• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
میرٹ کس کو کہتے ہیں؟ سوال کا جواب دینے سے قبل ان جملوں کے معنی سمجھنے کی کو شش کیجیے۔حاکمیت اللہ کی اور طاقت عوام کی؟قانون کی بالا دستی اوراُس کا بول بالا؟قومی سلامتی اور قومی مفاد؟اداروں کا اپنی اپنی حدود میں کام کرنا؟مفاہمتی آرڈیننس اور مفاہمتی پالیسی میں بنیادی فرق؟ دہشت گردی کا قلع قمع کرنا؟حکمرانوں کا ہرسانحے پر نوٹس لینا اور جواب میں عدلیہ کا ازخود نوٹس لینا؟ہر اُمیدوار کا آئین کے آرٹیکل 62-63 پر پورا نہ اُترنا؟آخر میں انگریزی پر عبور رکھنے والے قاری ذراTolerance ،Corruption اورTransperancy کو اُردو کے جملوں میں ڈھالنے کی کوشش کریں۔ شکر ہے آپ نے میری بات نہیں مانی کیونکہ ان جملوں کا اجتماعی لُبِ لباب یہی ہوتا ۔ ”کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی“۔
قارئین کرام! اب ذرا میرٹ کے خدوخال اور اس کے حال پر مختصر سی بحث ہو جائے۔ یہ لفظ چونکہ انگریز کی ایجاد ہے اس لیے انگریزی کی
لغت میں کچھ یوں بیان کیا گیا ہے۔
Claim to respect and praise, excellence, worth , Something that deserves or justifies a reward.
اردو کی لغت انگریزی کے ان اجزا ء کو یوں بیان کرتی ہے۔ عزّت اور تعریف کا طلبگار یا دعویدار، قابل ،دولت یا اثاثہ جات کی کوئی بھی قسم ، مال لینا، فضیلت،شرف، برتری،امتیاز، رتبہ، فوقیت،مستحق ہونا، اہل ہونا، سزا وار ہونا، قابل ہونا، حقدار ہونا، عزّت دینا، صلہ دینا، جزا دینا، اجر دینا، انعام دینا، بدلے میں کسی کو کچھ دینا، تلافی کرنا اور نسبت رکھنا۔ مختلف حکومتوں کے دور میں میرٹ کی اُڑتی ہوئی دھجیوں کو اگر غور سے دیکھیں تو احساس ہوگا کہ ہمارے قائدین نے اتنی وسیع و جامع تعریف سے سزا وار ، صلہ دینا، انعام دینا، مال لینا، بدلے میں کچھ دینا اور نسبت رکھنے پر ہی اپنی توجہ مرکوز رکھی اور میرٹ کی اصل رُوح کو قبض کر کے میرٹ کا بول بالا کر ڈالا۔ ماضی میں اوگرا کے ساتھ میرٹ کا ازدواجی رشتے میں منسلک ہونا اور حال میں PIA پر میرٹ کی چھاپ، ”باکمال لوگ لا جواب پرواز“ کی منہ بولتی تصویر ہے۔مزے کی بات کہ ہماری حکومتوں نے PIAکے لیے ایسے” لاہوتی“ انمول موتی چُنے جن سے یقینا پرواز میں کوتاہی نہ آتی ہو۔ یہاں مجھے اپنے دوست کرنل خلیل کا سنایا ہوا قصّہ یاد آیا جسے آپ بھی سن لیں۔ پنجاب اسمبلی کے ایک نام ور اَن پڑھ رکن نے اپنے حلقے کی ڈبل MA خاتون کے لےئے نوکری کی سفارش کی جو میرٹ پر پورا نہ اُترنے کی وجہ سے مسترد ہوگئی ۔دل برداشتہ ممبر موصوف نے پنجاب اسمبلی کے اجلاس میں کھڑے ہو کر یہ اعلان کیا کہ میں اَن پڑھ ہونے کے باوجود اس معزز ایوان کا ایک
اہم رکن ہوں اور دسویں پاس شخص صوبے کا کامیاب وزیراعلیٰ ہے، لہذا موصوفہ کو اپنے تعلیمی معیار کی وجہ سے کم از کم پاکستان کا وزیراعظم ہونا چاہیے تھا۔ اس کے بعد موصوف نے تالیوں کی گونج میں اپنی رکنیت سے مستعفی ہونے کا اعلان کر دیا۔
قارئین کرام! نوکریوں میں میرٹ کا تھوڑا بہت اِدھر اُدھر ہو جانا پھر بھی قابلِ برداشت عمل ہو سکتا ہے مگر اہم قومی اداروں کی مسندوں پر” عنایات“ کی بارش ملک کا وہی کچھ کرے گی جو گندے نالوں نے حالیہ سیلاب میں کیا۔صدافسوس! مگر یہ کوئی حیرت کی بات نہیں کہ جب کسی پارٹی کا صدر ملک کا بھی صدرہو تو وہ ملک کو” لطیفہ نما “وزرائے اعظم اور” لطیف“ قسم کے گورنر ہی دے گا۔ دوسری حکومت جب براستہ Take Care رونما ہو تو اس سیاسی جماعت کا قائد وزیراعظم منتخب ہو کر اپنی ہی پارٹی کا” حلیم زدہ“ صدر منتخب کروا لے اور گورنر برطانیہ سے درآمد کرلے۔یقین کیجیے آپ کی طرح مجھے بھی بہت دکھ ہوا کہ حالیہ صدارتی انتخاب میں ہم نے فقط تاریخوں کا ہی رونا رویا۔ دراصل ہمیں اس قومی با وقار عہدے کے لیے شخصیات کے چناؤ پر رونا چاہیے تھا۔ دو سیاسی جماعتوں کے امیدوارں میں مقابلہ ہواجس کی لڑائی اور دہائی میں ہم یہ بھول گئے کہ صدارت کے اُمیدوار کا کسی پارٹی سے زیادہ پاکستان کا ہونا ضروری تھا۔ ہندوستان میں صدر کا امیدوار ہمیشہ وہی ہوا جس کی قومی ہیرو کی حیثیت مسلّم تھی۔ جب ہی تو ان کے جوہری پروگرام کا بانی ملک کا صدر اور ہمارا نظر بند تھا! کیا ہم بحیثیت قوم اتنے کنگال ہو چکے ہیں کہ ہمیں اپنی اپنی جماعت کے علاوہ کوئی قدآور پاکستانی میسر نہیں ؟ میرے خیال میں ایسا نہیں۔ الحمد للہ ہمارے ملک میں ایسے انمول ہیروں کی بالکل کمی نہیں ۔کمی اگر ہے تو فقط خلوصِ نیت کی!
تازہ ترین