• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اس برس عیدالفطر اور عید آزادی ایک ساتھ منائی جا رہی ہیں ۔ ایک مذہبی تہوار ہے اور دوسری کا تعلق ہماری قومی پہچان سے ہے۔ عید خوشیوں کا نام ہے لیکن ہر برس ہماری خوشیوں پر اس لئے اوس پڑ جاتی ہے کہ ہمارے سیاسی بحران، معاشی مسائل اور داخلی امن وسلامتی کی بری طرح اُلجھی ہوئی گتھیاں وا نہیں ہوئیں۔ اس خرابی کی بنیاد یہ ہے کہ ہمارے ملک میں مختلف آمریتیں دراصل ایک خاص ریاستی نمونے کا تسلسل تھیں۔ ہم نے اس ریاستی نمونے کا انتخاب اب سے ساٹھ برس پہلے کیا تھا جب سول افسر شاہی اور فوجی قیادت نے سیاسی قیادت کو حقیقی اقتدار سے بے دخل کردیا تھا۔ بیسویں صدی کی نظریاتی سیاست کی اصطلاح میں ہم نے فلاحی مملکت کے بجائے سیکورٹی اسٹیٹ کا نمونہ اختیار کر لیا تھا۔ عوامی فلاحی ریاست میں طرز حکمرانی جمہوری ہوتا ہے جب کہ حکومت اور اس کے معاون ریاستی اداروں کا بنیادی فرض اپنے شہریوں کی فلاح کو یقینی بناتے ہوئے ان کا معیار زندگی بلند کرنا ہوتا ہے۔ دوسری طرف مفروضہ قومی سلامتی کو انسانی ترقی پر ترجیح دینے والی ریاستیں اپنے موعودہ نظریاتی مفادات میں ایسا نظام حکومت تشکیل دیتی ہیں جس کا بنیادی مقصد داخلی اور خارجی سطح پر پیوستہ مفادات کا تحفظ ہوتا ہے۔ قومی سلامتی کے نمونے پر آگے بڑھنے والی ریاستیں عوامی خدمات کے بجائے دفاعی امور پر ملکی دولت خرچ کرتی ہیں۔ اپنے عوام کی آزادیوں کا تحفظ کرنے کے بجائے مفروضہ نظریاتی مقاصد کے نام پر ایسا ریاستی ڈھانچہ تشکیل دیا جاتا ہے جس میں ریاستی اہلکار کسی قانون، ضابطے یا جواب دہی سے بے نیاز ہو کر شہریوں کی زندگی سے کھلواڑ کر سکتے ہیں۔ قومی سلامتی اور وسیع تر نظریاتی مفادات کی مالا جپنے والی ریاست اپنے عوام کا علمی، تخلیقی اور پیداواری امکان بلند کرنے کے بجائے مختلف جغرافیائی، نسلی اور مذہبی تنازعات کے ذریعے ایسے قومی مفادات کو فروغ دینے کا بیڑا اٹھاتی ہے جنہیں نہ عوام سمجھ سکتے ہیں اور نہ ایسے تنازعات سے عوام کا مفاد منسلک ہوتا ہے۔ یہ فرض کر لیا جاتا ہے کہ فوجی جنتا اور اعلیٰ ریاستی مناسب پر فائز سرکاری اہلکاروں کا ایک مٹھی بھر ٹولہ ہی اِن مفادات کی درست تفہیم رکھتا ہے اور وہی نادیدہ ٹولہ یہ صلاحیت رکھتا ہے کہ اِن مفروضہ قومی مطالبات اور مفادات پر بنیادی فیصلے کرے۔ قومی سلامتی کی ریاست دفاع اور تحفظ کے نام پر قائم کی جاتی ہے لیکن ایسی ریاست نہ اپنے دفاع کی صلاحیت رکھتی ہے اور نہ ہی عوام کی فلاح کا تحفظ ہی کر سکتی ہے۔
سرد جنگ کے دوران امریکی وزیرِ خارجہ جان فاسٹرڈلس نے اشتراکی اثر و نفوذ کے سامنے بند باندھنے کے لئے یہ نظریہ پیش کیا تھا کہ ترقی پذیر ممالک میں سلامتی ہی ترقی ہے ۔ سرمایہ دارانہ اصطلاح میں سلامتی کا مفہوم ہر جائز اور ناجائز طریقے سے اشتراکی فکر کے سیاسی اور معاشی اثر و نفوذ کو روکنا تھا۔ ”سلامتی ہی ترقی ہے“ کے اِس فلسفے سے دو بنیادی نتائج برآمد ہوئے۔ نو آزاد ریاستوں میں عوام کی معاشی اور سماجی ترقی بنیادی ترجیح نہ رہی جس سے ایشیاء اور افریقہ کے درجنوں نو آزاد ممالک میں عوام معاشی اور سیاسی اعتبار سے پسماندہ رہ گئے۔ سلامتی کا تصور ناگزیر طور پر فوجی قوت سے جُڑا ہوا ہے چنانچہ اِن ممالک میں سیاسی اور سماجی فیصلہ سازی میں فوج کی دخل اندازی یہاں تک بڑھی کہ ایشیاء، افریقہ اور لاطینی امریکہ کے درجنوں ممالک میں فوج نے اقتدار پر براہِ راست قبضہ کرلیا۔
سلامتی کو ترقی پر ترجیح دینے کا ناگزیر نتیجہ یہ نکلا کہ نوآزاد ریاستوں میں جمہوریت اور معاشی ترقی کا امکان ختم ہو کر رہ گیا، سماجی و علمی پسماندگی کے سائے لمبے ہونے لگے۔ اِن ممالک میں غیر جوابدہ اور آمرانہ حکومتوں نے بدعنوانی اور لوٹ کھسوٹ کے گوناگوں نئے انداز ایجاد کئے۔ جمہوری اور معاشی حقوق کا مطالبہ کرنے والے سیاسی کارکنوں اور دانشوروں کو جبر و تشدد کے ذریعے کچل کر رکھ دیا گیا۔
اشتراکی اور سرمایہ دارانہ نظام کی کشمکش میں جمہوری طرزِ حکومت کی حتمی کامیابی کا جان فاسٹرڈلس کے سلامتی کے نظرئیے سے کوئی تعلق نہیں۔ اشتراکی نظامِ حکومت اپنے داخلی، معاشی اور سیاسی تضادات کے نتیجے میں منہدم ہوا۔ سلامتی کے کوتاہ اندیش نظرئیے کے نتیجے میں انسانی آبادی کے وسیع حصے معاشی غربت، سیاسی پسماندگی، سماجی بدحالی اور علمی ابتری کا شکار ہیں۔ آج سرد جنگ ختم ہوچکی ہے لیکن ترقی پذیر ممالک میں فوجی اور سول نوکر شاہی نے مقامی استحصالی گروہوں مثلاً جاگیرداروں، منشیات اور اسلحے کی اسمگلنگ کرنے والے جرائم پیشہ گروہوں نیز عوام کے جمہوری حقوق سے انکار کرنے والے افراد اور گروہوں مثلاً مذہبی اجارہ داروں کے ساتھ جو گٹھ جوڑ کیا تھا، وہ پورے طور پر موجود ہے۔ ترقی پذیر ممالک کے لئے سلامتی کے نظرےئے سے ترقی کے نظرئیے کی طرف سفر بے حد کٹھن ہے کیونکہ اِن کے انفرادی اور ادارہ جاتی امکانات کو کمزور کر دیا گیا ہے۔ سلامتی کے نظرئیے کی باقیات کی موجودگی میں جمہوریت کامیاب نہیں ہوسکتی اور جمہوریت کے بغیر اِنسانی ترقی ممکن نہیں۔
اس وقت پاکستان کی ریاست، حکومت اور معاشرہ اس کشمکش سے دوچار ہیں کہ قومی تحفظ کے نام پر وجود میں آنے والے اس ریاستی نمونے کو کس طرح ایسے جمہوری نمونے میں تبدیل کیا جائے جو قومی خود مختاری، اجتماعی وقار، شہریوں کے تحفظ اور اقتصادی ترقی کی ضمانت دے سکے۔ پاکستان کی موجودہ اور حالیہ سیاسی قیادت میں اس نکتے پر اتفاق رہا ہے کہ ہمارے ملک میں خارجہ پالیسی کو داخلی مفادات کے تابع ہونا چاہئے۔ قومی سلامتی کے ریاستی نمونے سے استحصالی مفادات بٹورنے والے عناصر کو پاکستان کی جمہوری قیادت کا یہ ڈھنگ پسند نہیں ہے۔ سیکورٹی اسٹیٹ تعاون کے بجائے تصادم، تجارت کے بجائے جنگ، مشترکہ ثقافتی نکات پر زور دینے کے بجائے اختلافی نکات کو اُبھارنے نیز مخالف گروہوں میں صلاحیت، وسائل اور امکانات کے تنوع سے چند در چند فوائد حاصل کرنے کے بجائے بیگانگی کے رویّے کو بڑھاوا دے کر دیواریں اٹھانے کے عمل کو ترجیح دیتی ہے۔
کسی ملک کے جغرافیائی محل وقوع کو دو طرح سے دیکھا جا سکتا ہے۔ ایک یہ کہ سٹرکیں، ریلوے اور دوسری سہولتیں تعمیر کی جائیں تاکہ یہاں سے گزرنے والے ان سے استفادہ کر سکیں۔ جب کوئی ریاست جغرافیائی طور پر متصل ممالک کے لئے رہ گزر بن جاتی ہے تو اس کی معاشی اہمیت میں بھی اضافہ ہو جاتا ہے۔ اس کے فوائد معیشت کے فروغ اور جنگ کے خاتمے کی صورت میں نمودار ہوتے ہیں۔ جغرافیائی محل وقوع کو فوجی نقطہٴ نظر سے بھی دیکھا جا سکتا ہے جس میں جغرافیائی حقائق کو ’قرابت‘ کے بجائے گھات لگانے کا امکان سمجھا جاتا ہے۔ یہ انداز فکر راستہ دینے کے بجائے راستہ روکنے کی صلاحیت کو برتر گردانتا ہے۔ سیکورٹی اسٹیٹ کے تصور نے پاکستان میں جغرافیائی اہمیت کو جنگجویانہ زاویہ فراہم کیا ہے۔ جدید جمہوری ریاست اس طرز فکر کی حمایت نہیں کرتی۔
سوال یہ ہے کہ ہم نے ساٹھ برس تک ایک راستے پر چل کر دیکھ لیا۔ ہماری پسماندگی دور نہیں ہوئی۔ ہمیں مسلسل انحطاط کا سامنا ہے۔ ملک میں زرمبادلہ کے ذخائر کم ہیں، کرنسی کی قیمت گر رہی ہے، تجارت کا خسارہ بڑھ رہا ہے۔ ہماری معاشرت کے بخیے اُدھڑ رہے ہیں۔ ہمارے عوام کو علاج اور بچوں کو تعلیم میسر نہیں۔ ہماری بچیاں بنیادی انسانی وقار سے محروم ہیں۔ ہماری مائیں آٹا خریدنے کے لئے کڑی دھوپ میں لمبی قطاروں میں کھڑی ہیں۔ اس حالت میں ہم نے دنیا سے مجادلے پر کمر باندھ رکھی ہے۔ آج کی دنیا میں جب تک باہمی مفاد کا سوال نہ ہو کوئی ملک کسی دوسرے ملک کا بھلا کرنے کو تیار نہیں۔ پاکستانی قیادت نے پچھلے عشروں میں جو رویہ اپنایا وہ اب یہ ہمارے کام نہیں آ سکتا۔ اگر ہم تجارت، سلامتی، علم اور پیداوار کا راستہ اپناتے ہیں تو ہمارے پاس بھی دنیا کو دینے کے لئے بہت کچھ ہے۔
تازہ ترین