• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گزشتہ کالم مسلم لیگ ن کے حلقوں میں خاص طور پر پڑھا گیا۔ میرا موضوع پنجاب کا نیا گورنر تھا۔ ایک امپورٹڈ گورنر کی نامزدگی کے بعد مسلم لیگیوں کے حوصلے خاصے پست ہو گئے ہیں جو سال ہا سال سے صعوبتیں برداشت کر رہے تھے انہیں اپنی جماعت کے انتخاب پر نہ صرف حیرت ہے بلکہ پریشانی بھی لاحق ہے۔ بہت سے مسلم لیگی زعماء یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ کیا انہوں نے پرویز مشرف کے آمرانہ دور کا مقابلہ اسی ”خوبصورت“ دن کو دیکھنے کیلئے کیا تھا۔ مجھے بہت سے مسلم لیگیوں نے ٹیلی فون کالز اور ای میلز کے ذریعے اپنے جذبات سے آگاہ کیا ہے۔ جذبات کا یہ اظہار کسی ایک صوبے سے نہیں بلکہ چاروں صوبوں سے ہوا ہے۔ 12/اکتوبر کے بعد دور ابتلا میں جو لوگ مسلم لیگ ن کی محبت میں گرفتار تھے، اب ان کے چہرے کہیں پس پردہ چلے گئے ہیں۔ ان میں سے کوئی ایک آدھ ہی کسی خاص منظر میں نظر آتا ہے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کیونکہ میں خود پرویز مشرف کے آمرانہ دور میں جبر کے خلاف برسرپیکار تھا، عدلیہ کی بحالی میں بھی شریک جدوجہد تھا بلکہ شاہراہ دستور پر میرا خون آلود ”چہرہ“ میڈیا کی زینت بنا۔ اس لئے مجھے جدوجہد کے تمام مراحل میں شامل ساتھیوں کی اچھی طرح خبر ہے۔ آمرانہ جبر کے سامنے سینہ تان کے جمہوریت کا نام لینے والے گمنام ہو کر رہ گئے ہیں، بے ثمر ہو کر رہ گئے ہیں، اقتدار کے پھولوں کی مہک سے کہیں دور ہیں۔ شاید یہ سیاست کا المیہ ہے کیونکہ میں نے بھٹو صاحب کے دور سے قربانیوں کی علامت بننے والی شاہدہ جبیں کو بھی دھکے کھاتے ہوئے دیکھا ہے اور بھی بہت سے نام ہیں، اگر نام لکھنے بیٹھوں تو کئی کالم درکار ہوں گے۔ پیپلزپارٹی نے تو پھر بھی جدوجہد کرنے والے کئی کارکنوں کی قربانیوں کو صلہ دیا لیکن جدید دور کی سیاست میں یہ نظر نہیں آرہا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ایک جرنیل روزانہ سرانجام خان پر پریشر ڈالتا تھا کہ آپ پارٹی کے سیکرٹری جنرل ہیں آپ اگر ہمارا ساتھ دیں تو ن لیگ ہی ختم ہو جائے گی مگرخان صاحب ہمیشہ انکار کر دیتے۔ سبحان خان اور اقبال ظفر جھگڑا نے ن لیگ کا پہلا جلسہ اس وقت کرایا جب ن لیگ کا نام لینا جرم تھا۔ مخدوم جاوید ہاشمی، تہمینہ دولتانہ اور چند دیگر رہنما بیگم کلثوم نواز کے ساتھ ہوتے تھے۔ پھر وقت نے انگڑائی لی تو جاوید ہاشمی کو اس قدر مجبور کر دیا گیا کہ وہ پارٹی کو خیرباد کہنے پر مجبور ہو گئے۔ تہمینہ دولتانہ کو کہیں پیچھے دھکیلا جا چکا ہے۔ کیا ہی اچھا ہوتا گورنر امپورٹ کرنے کے بجائے ن لیگ جنوبی پنجاب سے کسی خاتون کو یہ عہدہ دیتی تو مخالفوں کی طرف سے ن لیگ پر لگا ئے جانے والے قدامت پسندی کے الزام کا داغ بھی دھل جاتا۔ عہدوں کی تازہ تقسیم نے ن لیگ کے اندر ایک نئے لاوے کو جنم دیا ہے۔ عید کے بعد اس میں گرمی آجائے گی۔ ستائیس رمضان المبارک کو ڈاکٹر طاہر القادری نے شہر اعتکاف میں بھرپور سیاسی خطاب کیا۔ اس خطاب سے ایک بات عیاں تھی کہ وہ مستقبل میں ایک بڑے لانگ مارچ کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔ اگر وہ ایسا کرنے میں کامیاب ہو گئے تو اب بہت سے وہ لوگ ان کے ساتھ دیں گے جنہوں نے پہلے ان کا ساتھ نہیں دیا تھا بلکہ بعد پچھتاوے کے ساتھ کہتے رہے کہ … ”قادری صاحب سچ کہتے تھے، ان کا ساتھ نہ دے کر غلطی کی“۔
ایک طرف یہ منصوبہ بندی ہو رہی ہے تو دوسری طرف عمران خان دھاندلی پر وائٹ پیپر پیش کر رہے ہیں، عید کے بعد وائٹ پیپر پیش کرنے کے بعد عمران خان احتجاجی سیاست کا اعلان کریں گے ویسے بھی حالات عمران خان کے غصے کو ہوا دے رہے ہیں۔ توہین عدالت کا ایک مقدمہ 28/اگست کو عمران خان کے جواب کا منتظر ہے۔ انہیں آج کل مختلف قسم کے مشورے دیئے جا رہے ہیں۔ غالب امکان یہی ہے کہ عمران خان اپنے موقف پر قائم رہیں گے۔اگر چہ فخرو بھائی چیف الیکشن کمشنر کے عہدے سے استعفیٰ دے چکے ہیں مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ عید کے بعد فخرو بھائی کا نام بڑی شدت سے لیا جائے گا۔ رمضان المبارک میں سرد ہونے والی سیاست عید کے بعد گرم ہونے کی توقع ہے۔ عید کے موقع پر دبئی میں سیاست کی نئی منصوبہ بندی ہونے جا رہی ہے۔ صدارتی الیکشن کے بائیکاٹ کے بعد پیپلز پارٹی بھی احتجاج کے موڈ میں ہے۔ صدارتی الیکشن کے موقع پر پیپلزپارٹی نے عدالتی فیصلے کو متنازع قرار دیا تھا، غیر آئینی بھی کہا تھا۔ پیپلزپارٹی نے اسی عدالت کے فیصلے کو ماننے سے انکار کیا جس کے ایک فیصلے کو حالات کے جبر نے تسلیم کرایا۔ آپ کو یاد ہو گا کہ بارہ اکتوبر1999ء کے بعد ممتاز مسلم لیگی سید ظفر علی شاہ جمہوریت مانگنے گئے تھے لیکن سپریم کورٹ نے انہیں خالی ہاتھ لوٹا دیا تھا۔ آپ کو یہ بھی یاد ہو گا کہ جب جنرل مشرف نے عدلیہ پر شب خون مارا تھا تو پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف نے عدلیہ کی بحالی کے لئے بے مثال جدوجہد کی تھی۔ عدلیہ بحالی تحریک میں میڈیا کا کردار بھی اہم تھا۔ چوہدری اعتزاز احسن، علی احمد کرا اورزمرد خان نے اپنی محنت سے اس تحریک کو لازوال بنا دیا تھا مگر جب تحریک کامیاب ہوئی تو تینوں ہی راندہٴ درگاہ تھے۔
ایک مرتبہ پھر بار اور بنچ کے تعلقات کی کشیدگی ظاہر ہونا شروع ہو گئی ہے۔ اس سلسلے میں لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کی طرف سے منظور کردہ ایک قرارداد کو نظر انداز کرنا خاصا مشکل ہے۔ جن دنوں یہ قرارداد منظور ہوئی، انہی دنوں عمران خان کو توہین عدالت کے سلسلے میں سپریم کورٹ نے طلب کر رکھا تھا۔ ریمارکس تو بہت سے پاس ہوئے مگر ایک جملہ ایسا تھا جس پر خورشید شاہ نے تبصرہ کیا کہ ذوالفقار علی بھٹو کا نام لے کر عمران خان کو ڈرایا گیا یا دھمکایا گیا ہے“۔لاہور ہائی کوٹ بار کی قرارداد میں رضا ربانی کو نہ سننے کے عمل کو عدل و انصاف پر سوالیہ نشان قرار دے کر صدارتی الیکشن کو مشکوک اور غیر آئینی قرار دیا ہے۔ قرارداد میں سپریم جوڈیشل کونسل کا تذکرہ بھی ہوا ہے۔ پتہ نہیں بار اوربنچ کیا گل کھلاتے ہیں بہرکیف ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی روش نے ہمارے معاشرے کا مجموعی ”چہرہ“ شرمناک اور خوفناک بنا دیا ہے جو کسی طور بھی درست نہیں۔ ادارے دائروں میں رہ کر ہی اپنا اپنا ”چہرہ“ خوبصورت بنا سکتے ہیں۔ ورنہ
تازہ ہوا کے شوق میں اے ساکنان شہر
اتنے نہ در بناؤ کہ دیوار گر پڑے
تازہ ترین