• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ مختصر سی لوک کہانی اگرچہ غیر سیاسی ہے لیکن حکومتی نظام کے بارے میں ہمارے بہت سے سوالات کے جوابات اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔

ایک نوجوان دنیا سے مایوس ہوا تو اس نے جنگل کی راہ اختیار کی ۔چلتے چلتے وہ ایک ایسی جگہ جا پہنچا جہاں ایک بوڑھا آدمی دو زانو بیٹھا ہوا تھا اور بآواز بلند یہ دعا مانگ رہا تھا ’’ اے میرے خدا! مجھے تو اس ملک کا بادشاہ بنا دے ،بادشاہ بن کر میں اس ملک کا سارا نظام ٹھیک کر دوں گا ،کوئی شخص کسی پر ظلم نہیں کر سکے گا،انصاف کا بول بالا ہو گا ،چوری اور راہ زنی کا خاتمہ کر دوں گا،غریب اور امیر برابر ہوں گے ، بچوں اور عورتوں پر ظلم کرنے والے ہاتھ کٹوا دوں گا، قاتلوں کو سر عام پھانسی دلوائوں گا نیک اور پرہیز گار لوگوں کو اپنا مشیر بنائوں گا ۔ ہر طرف حق کا بول بالا ہو گا، جھوٹے خدائوں کو نیست ونابود کر دوں گا، رشوت اور سفارش کا قلع قمع کر دوں گا،میرٹ پر ملازمتیں دوں گا، مہنگائی کا ملک میں نام ونشاں تک نہ ہو گا، اے میرے خدا ! میری فریاد سن لے تاکہ میں جلد از جلد اس ملک میں بہترین نظام حکومت نافذ کر سکوں‘‘۔

دعا کے بعد بوڑھے نے ایک نوجوان کو وہاں دیکھا تو بولا’’تم کون ہو اور یہاں کیاکر رہے ہو؟‘‘ نوجوان نے کہا ’’بابا جی ! میں بھی آپ کی طرح دنیا چھوڑ آیا ہوں میری خواہش ہے کہ آپ مجھے اپنا شاگرد بنالیں اور اجازت دیں کہ میں بھی آپ کے ساتھ اسی جگہ دو زانو بیٹھا کروں اور وہ دعا مانگا کروں جو میرے دل میں ہے ۔بوڑھے نے کہا ’’ٹھیک ہے تم میرے ساتھ یہاں رہ سکتے ہو۔اپنی دعا مانگ سکتے ہو لیکن ایک شرط ہے۔ شرط یہ ہے کہ تم ہر روز صبح سویرے شہر جایا کرو گے میرے اور اپنے لئے کھانا مانگ کر لایا کرو گے۔‘‘ نوجوان نے کہا ’’ مجھے آپ کی شرط منظور ہے ، دوسرے روز نوجوان نے اپنا وعدہ پورا کیا تو بوڑھے نے کہا ’’نوجوان ! میں نے تمہیں اپنی شاگردی میں لیا اب تم چاہو تو اپنی دعا مانگ سکتے ہو‘‘ یہ سن کر وہ نوجوان بہت خوش ہوا ۔دو زانو بیٹھ گیا اور بآواز بلند اپنی دعا مانگنے لگا’’ اے میرے خدا ! مجھے تو اس ملک کا بادشاہ بنا دے، ملک کا بادشاہ بن کر میں سارا نظام تلپٹ کر دوں گا، ہر طاقتور کو کمزور پر ظلم کی اجازت دے دوں گا، انصاف کا قتل عام کروں گا، چوری اور راہ زنی عام کر دوں گا، غریب اور امیر کو ایک دوسرے سے دور کر دوں گا، بچوں اور عورتوں پر ظلم کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کروں گا، قاتلوں کو کبھی پھانسی کی سزا نہیں ہونے دوں گا، بدنام زمانہ، بدعنوان اور خطا کار لوگوں کو اپنا مشیر بنائوں گا، خوشامدیوں کو وزارتیں دوں گا، ہر طرف جھوٹ کا راج ہو گا، رشوت اور سفارش عام کر دوں گا، میرٹ کا خاتمہ کردوں گا، ہر چیز پہلے سے مہنگی کر دوں گا، اے خدا !مری فریاد سن لے تاکہ میں جلد از جلد اپنے منشور پر عمل کر سکوں‘‘۔

بوڑھے نے نوجوان کی دعا سنی تو بولا ’’یہ تم کیسی دعا مانگ رہے ہو ؟‘‘ نوجوان بولا ’’بابا جی ! آپ مجھے اپنے ساتھ بیٹھ کر دعا مانگنے کی اجازت دے چکے ہیں اب آپ کو اپنی زبان سے پھرنا نہیں چاہئے‘‘ بوڑھے نے کہا ’’ٹھیک ہے تم اپنی دعا مانگتے رہنا میں اپنی دعا مانگتا رہوں گا ‘،یہ سلسلہ کئی ماہ تک جار ی رہا ۔

اک دن نوجوان صبح سویرے شہر کے دروازے پر پہنچا تاکہ کھانا مانگنے کے لئے اندر داخل ہو سکے۔ دروازہ کھلنے میں ابھی کچھ دیرتھی کچھ لمحوں کے بعد دروازہ کھلا نوجوان نے پہلا قدم اندر رکھا تو سامنے بہت سے لوگ زریں ہار لئے کھڑے تھے اور شور مچا رہے تھے ۔بادشاہ سلامت! خوش آمدید، بادشاہ سلامت خوش آمدید دراصل ملک کے بادشاہ کا اچانک انتقال ہو گیا تھا، اولاد اس کی تھی نہیں سو وزیروں مشیروں نے فیصلہ کیا تھا کہ شہر کے دروازے سے جو شخص سب سے پہلے شہر میں داخل ہو، اسی کو بادشاہ بنا لیا جائے، یوں نوجوان کو تخت شاہی پر بٹھا دیاگیا۔ تخت پر بیٹھتے ہی نوجوان نے اپنے ’’منشور‘‘ پر عمل کرنا شروع کر دیا ۔ہر وہ کام زیادہ بے رحمی و سنگدلی سے کیا جس کی وہ بادشاہ بننے کے بعد کرنے کی دعا کرتا رہا تھا۔ جب اسی طرح دو چار سال گزرے تو اہل دربار کو فکر لاحق ہوئی وہ سوچنے لگے کہ ان سے بہت بڑی بھول ہو گئی لیکن ادب کے مارے، وہ بادشاہ کو روک ٹوک نہیں کر سکتے تھے، ایک ہوشیار درباری نے آخر اس نوجوان کے بوڑھے استاد کو تلاش کرلیا، اس نے بوڑھے کو شہر بلوا لیا اور اسے کہا کہ تمہارا شاگرد رعایا پر بہت ظلم وستم کر رہا ہے اسے منع کرو، بوڑھے کو اس نوجوان کی دعا یاد آگئی اہل دربار کے کہنے پر وہ بادشاہ کے روبرو جا کھڑا ہوا اور بولا ’’ اے میرے شاگرد ! اگر خدا نے تجھے اس ملک کا بادشاہ بنا ہی دیا ہے تو رعایا پر ظلم کی روش ترک کر دے، رعایا پر رحم کر، ان کی دعائیں لے‘‘بادشاہ نے اپنے استاد کی نصیحت بہت تحمل سے سنی، ساری بات سننے کے بعد بولا’’ بابا جی ! ہم دونوں جنگل میں بیٹھ کر ایک ساتھ دعا مانگتے رہے آپ اللہ کے نیک آدمی ہیں آپ کی دعا بھی بہت اچھی تھی لیکن قبول نہ ہوئی ۔ مجھ گناہ گار کی دعا قبول ہو گئی۔ مجھے اپنے ’’منشور‘‘ پر عمل کرنے کا موقع مل گیا، اگر اللہ تعالیٰ اس ملک کے لوگوں سے خوش ہوتا تو آپ کو بادشاہ بناتا۔آپ کوقدرت کی منشا میں دخل نہیں دینا چاہئے ‘‘ ۔

بادشاہ کی یہ بات سن کر بوڑھا لاجواب ہو گیا ۔ اس نے بادشاہ سے اجازت لی اور جنگل کی طرف چلا گیا۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین