• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ایک بات تو طے ہے، آپ امریکہ ہیں آپ جمہوریت پر یقین نہیں رکھتے۔ دعویٰ ضرورکرتے ہیں، اِس کا پرچار بھی بہت کرتے ہیں، عمل مگر اِس کے برعکس ہوتا ہے، ہمیشہ۔بات سادہ سی ہے، آپ کی جمہوریت وہ ہے جس میں آپ کا مفاد ہو۔ آپ یقین رکھتے ہیں کہ عام اخلاقیات کا مملکت کے معاملات سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ آپ کے بہت سے ادارے جمہوریت کے فروغ کے لئے دنیا کے متعدد ممالک میں سرگرم ہیں مگر ان کا بنیادی کام اپنے ملک کے مفادات کو آگے بڑھانا ہوتا، باقی سب دکھاوا ہے۔
ابھی کل کی بات ہے،آپ مصر میں حسنی مبارک کی حمایت کررہے تھے،اس سے ذرا پہلے انورالسادات آپ کے چہیتے تھے۔ کیمپ ڈیوڈ میں اسرائیل کے ساتھ معاہدہ آپ نے اُس سے کرایا۔کیا ہوا اگر اُس کے ملک میں بنیادی حقوق نام کی کوئی چیز نہیں تھی؟ اس سے کیا فرق پڑتا تھا اگر وہاں مخالفین پر ظلم توڑے جاتے تھے؟ اور دوسرے بہت سے ملکوں میں بھی معاملات کچھ اسی قسم کے تھے، اور ہیں۔ ایران میں رضا شاہ پہلوی آپ کا پسندیدہ حکمراں تھا۔ اِس علاقہ میں استحکام کی علامت، بقول آپ کے ایک صدر کے۔ اُس کے ملک میں ساواک جیسی تنظیموں نے ظلم و جبر کی انتہا مچائی ہوئی ہوگی، مگر شاہ آپ کے مفادات کی حفاظت تو کرتا تھا، آپ کو تو بس یہی درکار ہوتا ہے۔ شاید ہی آپ نے وہاں کبھی جمہوریت اور انسانی حقوق کی بات کی ہو۔ آپ نے کبھی وہاں اور اس جیسے کئی ممالک میں کبھی عوام پہ کئے جانے والے مظالم کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی۔ کارروائی تو دور کی بات ہے، آپ نے کبھی جھوٹے منہ بھی اس پر کوئی بات نہیں کی، کبھی نہیں۔ ڈکٹیٹروں سے، آمروں سے ، فوجی غاصبوں سے، جابر شاہوں سے آپ نے کبھی نہیں کہا ان کے یہاں بھی انسان بستے ہیں، انہیں انسانوں کی طرح رہنے کا حق دیا جائے۔
یہ کوئی نئی بات نہیں ہے، آپ ہمیشہ سے یہی کرتے آئے ہیں۔ آپ دہرے معیار رکھتے ہیں۔ نوم چومسکی نے اپنی مختلف کتابوں میں اس کا تذکرہ کیا ہے۔ ایک حوالہ یہاں دیا جا سکتا ہے۔ گوئٹے مالا میں انتخابات کے لئے ٹرانسپیرنٹ ڈبے استعمال ہوئے تو آپ نے انہیں شفاف انتخابات قرار دیا کیونکہ آپ وہاں ایک آمر کی حمایت کر رہے تھے۔ قریب میں نکاراگوا میں جب ایسے ہی شفاف ڈبے ووٹ ڈالنے کے لئے استعمال کئے گئے تو آپ نے ان انتخابات کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا تھا۔ آپ کو وہاں کے عوام کی منتخب کردہ حکومت پسند نہیں تھی، وہ آپ کے مفادات کے لئے کام نہیں کررہی تھی۔ آپ اُس سے پہلے وہاں باغیوں کو مدد اور اسلحہ فراہم کرتے رہے تھے، وہ قصّے لوگوں کو یاد ہیں۔
چاہے ہیں سو آپ کریں، ہم کو عبث بدنام کیا
اور ابھی ابھی آپ نے مصر میں کیا کیا؟ محمد مُرسی عوام کے ووٹوں سے منتخب ہو کر آئے تھے، یہی جمہوری طریقہ ہے، اِس سے تو آپ اتفاق کریں گے؟ مانا نتائج آپ کی توقع کے خلاف تھے مگر ہر جگہ تو عوام آپ کے حامی نہیں ہیں، اکثر جگہوں پہ نہیں ہیں۔ اپنی مرضی سے بھی ووٹ ڈالتے ہیں، آپ کے مفادات کو نظر انداز بھی کرتے ہیں، یہ ان کا حق ہے۔ آپ کہتے ہیں نا جمہوری حق ہے۔ اُنہوں نے اگر مُرسی کو منتخب کر لیا تو یہ بہرحال جمہوری اقدار کے عین مطابق ہے، انہیں جمہوری اقدار کے جن کا آپ اور آپ کے حواری ڈھنڈورہ پیٹتے نہیں تھکتے، جس کا سبق آپ ہمیں صبح شام پڑھاتے رہتے ہیں مگر شاید ایسا ہے نہیں۔ آپ کو ایک خاص قسم کی جمہوریت پسند ہے۔ ایک مغربی جریدے نے مصر کے حالات پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہم لبرل (؟) جمہوریت کے حامی ہیں۔ بہت سے لوگوں کا خیال تھا جمہوریت کا مطلب عوام کی اکثریت کی رائے ہے، اپنے ملک کے معاملات عوام طے کریں۔ نمائندہ منتخب کرنا اور طرز حکمرانی کا فیصلہ اکثریت کی رائے کے مطابق ہو گا۔ ابھی بندوں کو گنتے ہی ہیں، تولنے کا وقت بھی کبھی آئے گا۔ مگر کل تک جمہوریت کا درس دینے والے اب کہتے ہیں کہ نہیں، عوام وہ طریقہ اختیار کریں جو ہم ان کے لئے پسند کریں۔ مصر میں آپ کو مُرسی اور ان کے حامیوں کا طرزِ حکومت پسند نہیں آیا۔ ابھی وہاں جمہوریت کو آئے ایک ہی سال گزرا تھا۔ وہاں کے عوام نے پہلے بادشاہت میں زندگی گزاری تھی پھر آمریت کا ایک بہت ہی طویل دور وہاں مسلط رکھا گیا۔ شاید سانس لینے کی آزادی بھی عوام کو حاصل نہیں تھی۔ آپ کے کان پر کبھی جوں نہیں رینگی۔ آمریت کے ہزاروں مخالفین قتل کردیئے گئے، سید قطب اور ان کے بے شمار ساتھی موت کے گھاٹ اتار دیئے گئے۔ آپ نے سانس بھی نہیں لی۔
یہ جو اپنے لوگوں کے لئے ہلاکو اور چنگیز تھے، آپ کے پسندیدہ بھی رہے۔ اس لئے کہ وہ آپ کے لے پالک اور پروردہ، اسرائیل کو برداشت کر رہے تھے۔ ان کا وقت بالآخر پورا ہوگیا۔ مصری عوام نے جدوجہد کر کے آمریت کا جوا اتار پھینکا، آمر پابند سلاسل ہوا اور ایک منتخب حکومت نے اختیار سنبھالا۔ بدقسمتی کہ یہ حکومت آپ کی مرضی کے مطابق نہیں تھی۔ اس پر اسلام کی چھاپ تھی، یہی اسے لے ڈوبی۔
۔آپ تو بادشاہ پسند ہیں، فوجی آمر آپ کو اچھے لگتے ہیں اگر وہ لبرل ہوں، کتے بغل میں داب کر تصویریں اتروائیں مگر آپ کو اسلام پسند نہیں ہے، اس کے نام لیوا آپ کو اچھے نہیں لگتے، بلکہ آپ کو ان سے چڑ ہے، نفرت ہے۔ اس کا اظہار کرنے میں آپ کبھی نہیں چوکے۔ یہ نائن الیون تو ابھی کل ہی کی بات ہے۔آپ نے تو جب موقع ملا،کسی نا کسی مسلم ملک کی اینٹ سے اینٹ بجادی۔ عراق، لیبیا، افغانستان اور کئی دوسرے ملکوں میں جگہ جگہ آپ کی بھیانک جنگی مشین کی تباہ کاریاں نظر آتی ہیں۔ یہ وہ ملک ہیں جہاں آپ کی پسند کا نظام نہیں تھا۔
مصر کے منتخب صدر محمد مُرسی نے کچھ غلطیاں ممکن ہے کی ہوں، تجربہ اُن کا کم تھا۔ وقت بھی کتنا ہوا تھا، بمشکل ایک سال۔ اسلام کا نام مگر انہوں نے لیا اور آپ کو ظاہر ہے یہ پسند نہیں آیا۔ آپ نے نوزائیدہ جمہوریت کا تختہ الٹوادیا۔ اب تو بہت سے حقائق سامنے آگئے ہیں کہ مُرسی مخالف احتجاج کے پیچھے امریکہ کا ہاتھ تھا۔ وہاں فوج آپ کی حمایت کے بغیر کارروائی نہیں کر سکتی تھی۔ آپ کی آشیرباد اسے حاصل تھی۔ اب وہاں فوج کی آمریت پھر قائم ہوگئی ہے۔ آپ کے وزیر خارجہ جان کیری نے بالواسطہ تصدیق کردی ہے” فوج کو عوام نے بلایا تھا“۔
کس پیمانے سے آپ نے عوام کا یہ فیصلہ ماپا؟ کوئی انتخاب؟ کوئی ریفرنڈم؟ بس سڑکوں پر احتجاج؟ وہ تو اب بھی ہو رہا ہے، اب مُرسی کی، منتخب صدر کی حمایت میں۔ مگر آپ کو اب پھر، دوسرے بہت سے واقعات کی طرح، وہاں فوجی آمریت نظر نہیں آرہی، آئے گی بھی نہیں۔ آپ جمہوریت پر یقین نہیں رکھتے، صرف دعویٰ کرتے ہیں، اپنے مفاد کی خاطر اس کا پرچار کرتے ہیں اور بس، بابا باقی سب کہانیاں ہیں۔
تازہ ترین