• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
دونوں میں کیا فرق ہے؟؟؟
گزشتہ حکومت میں بھی دو قسم کے لوگ ہی آگے آگے دکھائی دیتے تھے۔ اول رشتے دار دوم تابعدار۔
موجودہ حکومت میں بھی رشتہ دار اور تابعدار ہی آگے آگے دکھائی دیتے ہیں۔
ڈرون پہلے بھی دندنا رہے تھے، ڈرون اب بھی وہی کچھ کر رہے ہیں اور کیری صاحب پاکستان میں بیٹھ کر کہہ چکے کہ یہ سلسلہ یونہی جاری رہے گا۔
لوڈشیڈنگ کل بھی موجود تھی، آج بھی زیادہ شدت کے ساتھ موجود ہے اور چھ مہینے میں لوڈشیڈنگ کا خاتمہ کرنے کی دعویدار موجودہ حکومت چھ ماہ کی بجائے تقریباً 60 ماہ کی ڈیٹ دے رہی ہے۔ کہتے ہیں 2017ء تک لوڈشیڈنگ کا خاتمہ نہیں بلکہ اس لعنت میں کمی ہوگی تو خود ہی حساب لگا لیں کہ اگر چھ مہینے 60 مہینوں میں بدل سکتے ہیں تو 60 ماہ دس سے ضرب کھا کر کہاں جا پہنچیں گے۔
ڈالر کل بھی روپے کی دھنائی کررہا تھا، آج بھی روپے کی بری طرح پٹائی ہو رہی ہے۔
دہشت گردی تب بھی عروج پر تھی، اب بھی جوبن پر ہے۔
مہنگائی الیکشن سے پہلے بھی بے لگام تھی، آج بھی بے تکان ہے بلکہ اگر پہلے بھاگ رہی تھی اب قلانچیں بھر رہی ہے۔
لاء اینڈ آرڈر کا وجود نہ پہلے تھا، اب بھی عنقا۔
کرپشن کہانیاں کل بھی سنائی دے رہی تھیں، آج بھی وہی حال ہے۔
کل بھی ”فیملی ٹورز“ ہو رہے تھے، آج بھی وہی کچھ ہو رہا ہے۔
کل بھی چہرے چمک، لباس دمک رہے تھے، آج بھی فیشن شوز کا سا سماں ہے۔
کل عام آدمی کا ستیاناس تھا تو آج سواستیاناس ہے۔
کل یہ امید تھی کہ کل کوئی اور آ جائے گا تو صورت حال بہتر ہوجائے گی اور اب لوگ سوچتے ہیں…”اب یہاں کوئی نہیں کوئی نہیں آئے گا“ کیونکہ ادھر ن لیگ بری طرح ”ایکسپوز“ ہو رہی ہے تو دوسری طرف خیبر پختونخوا میں عمران خان کی ”ڈریم ٹیم“ کو بھی سمجھ نہیں آرہی کہ کیا کرنا اور کدھر جانا ہے۔ عمران خان سیاسی چوزوں اور کارپوریٹ بچونگڑوں میں گھرا یہ شعر گنگنانے کے قابل بھی نہیں۔
میرا دکھ یہ ہے میں اپنے ساتھیوں جیسا نہیں
میں بہادر ہوں مگر ہارے ہوئے لشکر میں ہوں
لوگ پوچھتے ہیں کہ چلو ڈرون تو وفاقی حکومت کا مسئلہ ہے لیکن نیٹو فورسز کی سپلائی تو روکو۔
سمجھ نہیں آرہی کہ الیکشن نامی نوٹنکی کے نتیجہ میں ملک کے عوام نے کیا کھویا کیا پایا؟ انتخابی ایکسرسائز کا حاصل وصول کیا ہے؟ لوگوں نے کمایا کیا ہے؟
بار ھیں برسیں کھٹن گیا تے کھٹ کے لیایا ٹھوٹھا
اووی جھوٹے ایہہ وی جھوٹے ایتھے سب کچھ جھوٹا
”ٹھوٹھا“ سے مجھے وہ کشکول گروپ یاد آیا جو الیکشن سے پہلے کشکول توڑنے کی بڑھکیں مارتا تھا۔ پھر اسحق ڈار نے حکومتی بڑھک لگائی کہ آئی ایم ایف سے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کر یں گے تو میں نے اس مزاحیہ بیان پر گرہ لگاتے ہوئے لکھا تھا کہ …یہ آنکھوں میں آنکھیں نہیں بانہوں میں بانہیں ڈال کر بات کریں گے لیکن یہ تو ٹانگوں میں ٹانگیں ڈال کر تین تین جگہوں سے قرض اٹھا لائے۔ لوڈشیڈنگ کے خاتمہ سے لے کر کشکول توڑنے کے وعدوں تک دروغ گوئی کی ایک طویل جمہوری انتخابی داستان ہے جس کی قربان گاہ پر 63-62 جیسی درفنطنیوں کو جتنی جلدی ذبح کردیا جائے تو بہتر ہوگا۔
روز کا یہ رونا پیٹنا اور جمہوری سیاپا یہیں پہنچا تھا کہ یہ خون آلود خبر آ پہنچی کہ بلوچستان سے پنجاب آنے والی بسوں کے چودہ پنجابی مسافر قتل کر دیئے گئے۔ چودہ اگست کو معرض وجودمیں آنے والے ملک میں چن چن اور پہچان پہچان کر پنجابیوں کے اس قتل عام کا منطقی انجام کیا ہوگا؟ پنجابی لیڈروں کی زبانیں تو جیسے لکڑی کی ہیں یا پتھرا چکیں… اب تک سوائے الطاف حسین کے کسی کو پرزور جاندار مذمت تک کی توفیق نہیں ہوئی۔ مچھ کے قریب 23 افراد کو بسوں سے اغوا کیا گیا، لیویز اہلکاروں سمیت 9 لوگوں کو ”مقامی “ ہونے کے باعث چھوڑ دیا گیا اور باقی وہ غریب مزدور، محروم پاکستانی موت کے گھاٹ اتار دیئے گئے جن پر ”پنجابی“ ہونے کی تہمت تھی اور جن کا تعلق صادق آباد، راولپنڈی، ڈی جی خان، مظفر گڑھ اور فیصل آباد… یہ رزق کی تلاش میں گئے تھے اور اپنے عزیزوں کے ساتھ عید منانے واپس آ رہے تھے۔ رزق کی جگہ موت اور گھر کی جگہ قبر پہنچانے والے۔ری ایکشن بہت دیر تک روکا نہ جا سکے گا کیونکہ یہ سائنسی طور پر طے ہے کہ ہر عمل کا ردعمل ناگزیر ہوتا ہے۔ مراعات یافتہ طبقات سے گلے، شکوے، شکائتیں حتی کہ نفرت بھی کسی حد تک سمجھ آتی ہے لیکن مظلوم اور محروم ترین طبقوں کے روٹی کی تلاش میں نکلے ہوئے مزدوروں پر غصہ، نفرت، انتقام اور ان کا قتل عام… اس کے لئے ضروری ہے کہ انسان کے پاس نہ دل ہو نہ دماغ… نہ ذہن کام کرے نہ ضمیر کہ یہ لوگ تو اپنی زندگیوں میں ہی مر چکے ہوتے ہیں۔اقبال سے لے کر بابائے قوم تک کو اگر 2013ء کا یہ پاکستان اور پاکستانیوں کا یہ حال دکھایا جاتا تو اس کے خواب دیکھنے اور اسے بتانے والوں کا آخری فیصلہ کیا ہوتا؟ مجھے تو سمجھ نہیں آرہی اس لئے بلاعنوان لکھ دیا…آپ چاہیں تو اپنی پسند کاکوئی عنوان خود دے لیں۔
تازہ ترین