کی مشق ان اضلاع میں کرلی جاتی۔لیکن بغیر کسی وجہ کے یک دم اتنی بڑی تعداد میں ٹرانسفر ممکن نہیں تھے۔اور الیکشن سے پہلے کسی کو نہیں معلوم تھا کہ یہ نتائج ہونگے اور تحریک انصاف یہ الزامات لگائے گی۔اگر عمران خان کی بات پر اکتفاء کرلیا جائے تو اتنی بڑی دھاندلی ایک ادارہ نہیں کرسکتا اس میں دیگر پس پردہ عوامل بھی شامل ہیں۔اس وقت عمران خان کے مشیران جو انہیں الٹے سیدھے مشورے دے رہے ہیں کہ اس قسم کے ہتھکنڈوں سے مقبولیت کا گراف اوپر جائے گا اور ضمنی انتخاب کے لئیے ابھی سے جاندار فضا بن جائے گی اور اسد عمر و دیگر باآسانی حریفوں کو زیر کردیں گے۔مگر یہ خام خیالی ہے۔ جنرل الیکشن 2008 میں پاکستان پیپلز پارٹی ملک کی سب سے بڑی جماعت بن کر ابھری تھی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ جن حلقو ں سے بے نظیر بھٹو مخالفین کو زیر نہیں کرسکی تھیں ۔پی پی کے امیدواروں نے گزشتہ الیکشن میں کردیا تھا۔مگر پھر ٹھیک پانچ سال بعد بدترین ناکامی ۔وجہ صرف یہ تھی کہ اعلی عدلیہ کے فیصلوں پر عمل نہیں کیا گیا،ان کا تمسخر اڑایا گیا،وگرنہ پنجاب میں مسلم لیگ ن کی حکومت تھی وہاں دودھ و شہد کی نہریں نہیں بہہ رہی تھیں۔عوام ان سے بھی بے حد نالاں تھے مگر قانون کی پاسداری میاں شہباز شریف کی حکومت کا شیوا تھی۔جس کا عوام نے انہیں بھرپور جواب بھی دیا۔عمران خان روسی ناول کے کردار کی طرح ہیں،ایک پیچیدہ کردار جیسے دوستو ووسکی کے تخیل میں بسے رہتے ہیں،جو ایک دوسرے سے ہمہ وقت برسر پیکار رہتے ،جن میں انسانی جذبات کا تلاطم خیز طوفان ٹھاٹھیں مارتا رہتا ،جو بہ یک وقت عاصی بھی ہیں صوفی منش بھی ، اور مدبر بھی،جذباتی بھی ہیں اور نک چڑھے بھی ،جو بیک وقت لافانی بھی بننا چاہتے ہیں اور ہر وقت خود کو تباہ کرنے پر بھی آمادہ رہتے ہیں۔عمران خان خود تو تبدیلی کا نعرہ لگاتے آرہے ہیں۔مگر اب وقت آچکا ہے کہ انہیں اپنے رویہ میں بھی تبدیلی لانا ہوگی۔یہ بہترین موقع ہوگا جب وہ عدلیہ کے لئیے استعمال کئیے گئے اپنے الفاظ کا مداواکریں۔کیونکہ عمران خان اب اس ملک کے مقبول ترین لیڈر ہیں اور عمران خان مجھ سے بہتر جانتے ہیں کہ لیڈر آنے والے الیکشن کے بارے میں نہیں بلکہ آنے والی نئی نسل کے بارے میں سوچتا ہے اب یہ ان پر منحصر ہے کہ وہ اس ملک کی نئی آنے والی نسل کو کیا پیغام دینا چاہتے ہیں؟؟؟
تازہ ترین