• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وہ بھی اگست کا مہینہ تھا جب 1999 ء کی ایک دوپہر کو میں ڈھاکہ ایئرپورٹ پر اُترا تو ذہن کئی دہائیاں پیچھے چلا گیا۔اسی دیش میں تو مسلم لیگ کی بنیاد رکھی گئی تھی۔ یہیں کے ایک لیڈرنے 1940ء میں پا کستان کی قراداد پیش کی تھی۔ یہاں کے رہنما پاکستان کی تحریک کے سر خیل تھے۔ اے کے فضل الحق، حسین شہید سہروردی، خواجہ ناظم الدین، نورالامین، مولوی تمیزالدین، فضل القادر چوہدری، مولوی فرید احمد کیسی کیسی شخصیات تھیں جو آخر دم تک پاکستان کا پرچم اٹھائے ہوئے سینہ سپر رہیں۔ کیا یہاں کے باشندے اب اپنے بنائے ہوئے اُسی پاکستان سے نفرت کرتے ہیں؟
ڈھاکہ میں پاکستان کے نائب سفیر محمد عارف میرے بیچ میٹ تھے انہی کے گھر میرا قیام تھا۔ شام کو چائے پیتے ہوئے عارف نے مجھ سے پوچھا ” کیا کیا دیکھنے کا ارادہ ہے ؟ “میں نے کہا دو باتوں کا جواب ڈھونڈنے آیا ہوں ۔عارف کو تجسّس ہوا وہ کیا؟ ”پہلی یہ کہ بنگلہ دیش جوکہ کبھی ہمارا پچھمی پاکستان ( مشرقی پاکستان) تھا اب اس کے باشندے ہمارے بارے میں کیا سوچتے ہیں؟ کیا وہ ہم سے نفرت کرتے ہیں؟دوسری یہ کہ اندراگاندھی نے 1971 ئمیں پاکستان کے ایک حصے (موجودہ بنگلہ دیش) کو فتح کرنے کے بعد دعویٰ کیا تھا جس کا حوالہ آج بھی ہمارے ٹی وی چینلوں پر دیا جاتاہے کہ ”ہم نے دوقومی نظرئیے کو دریائے گنگا میں بہا دیاہے “ کیا واقعی بہا دیا گیا تھا دو قومی نظریہ ؟ “یہی جاننے کیلئے آیا ہوں۔
عارف نے کہا ”بنگلہ دیش کے باشندے ہم سے کتنی نفرت کرتے ہیں؟“ اسکا جواب نورُل سے پوچھ لینا۔ نورالھدیٰ بنگالی ڈرائیور تھا دوسرے روز اس سے بات ہوئی تو اس نے کہا ”کچھ عرصہ پہلے ڈھاکہ میں انڈیا اور پاکستان کا کرکٹ میچ ہوا یقین مانیں شاب پورا سٹیڈیم پاکستان کے حق میں نعرے لگا رہا تھا اور پاکستان کے جیتنے پر ڈھاکہ میں ہرطرف پاکستان کے جھنڈے نظرآرہے تھے۔“ اِس کا ذکر اور بھی بہت سے لوگوں نے کیا۔
اگلے روز چودہ اگست تھا۔ پاکستانی سفارتخانے میں یومِ آزادی کی تقریب تھی جسے دیکھ کر بہت خوشی ہوئی۔ سرکاری مقررین کے علاوہ ڈھاکہ یونیورسٹی کے ایک طالب علم فریدالحق اور ایک معروف دانشور (نام بھول رہاہوں) کی تقاریر بڑی یادگار تھیں۔ فرید الحق کا کہناتھا ”بنگلہ دیش کی آزادی سے پہلے ہم نے یعنی انڈیا اور بنگال کے مسلمانوں نے مل کر جناح صاحب کی قیادت میں انگریزوں سے آزادی حاصل کی تھی اور ایک الگ وطن بنایا تھا۔ اگر یہ لوگ شیخ مجیب الرّحمان کو باپ کہتے ہیں تو محمد علی جناح ہمارے باپ کے باپ تھے۔اگر باپ قابلِ احترام ہے تو دادا کا احترام اس سے بھی زیادہ لازم ہے“۔ بنگالی دانشور کی تقریر کے بھی ایک ایک لفظ سے اپنے سابق دیش پاکستان سے جذباتی وابستگی، انسیت اور محبت کی خوشبو بکھر رہی تھی۔
دوسرے روز عارف اور میں جمعہ کی نماز کیلئے نکلے تو عارف نے گاڑی بیت المکّرم کی طرف موڑتے ہوئے کہا کہ” ڈھاکہ میں جمعة المبارک کی نماز آپ یقینا بیت المکّرم (ڈھاکہ کی سب سے بڑی تاریخی مسجد)میں ہی پڑھنا چا ہیں گے“۔ میں نے کہا آپ کا بہت بہت تھینک یو، آپ نے سو فیصد صحیح اندازہ لگایا ہے“۔ درجنوں سیڑھیاں چڑھ کر بیت المکّرم کے صحن میں پہنچنا پڑتا ہے۔ خطیب کی آواز دور تک سنائی دے رہی تھی۔ ابھی ہم چند سیڑھیاں چڑھے تھے کہ کانوں میں بنگالی کی بجائے اردو کے الفاظ پڑنے لگے ہم دونوں کے پاؤں رْک گئے اور توجّہ سے سننے لگے۔ خطیب صاحب نے بنگالی لہجے میں پھر شعر پڑھا ”اقبال آچھن
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لئے
نیل کے ساحل سے لیکر تابخاکِ کاشغر“
عارف نے میری طرف دیکھ کر کہا ”تو دوسری بات کا بھی جواب مل گیا آپ کو! “
فضل القادر چوہدری پاکستان کی قومی اسمبلی کے سپیکر تھے۔ آخر دم تک اسی پاکستان کی پاسبانی کرتے رہے ، جوانہوں نے قائد کی رہنمائی میں حاصل کیاتھا۔مکتی باہنی کے بدمعاشوں نے بے تحاشا تشدد کے بعد انہیں جیل میں بند کردیا، جیلر نے ایک روز قائداعظم کو گالی دی تو اونچے
لمبے چوہدری نے زوردار تھپڑ جڑ دیا عوامی لیگ کے غنڈوں نے تشدد کی انتہا کر دی اور انہیں جیل میں ہی شہید کر دیا جہاں سے عظیم بنگالی لیڈر کی میّت پاکستان کے پرچم میں لپٹی ہوئی نکلی۔ چوہدری صاحب کے دو بیٹے چٹاگانک سے پارلیمنٹ کے ممبر منتخب ہوئے تھے۔ 14 اور 15 اگست کی رات کو چوہدری صاحب کے بیٹوں اور جناب نورالامین (1970 میں عوامی لیگ کے سیلاب میں بھی وہ اپنی نشست سے کامیاب ہوئے تھے) کے صاحبزادے سے ملاقات ہوئی پاکستان کی آزادی کی سالگرہ کا ذکر چھڑا تو ان کی آنکھیں نمناک ہوگئیں۔ عظیم المرتبت رہنماؤں کے بیٹوں کی باتوں اور ان کی آنکھوں سے بہنے والے پانی کی چمک سے میری سوچوں کے تاریک گوشے روشن ہوگئے اور میری الجھنوں کے جواب مل گئے۔ بنگلہ دیش کے باشندے خود مختلف موقعوں پر اندراگاندھی کی اس کھوکھلی بڑھک کا جواب دیتے رہے اور اس کی رعونت اور تکبر پر خاک ڈالتے رہے ہیں۔سوال یہ ہے کہ بھارت کی وزیراعظم نے دو قومی نظریئے کو ہی ہدف کیوں بنایا؟ وہ یہ بھی کہہ سکتی تھی کہ ہم نے پہلی جنگوں کا بدلہ لے لیا یا ہم نے صدیوں بعد مسلمانوں کو اتنی بڑی شکست دی۔ دو قومی نظریئے کے خاتمے کا دعویٰ کیوں ؟ اس لئے کہ یہی تو بنیاد ہے پاکستان کی! محمد علی جناح اسی نظریئے کا پرچم اٹھا کر نکلے اور ایک تاریخ ساز تحریک چلا کر علیحدہ وطن بنا ڈالا۔ دو قومی نظریہ دریا میں بہا دینے کا مطلب ہے ”او پاکستان والو! اب تمہارے ملک کا جواز ختم ہوگیاہے لاؤ اب اس کی چابی بھی ہمارے حوالے کر دو۔ "Two Nation Theory"کیا ہے ؟ انگریز جب ہندوستان کو آزادی دینے پر آمادہ ہوا تو اس نے کانگریس سے مذاکرات شروع کئے اس پر مسلمان رہنماؤں نے سخت احتجاج کرتے ہوئے کہا کہ کانگریس صرف ہندوؤں کی نمائندگی کرتی ہے ہندوستان میں صرف ایک قوم یعنی ہندو نہیں ، دو قومیں ( ہندو اور مسلمان)بستی ہیں۔ انگریزوں کو مسلمانوں کے حقوق کے تحفظ کیلئے مسلمانوں کی نمائندہ جماعت مسلم لیگ سے مذاکرات کرنا ہوں گے۔ کچھ آوازیں ابھریں کہ ہندوستان میں رہنے والے سارے ہندوستانی ایک قوم ہیں۔علماء کی اکثریت بھی انڈین نیشنلزم کے سحر میں گرفتار تھی۔ جو کہتے تھے کہ ہندوستان کے رہنے والے سب ایک قوم ہیں۔ اس کے جواب میں برصغیر کے مسلمانوں کی سب سے توانا آواز گونجی ”ہرگز نہیں! ہماری تہذیب، ہمارا کلچر، ہمارا نظریہٴ حیات، ہمارا رہن سہن، ہمارے ہیرو، ہمارے ولن، ہمارے سوچنے کا انداز اور ہمارے کھانے کے آداب سب کچھ ہندوؤں سے مختلف ہیں۔ ہم مسلمان ایک علیحدہ قوم ہیں اس لئے ہمیں علیحدہ وطن چاہیے۔“یہ آواز کسی شدّت پسند یا کسی نیم خونداہ ملاّ کی نہیں روشن خیال بیرسٹر محمد علی جناح کی تھی۔ وہ اگر سیکولر ہوتے تو پسماندہ اور پسے ہوئے Down Troddenطبقے کے حقوق کی بات کرتے۔ مگر انہوں نے ہمیشہ صرف اور صرف مسلمانوں کے حقوق کی بات کی کیونکہ نہ وہ منافق تھے اور نہ انہیں کوئی احساس ِکمتری تھا۔ کیا علیحدہ مذہب ایک الگ قوم کو جنم دیتا ہے؟ اس کا جواب خود تاریخ نے دیا ہے۔ جب کوہِ صفا پر کھڑے ہوکر محمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اہل مکہ کو پیغامِ ہدایت سنایا تو اسے برحق ماننے اور اس پر لبیک کہنے والے ایک علیحدہ قوم بن گئے ۔رُسول اللہ ﷺکی بات ماننے سے وہ اپنی پہلی قوم سے اس طرح کٹ گئے کہ اپنے خونی رشتوں کو چھوڑ کر دیا رِغیر کی جانب ہجرت کر گئے۔اور وقت آنے پر اپنے پیاروں کے خلاف تلواریں اٹھالیں۔ زندگی گزارنے کیلئے پرانے رنگ ڈھنگ کو چھوڑ کر نئے فلسفے اور نظریئے کو ماننے اور اس پر عمل کرنے والوں نے ایک نئی قوم کو جنم دیا۔ہندوستان میں مسلمانوں کے علیحدہ قوم کے طور پر تسلیم کئے جانے کا احساس اور ادراک سب سے پہلے اقبال کی غیرمعمولی بصیرت نے کیا اور پھر اس دوقومی نظریئے کا پرچم محمد علی جناح نے اس طرح اٹھایا کہ پوری دنیا کو اسکی صداقت ثابت کرکے دکھا دی۔1947میں اسی نظریئے کو تسلیم کر کے پاکستان بنانے کا مطالبہ ماننا پڑا۔ مگر پاکستان سے حسد کی آگ میں جلنے والی عورت بھول گئی کہ دوقومی نظریہ کسی عیاش اور بزدل جرنیل کا چھینا ہوا پستول نہیں جسے دریا میں پھینک دیا جائے۔ یہ کسی مفتوحہ علاقے کی کسی مظلوم عورت کی عزّت و عصمت کا نام نہیں جسے لوٹ لیاجائے۔ یہ نظریہ تو وہ عہد ہے جو انسان اپنے خالق کے ساتھ کرتا ہے اور پھر اپنی زندگی اپنے مالک کے سپرد کر دیتا ہے۔یہ توہدایت ِخداوندی کا وہ نور ہے جس سے انسان کے دل ودماغ روشن ہوجاتے ہیں۔ یہ اللہ اور محمدﷺ سے محبت کا وہ لازوال جذبہ ہے جو انسانوں کے رگ و پے میں بجلیاں دوڑا دیتا ہے۔ اور انہیں بڑی سے بڑی قربانی پر آمادہ کرتا ہے۔ کیا اس جذبے کو ختم کیا جاسکتا ہے ؟ کیا اس نظریئے کو دریا میں بہایا جاسکتا ہے؟ قائد کے سیاسی حریف نہرو کی بیٹی کا دعویٰ جھوٹا اور باطل تھا! یہ نظریہ اٹل اور لازوال ہے۔ جنگ کے ذریعے فتح کرکے خطے کا نام تبدیل کیا جاسکتاہے، وہاں کے باشندوں کا نظریہ تبدیل نہیں کیا جاسکتا۔ دو قومی نظرئیے کی بنیاد پر ہی مغربی طاقتوں نے انڈونیشا اور سوڈان کو تقسیم کرکے عیسائی ریاستیں قائم کردی ہیں۔ ہندوستان کے ٹینکوں اور بمبار جہازوں نے مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنادیا مگر دوقومی نظریہ قائم دائم ، زندہ اور تابندہ ہے۔ نیا دیش انڈیا میں ضم نہیں ہوا برصغیر میں ایک کی بجائے دو مسلمان ملک قائم ہوگئے۔ حسینہ کے والد نے جب نئے ملک کے باشندوں سے انکا نظریہ چھیننے کی کوشش کی اور وہ بنگلہ دیش کو اپنے محسن بھارت کا باجگزار اور غلام بنانے لگا تو اسی دیش کے باشندوں نے ملک کے بانی اور بابائے قوم کو معاف نہیں کیا اور اس کے سارے خاندان (سولہ افراد) کو بھون ڈالا۔ میں دھان منڈی میں شیخ مجیب الرّحمان کا وہ گھر دیکھنے گیا جہاں انہیں گھرانے کے سولہ افراد سمیت قتل کر دیا گیا تھا۔ ہر کمرہ عبرت کا نشان تھا مکان کے درو دیوار اس بات کی دھائی دے رہے تھے کہ47 ء میں تسلیم کیا گیا دوقوموں کا الگ الگ وجود اور حیثیت ختم کرنے کی جس نے بھی کوشش کی وہ خود عبرت کا نشان بن جائیگا۔ لگتا ہے اندراگاندھی کی روح اب شیخ مجیب کی بیٹی میں حلول کر گئی ہے کہ جب بھارت پاکستان کا ایک بازو کاٹنے کے درپے تھا تو اس وقت جس نے بھی اِس ننگی جارحیت کی مخالفت کی اور اپنے ملک کا دفاع کرنے کی بات کی یہ عورت آج چالیس سال بعد ان کے خلاف ظلم اور بربریت کے پہاڑ توڑ رہی ہے۔ محض بھارت کو خوش کرنے اور سیاسی سپورٹ حاصل کرنے کیلئے یہ پاکستان کے ہر وفادار کو ختم کر دینا چاہتی ہے۔ اور کوئی اسے روکنے والا نہیں ہے۔افراد کے ساتھ وفا کرنے والے تو انعام و اکرام اور مناصب کے حقدار قرار پائیں اور قائد کے پاکستان کے ساتھ وفاداری نبھانے والوں کیلئے ہمارے پاس ہمدردی کے چند بول بھی نہ ہوں۔ بنگلہ دیش میں متحدہ پاکستان سے وفا کرنے والوں کے ساتھ غیر انسانی سلوک پرپاکستان میں خاموشی اور بے حسی طاری رہی تو پھر ہمارے ساتھ کوئی بھی،کبھی بھی نہ کوئی وفا کرے گا نہ دوستی رکھے گا اور نہ اعتبار کرے گا۔نوٹ: ڈی آئی خان جیل پر حملے اور چلاس کے کل کے واقعے نے ہر باشعور پاکستانی کو سخت تشویش میں مبتلا کر دیاہے ضرورت اس امر کی ہے کہ فوری طور پر پارلیمنٹ میں موجود سیاسی قیادت ، فوج اور عدلیہ کے سربراہ سر جوڑ کر بیٹھیں اور ریاست کے وجود اور ساکھ کے تحفظ کیلئے پوری یکسوئی سے فیصلے کریں جو ڈنگ ٹپاؤ نہ ہوں۔ حکمت ِعملی حکمت سے خالی نہ ہومگر فیصلے دور رس اور جرأتمندانہ ہوں۔
تازہ ترین