• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بھارت کی مغربی صحرائی ریاست راجستھان کی آب و ہوا ایسی ہی ہے جیسے ہمارے ہاں تھر اور چولستان کا بے آب و گیاہ اور لق دق صحرا۔ خشک سالی کا یہ عالم ہے کہ سخت جان مویشی بھی موسم کی تاب نہ لاتے ہوئے مر جاتے ہیں پینے کا صاف پانی دستیاب نہیں خواتین کئی کئی میل سفر کر کے پانی بھر کر لاتی ہیں یا پھر بارش کا پانی جمع کر کے انسان اور حیوان ایک ہی گھاٹ پر پیتے نظر آتے ہیں۔ چونکہ زمینیں بنجر اور موسم شدید خشک ہے اس لئے گندم‘ چاول‘ کپاس یا اس طرح کی کوئی فصل کاشت نہیں ہو سکتی اور لوگوں کا واحد اثاثہ وہ جانور ہیں جو دودھ دیتے ہیں اور ضرورت پڑنے پر انہیں ذبح بھی کر لیا جاتا ہے۔ مجھے اخبارات کے ذریعے جب معلوم ہوا کہ راجستھان میں مفلوک الحال باشندوں کے حالات اب پہلے جیسے نہیں رہے اور خوشحالی ان کے دروازے پر دستک دے رہی ہے تو مجھے بہت تعجب ہوا۔ میں نے کھوج لگانے کی کوشش کی کہ آخر بھارتی حکومت نے کونسا ایسا انقلابی اقدام اُٹھایا ہے کہ راجستھان کی بنجر زمین سونا اگلنے لگی ہے۔ اس جستجو کے دوران معلوم ہوا کہ بھارتی محکمہ زراعت کے ماہرین نے کئی سالہ تحقیق کے بعد یہ نتیجہ نکالا کہ شدید گرمی‘ پانی کی عدم دستیابی اور خشک سالی کے باوجود ایک ایسی فصل ہے جو اس بنجر زمین میں برگ و بار لا سکتی ہے اور کم سرمایہ کاری کے ساتھ زیادہ زرمبادلہ کمانے کا سبب بن سکتی ہے اور وہ ہے زیتون کی فصل۔ عرب ملکوں میں تین پھل زیتون‘ انجیر اور کھجور اپنی افادیت و اہمیت کے حوالے سے مسلمہ پہچان کے حامل ہیں قرآن مجید میں بھی زیتون کا ذکر آیا ہے اور زیتون بیشتر بیماریوں کے دوران شفا یابی کے لئے ایک ٹانک کی حیثیت رکھتا ہے۔ دن بہ دن زیتون کی طلب اور کھپت میں اضافہ ہو رہا ہے صرف عرب ممالک ہی نہیں پورے بحیرہ روم میں زیتون خوراک کا لازمی جزو ہے۔ زیتون کے استعمال میں یونان سب سے آگے ہے جہاں ہر شہری اوسطاً 18 کلو زیتون ہر سال استعمال کرتا ہے۔ اسپین میں فی کس استعمال 12.6 کلو‘ اٹلی میں 10.9 کلو‘ قبرص میں 7.5 کلو اور پرتگال میں فی کس استعمال 7.4 کلو ہے۔ عمومی خیال یہ ہے کہ زیتون کا درخت صرف عرب ممالک میں ہی پیداہوتا ہے مگر چشم کشا حقیقت یہ ہے کہ زیتون کی پیداوار میں یورپی یونین پہلے‘ تیونس دوسرے‘ شام تیسرے‘ ترکی چوتھے‘ مراکش پانچویں اور آسٹریلیا چھٹے نمبر پر ہے یہاں تک کہ امریکہ کا شمار بھی ٹاپ ٹین ممالک میں ہوتا ہے۔ زیتون کی عالمی تجارت کھربوں ڈالر سالانہ تک پہنچ چکی ہے اور وہ ممالک کثیر زرمبادلہ کما رہے ہیں جنہوں نے موزوں علاقوں کا انتخاب کر کے بروقت زیتون کی فصل کاشت کی اور اس مارکیٹ میں اپنی جگہ بنانے میں کامیاب ہو گئے۔ بھارتی ماہرین نے سوچا اگر اسپین‘ اٹلی اور یونان میں زیتون کی فصل کامیاب ہو سکتی ہے تو راجستھان میں کیوں نہیں۔ چونکہ زیتون کا درخت 100 سے ڈیڑھ سو سال تک قائم و دائم رہتا ہے اس لئے ایک مرتبہ یہ درخت لگانے کا مطلب ہے کہ دو نسلیں اس کا پھل کھا سکتی ہیں۔ یہ ایسا درخت ہے کہ سخت ترین حالات اور پانی کی شدید کمی کے باوجو بدستور پھل پھول دیتا رہتا ہے۔ یہی سوچ کر بھارتی حکومت نے راجستھان زیتون ایجنسی قائم کی اور پہلے ہی مرحلے میں 2008ء کے دوران 260 ہیکٹرز رقبے پر زیتون کے ایک لاکھ 44 ہزار درخت لگائے گئے جو اب تیار ہو چکے ہیں اور پیداوار شروع ہو گئی ہے آئندہ تین سال کے دوران اس منصوبے کو 5000 ہیکٹرز پر پھیلا دیا گیا اور اب راجستھان کے صحرا میں ریت کے ٹیلوں کے بجائے زیتون کے درختوں کی طویل قطاریں دکھائی دیتی ہیں راجستھان زیتون ایجنسی کے مطابق ایک درخت لگانے پر 2.19 ڈالر یا 130 بھارتی روپے خرچ ہوتے ہیں تاہم ریاستی حکومت سبسڈی دے کر ایک درخت پر 102 روپے خرچ کر رہی ہے اور کسان کے صرف 28 روپے خرچ ہوتے ہیں۔ راجستھان کو زیتون کوریڈور بنانے کے لئے اٹلی سے جدید ترین مشینری منگوا کر آئل ریفائنری لگائی گئی ہے تاکہ زیتون کا تیل نکالنے میں کسان کو دشواری نہ ہو۔ اس شعبہ سے وابستہ افراد کا خیال ہے آئندہ چند برس کے دوران بھارت زیتون برآمد کرنے والے 10 بڑے ممالک کی فہرست میں شامل ہو جائے گا۔
جب اس طرح کی مثالیں دیکھتا ہوں تو دل سے ایک ہوک سی اُٹھتی ہے کہ ایک جیسی آب و ہوا‘ ایک جیسے وسائل ‘ ایک طرح کے لوگ پھر اس قدر تفاوت کیوں؟ آخر کیا وجہ ہے کہ بھارتی پنجاب کی قابل کاشت اراضی ہم سے کم ہونے کے باوجود وہاں گندم کی پیداوار کئی گنا زیادہ ہوتی ہے ، بھارتی کسان ایک ایکڑ سے 70 من اناج اُٹھا رہا ہے اور ہمارے ہاں بھاری فصل ہو تب بھی پیداوار 30 من فی ایکڑ سے نہیں بڑھتی۔ ہم سے چار گناہ چھوٹے مشرقی پنجاب میں صرف گندم ہی نہیں‘ روئی‘ چاول‘ ٹماٹر‘ آلو‘ پیاز سمیت ہر فصل کی پیداوار ہم سے زیادہ ہے ۔ ہم زرعی ملک ہونے کے باوجود گندم درآمد کررہے ہوتے ہیں انڈیا سے آلو‘ پیاز اور ٹماٹر منگوا رہے ہوتے ہیں۔ آخر کیا وجہ ہے کہ ہمارے ہاں ڈالر100 روپے سے بھی بڑھ گیا ہے اور وہاں ڈالر کی قیمت خرید 52 روپے ہے؟بھارتی پنجاب تو زراعت کے حوالے سے ہم سے آگے تھا ہی اب راجستھان جیسی ناقابل کاشت اراضی کو استعمال میں لا کر بھارتی حکومت نے ایک مثال قائم کر دی ہے ۔ مجھے خیال آیا کہ بھارت میں زیتون کی فصل کاشت ہو سکتی ہے تو پاکستان میں کیوں نہیں؟ اس سوال کا جواب ڈھونڈنے نکلا تو معلوم ہوا ہمارے ہاں پاکستان زرعی تحقیقاتی کونسل(PARC) کے نام سے ادارہ پہلے سے موجود ہے اس کے علاوہ پاکستان آئل ڈویلپمنٹ اور (PODB) کے نام سے بھی ایک سرکا ری ادارہ سرگرم عمل ہے مگر کارکردگی ندارد۔ ان اداروں کے اپنے اعدادو شمار کے مطابق اس وقت پاکستان میں 8 ملین زیتون کے درخت لگے لگائے موجود ہیں لیکن ان جنگلی درختوں کو پھل نہیں لگتا۔ پاک فوج نے 2008ء کے دوران وزیرستان میں 25 ہزار درختوں کی پیوندکاری کی تھی جو اب پیداوار دے رہے ہیں اگر نئے درخت لگائے بغیر ان 80 لاکھ جنگلی درختوں کی پیوندکاری ہی کر لی جائے تو سالانہ ایک ارب ڈالر کا زرمبادلہ کمایا جا سکتا ہے۔ پاکستان کے بیشتر علاقوں کی آب و ہوا زیتون کی افزائش کے لئے سازگار ہے۔ ایبٹ آباد‘ مانسہرہ‘ وزیرستان‘ سوات‘ قلعہ سیف اللہ‘ لورالائی‘ اٹک‘ چکوال‘ راولپنڈی اور خطہ پوٹھوہار کے دیگر کئی اضلاع میں یہ فصل کاشت کی جا سکتی ہے۔ اس حوالے سے بھی اسٹڈی ہو چکی ہے کہ پاکستان میں662847 ہیکٹر رقبے پر زیتون کے درخت لگائے جا سکتے ہیں جن سے سالانہ 538338 بلین روپے کا زرمبادلہ حاصل کیا جا سکتا ہے مگر ہم یہ کام نہیں کر سکتے کیونکہ ہمارے ہاں حکومتی سطح پر ایک ہی فصل کی کاشت کا اہتمام ہوتا ہے اور وہ ہے ہتھیلی پر سرسوں جمانے کی فصل۔ ہمارے ہاں صحرا کیا آباد ہوں گے یہاں تو قابل کاشت اراضی اور زرخیز زمینیں بنجر پڑی ہیں ۔یہاں 70 من فی ایکڑ پیداوار کا خواب پورا نہیں ہو سکتا‘ زیتون کی فصل کاشت نہیں ہو سکتی کیونکہ ایک چینی دانشور کا قول ہے‘ کتے کے منہ میں ہاتھی کے دانت نہیں اُگتے۔
تازہ ترین