• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
میں آج کے کالم میں پاکستان میں شرحِ خواندگی میں اضافے کے لئے لاطینی یا رومن رسم الخط اپنانے کے بارے میں اپنا نقطہ نظر پیش کرنے کی کوشش کروں گا۔ مجھے اچھی طرح معلوم ہے کہ قارئین کی ایک تعداد( زیادہ تر نام نہاد مذہبی حلقے) لازمی طور پر لاطینی یا رومن حروفِ تہجی کو اپنانے کی مخالفت کرنے میں پیش پیش ہوں گے اور اسے اتا ترک کے جدید جمہوریہ ترکی میں اپنائے جانے کی وجہ سے پیدا ہونے والی قباحتوں سے آگاہ کرنے کی کوشش کریں گے۔( اگرچہ ترکی میں لاطینی حروفِ تہجی کو اپنانے میں کئی ایک قباحتیں ابھر کر سامنے آئی تھیں لیکن ہمیں یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ ان تمام باتوں کے باوجود اسی لاطینی حروفِ تہجی یا پھر لاطینی رسم الخط کے باعث ترکی آج شرح ِ خواندگی کے لحاظ سے تمام اسلامی ممالک کو اپنے پیچھے چھوڑ چکا ہے اور یہاں شرح خواندگی سو فیصد تک پہنچ چکی ہے اور شرح خواندگی کی وجہ سے ترکی ترقی کے لحاظ سے بھی تمام اسلامی ممالک کو اپنے پیچھے چھوڑ چکا ہے۔) ترکی میں عربی رسم الخط کو متروک قرار دیے جانے کی وجہ سے پیدا ہونے والی قباحتوں سے سبق حاصل کرتے ہوئے میں عربی رسم الخط کے ساتھ ساتھ لاطینی حروفِ تہجی یا لاطینی رسم الخط کو بھی اپنانے کے حق میں ہوں۔ اس کی سب سے اہم وجہ یہ ہے کہ پاکستان بھر میں زیادہ تر لوگ اب کمپیوٹر ، موبائل فون اور سوشل میڈیا میں اْردو کو لاطینی حروف ِ تہجی ہی میں استعمال کرنے کو ترجیح دے رہے ہیں کیونکہ کمپیوٹر اور موبائل فون میں عربی رسم الخط کو استعمال کرنا بڑا مشکل کام ہے۔ (اس بارے میں وجوہات کو تفصیلات کے ساتھ گزشتہ کالموں میں تحریر کرچکا ہوں )اعداد و شمار کے مطابق کمپیوٹر اور سوشل میڈیا میں نوے فیصد سے زائد پاکستانی انگریزی سے زیادہ اْردو زبان کو ترجیح دینے لگے ہیں اور اْردو لکھتے وقت وہ لاطینی رسم الخط کو استعمال کررہے ہیں۔ یہ درست ہے کہ لاطینی حروف استعمال کرنے کے بارے میں کوئی اصول یا قواعد و ضوابط وغیرہ لاگو نہیں کیے جاتے بلکہ ہر شخص اپنی سوچ و منطق کے مطابق ہی لاطینی یا پھر رومن رسم الخط استعمال کرتا ہے جس کی وجہ سے کئی بار الفاظ کو سمجھنے میں مشکلات کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے لیکن اس سلسلے میں حکومتِ پاکستان اپنا فرض ادا کرتے ہوئے لاطینی رسم الخط استعمال کرنے کی راہ ہموار کر سکتی ہے۔ وہ اس سلسلے میں نیشنل لینگوئج اتھارٹی پر لاطینی رسم الخط کو استعمال کرنے کے لیے اصول، قواعد و ضوابط وضع کرنے کی ذمہ داری عائد کرسکتی ہے تاکہ اْردو کو عربی رسم الخط لکھنے کے ساتھ ساتھ لاطینی یا پھر رومن رسم الخط میں بھی تحریر کرنے میں کسی دشواری کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ اس سے اْردو کو فروغ حاصل ہوگا اور کمپیوٹر اور موبائل استعمال کرتے ہوئے اپنا مافی الضمیر اْردو میں پیش کرنے میں کسی قسم کی مشکلات کا بھی سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ پاکستان اس لحاظ سے خوش قسمت ملک ہے کہ یہاں کے لوگ پہلے ہی سے انگریزی کیو کی بورڈ استعمال کرنے میں مہارت رکھتے ہیں البتہ اس کی بورڈ میں لفظ ٹ ، ث، خ، ڈ، ڑ، ص، ط، ظ، ع،غ، ں ، ہ جیسے الفاظ کو استعمال کرنے کے لیے مخصوص علامات کو استعمال کیا جاسکتا ہے (اس سلسلے میں مختلف علامات کا جائزہ لینے کے بعد دو یا تین علامات کا استعمال کیا جاسکتا ہے۔ کمیشن اس سلسلے میں ماہرین کی رائے بھی حاصل کرسکتا ہے) تاکہ اْردو زبان کے تلفظ کی اپنی خصوصیت بھی برقرار رہے۔ ایک دفعہ اْردو کا لاطینی رسم الخط میں کی بورڈ اور الفاظ (قواعد و ضوابط کے ساتھ ) وضع ہونے کے بعد اْردو زبان کے استعمال میں بھی بیحد اضافہ ہوجائے گا اورتمام لوگ جو انگریزی سے نابلد ہیں، اْردو (لاطینی رسم الخط میں ) ہی میں کمپیوٹر استعمال کرسکیں گے۔ اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ ہمارے ایسے لوگ جن کا IQ لیول دیگر ممالک کی نسبت بہت زیادہ ہے لیکن انگریزی زبان پر دسترس نہ رکھنے کی وجہ سے وہ اپنی اس صلاحیت کو استعمال کرنے سے قاصر ہیں، اپنی اس خداداد صلاحیت کو استعمال کرتے ہوئے کمپیوٹر کی دنیا میں تہلکہ مچا سکتے ہیں۔راقم اس سلسلے میں ترکی کی مثال پیش کرسکتاہے۔ ترکی، جہاں بہت ہی کم لوگ انگریزی جانتے ہیں کمپیوٹر کے تمام پروگرام اور اپلیکیشنز کو ترکی زبان ہی میں ڈھالتے ہوئے کمپیوٹر کی دنیا میں اپنا مقام پیدا کرچکا ہے حالانکہ ایک دور ایسا بھی تھا جب ابتدا میں ترکی کی کئی ایک کمپنیوں نے پاکستانی کمپیوٹر ماہرین کی خدمات حاصل کر رکھی تھیں لیکن اب ترکی کمپیوٹر خاص طور پرسوفٹ وئیر میں پاکستان کو بہت پیچھے چھوڑ چکا ہے۔ اس کی سب سے اہم وجہ لوگوں کو اپنی ہی مادری زبان میں تعلیم دینا، تمام سہولتیں فراہم کرنا اور تمام پروگراموں کو مادری زبان ڈھال کر عام انسانوں کی خدمت میں پیش کرنا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ ابتدا میں آئی فون میں ترکی زبان کا کی بورڈ موجود نہیں تھا جس پر ترکی کے صدر نے اپنے دورہ متحدہ امریکہ کے دوران آئی فون کے اعلیٰ حکام سے مذاکرات کرتے ہوئے ترکی زبان میں بھی keyboard تیار کرنے کی ترک عوام کی خواہش سے آگاہ کیا تھا جسے آئی فون کے حکام نے پزیرائی بخشی اور اب آئی فون میں ترکی زبان کا keyboard استعمال کیا جا رہا ہے۔( تمام اقوام اور ان کے رہنما اپنی مادری زبان کو بڑی اہمیت دیتے ہیں۔ کاش کہ ہمارے ہاں بھی ایسا ہو) اگر پاکستان میں بھی ایک دفعہ اْردو زبان کو لاطینی رسم الخط میں لکھنا شروع کردیا گیا تو پھر اس سے ہماری خواندگی کی شرح میں بھی بے حد اضافہ ہوسکتا ہے۔ ہمارے ہاں ہمیشہ ہی ان پڑھ لوگوں کی تعداد بہت زیادہ رہی ہے اور نا خواندگی کو دور کرنے کے لیے قسم قسم کے پرگروام شروع کیے جاتے رہے لیکن گھوسٹ اسکولوں اور گھوسٹ ٹیچرز کی وجہ سے کبھی بھی شرح خواندگی میں خاطرخواہ اضافہ نہ ہوسکا ۔ گھوسٹ اسکولوں اور گھوسٹ ٹیچروں اور کرپشن سے بچنے کے لیے ہمیں سوفٹ وئیر اور اپلیکیشنز تیار کرنا ہوں گے اور پھر کمپیوٹرز یا سمارٹ فونز کے ذریعے ان پڑھ لوگوں کو تعلیم و تربیت فراہم کی جاسکتی ہے۔ محکمہ تعلیم اس سلسلے میں پروگرام تیار کرتے ہوئے ٹیچروں اور اسکولوں کا سہارا لیے بغیر ایسے تمام مقامات یا دیہاتوں میں جہاں بڑی تعداد میں ان پڑھ لوگ موجود ہوں، وہاں کسی بھی رضا کارشخص کے ہاں اس پروگرام یا اپلیکیشنز کو فراہم کرتے ہوئے تعلیم کا بندو بست کیا جاسکتا ہے۔ اس طرح تعلیم کے شعبے میں بہت ہی معمولی اخراجات کرتے ہوئے (ٹیچروں اور اسکولوں کا سہارا لیے بغیر) شرح خواندگی کو بڑی مختصر مدت میں بڑھایا جاسکتا ہے۔ مختلف اپلیکیشنز اور پروگرام تیار کرتے ہوئے مختلف مرحلوں میں پرائمری اور ہائی اسکول تک تعلیم فراہم کرتے ہوئے پاکستان کے چہرے پر لگے ناخواندگی کے داغ کو دھویا جاسکتا ہے۔ اس سلسلے میں حکومت پر بھاری ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں اور جس حکومت نے بھی اس نظام پر عمل درآمد کرنا شروع کردیا وہ ملک کی تقدیر بدل کر رکھ دے گی۔ تعلیم کو اْردو زبان میں لاطینی رسم الخط میں جاری رکھنے کی صورت میں سب سے بڑا فائدہ بلا شبہ پاکستانیوں ہی کو پہنچے گا کیونکہ پاکستانیوں کےI Q لیول ہندوؤں اور علاقے کی دیگر اقوام سے بہت زیادہ ہونے کی وجہ سے وہ بڑی تیزی سے اپنی برتری قائم کرسکتے ہیں جس کا ہندوستان تصور تک نہیں کرسکتا لیکن اس کے لیے سب سے اہم شرط اْردو زبان کو( اْردو میں عربی رسم الخط کو بھی استعمال کرنے کا سلسلہ جاری رکھا جاسکتا اور اس مقصد کے لیے ٹرانسلیٹریشن استعمال کرتے ہوئے قرآن کریم کو عربی رسم الخط میں نہ پڑھے جانے کے الزام سے بھی بچا جاسکتا ہے کیونکہ پاکستان کے نام نہاد مذہبی حلقے اتاترک پر ترک قوم کو عربی رسم الخط میں قرآن کریم پڑھنے سے محروم کرنے کا الزام عائد کرتے ہیں ) میرا مقصد صرف اور صرف پاکستانی قوم کی شرح خواندگی میں سو فیصد اضافہ کرنا ہے اور یہ اضافہ صرف لاطینی رسم الخط استعمال کرنے ہی سے ممکن ہے اور پھر اسی لاطینی رسم الخط کو کمپیوٹر اور سوفٹ وئیر میں استعمال کرتے ہوئے دنیا بھر میں تہلکہ مچایا جاسکتا ہے۔
تازہ ترین