• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

افغانستان میں غریب والدین نوزائیدہ بچے فروخت کرنے لگے

کراچی (نیوز ڈیسک) افغانستان میں انسانی بحران سنگین ہوتا جارہا ہے، طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد مزید 90لاکھ افراد غذائی قلت کا شکار ہوگئے ہیں۔ 

کئی والدین کا کہنا ہے کہ انہوں نے اپنے نوزائیدہ بچے فروخت کردئے ہیں تاکہ وہ اپنے دیگر بچوں کی خوراک کا انتظام کرسکیں۔ 

برطانوی اخبار کے مطابق طالبان حکومت کے بعد سے افغانستان میں حالات زندگی ابتر ہوتے جارہے ہیں اور اگر صورتحال پر قابو نہ پایا گیا تو حالات یمن سے بھی بدتر ہوسکتے ہیں اور وہاں کی صورتحال دنیا کے بدترین انسانی بحران میں تبدیل ہوسکتی ہے۔ 

برطانوی اخبار کا کہنا ہے کہ غریب شہریوں میں سے ایک جوڑے نے اپنے نوزائیدہ بچی کو 400 برطانوی پاونڈ یعنی 96 ہزار پاکستانی روپے میں فروخت کیا جس کے نتیجے میں وہ اپنے خاندان کیلئے چند ماہ کے راشن کا انتظام کرسکیں گے۔ 

یہ نوزائیدہ بچی چلنے پھرنے تک اپنے والدین کیساتھ ہی رہے گی اور اس کے بعد اسے خریدنے والا اپنے ساتھ لے جائے گا۔ برطانوی اخبار نے برطانوی نشریاتی ادارے کی رپورٹس کے حوالے سے بتایا کہ بچی کو خریدنے والے شخص نے اس کے والدین کو بتایا کہ وہ بچی کی پرورش کریں گے اور اس کے بعد اس کی شادی اپنے لڑکے سے کروادیں گے۔ 

بچی کے والد نے بتایا کہ وہ کچرا چنتا ہے اور اس وقت اس کی کوئی کمائی نہیں ہے، اس نے بتایا کہ ہم بھوک کا شکار ہیں، ہمارے گھر میں آٹا اور گھی سمیت کھانے کیلئے کچھ بھی نہیں ہے۔

اس نے بتایا کہ میری بچی کو نہیں معلوم کہ اس کا مستقبل کیا ہوگا، مجھے یہ بھی نہیں معلوم کہ بڑا ہو کر وہ کیسا محسوس کرے گی، لیکن مجبوراً مجھے یہ اقدام کرنا پڑا۔ اقوام متحدہ کے ورلڈ فوڈ پروگرام کا کہنا ہے کہ اس وقت افغانستان میں 2 کروڑ 28 لاکھ افراد یعنی نصف آبادی کو غذائی قلت اور بھوک کا سامنا ہے۔ 

اس سے قبل اشرف غنی حکومت میں افغانستان میں ایک کروڑ 40 لاکھ افراد کو بھوک و افلاس کا سامنا تھا۔ فوڈ پروگرام کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر ڈیوڈ باسلے کا کہنا ہے کہ افغانستان میں بچے مرسکتے ہیں۔ 

لوگ بھوک کا شکار ہیں، حالات بدتر ہوتے جارہے ہیں۔ 10 لاکھ بچے بھوک کی وجہ سے مرسکتے ہیں۔

تازہ ترین