• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اسلام آباد کے قبرستانوں کا حسن انتظام اور زیبائش دیکھ کر مرنے کو دل کرتا ہے جبکہ لاہور کی گہما گہمی اور رونقیں دیکھ کر زندہ رہنے کو جی چاہتا ہے۔ برس ہا برس بیت گئے لاہور جاتا ہوں مگر اسلام آباد پلٹ آتا ہوں اس میں کشش ثقل کا کوئی عمل دخل نہیں بلکہ سادہ سا ایک قبیلہ ہے کہ ہر چیز اپنی اصل کو لوٹتی ہے۔چیف الیکشن کمیشن جسٹس ریٹائرڈ، فخر الدین جی ابراہیم بھی لوٹ گئے، ان کا مستعفی ہونا کوئی اچنبھے کی بات نہیں ہے بلکہ استعفیٰ ان کا پسندیدہ مشغلہ ہے۔ انہوں نے سپریم کورٹ کے جج، سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس، گورنر سندھ، اٹارنی جنرل اور وفاقی وزیر قانون کی حیثیت سے بھی استعفیٰ ہی دیا تھا۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ وہ اپوزیشن کی تنقید سے دل برداشتہ ہو کر میدان چھوڑ گئے تو یہ صحیح خیال نہیں ہے۔ فخر الدین جی ابراہیم نڈر اور حالات کا سامنا کرنے والے انسان ہیں وہ اگر گھبرا جانے والے ہوتے تو مولانا طاہر القادری کے لانگ مارچ کے وقت ہی خوفزدہ ہو کر مستعفی ہو جاتے۔ انہوں نے ہر مشکل کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور تمام سازشوں کو ناکام بنا کر مستعفی ہوئے۔ قوم نے انہیں جو ذمہ داری سونپی تھی وہ اس پر پورا اترے۔
پاکستان کے نئے عالی مرتبت جناب ممنون حسین قریشی ملک کے بارہویں صدر تو بن گئے مگر عالی مرتبت آصف زرداری صاحب کا عرصہ صدارت کی تکمیل تک ممنون حسین کی حیثیت کرکٹ کے بارہویں کھلاڑی جیسی رہے گی، ممنون حسین حلف برداری کے بعد آگرہ جانا چاہتے ہیں وہ اصل کو لوٹنا چاہتے ہیں بلکہ اپنی اصل دیکھنا چاہتے ہیں۔ یہ بالکل ویسے ہی بات ہے جس طرح ایاز محمود غزنوی کا مشیر خاص مقرر ہونے کے بعد کبھی کبھی پرانے ٹرنک سے اپنے بوسیدہ کپڑے نکال کر دیکھا کرتا اور خود کلامی کے انداز میں کہا کرتا تھا کہ ایاز تو کیا تھا اور کیا بن گیا ہے۔میرا اصل موضوع لاہور کا دورہ ہے جو میں نے گزشتہ ماہ20جولائی کو کیا تھا اس روز ہمارے محترم اور نعت کے ممتاز شاعر سید محمد خالد بخاری کے چالیسویں کی دعا تھی، جن کا ایک مشہور شعر ہے کہ
کوئی سلیقہ ہے آرزو کا نہ بندگی میری بندگی ہے
یہ سب تمہارا کرم ہے آقا کہ بات اب تک بنی ہوئی ہے
خالد بخاری صاحب کی یہ نعت جنرل ضیاء الحق کو بہت پسند تھی وہ اکثر ریڈیو پاکستان راولپنڈی کے جنرل منیجر منصور تابش سے مذکورہ نعت سنا کرتے تھے۔دعا کی اس روح پرور محفل میں سینئر صحافی جناب مجیب الرحمن شامی نے بھی خالد بخاری کی اسی نعت کو اپنے خراج تحسین کا موضوع بنایا تھا۔ شگفتہ ادب کے تخلیق کار اور دیگر قلمکار جن میں میرا شمار بھی ہوتا ہے۔ ہم سب اس بات پر فخر کرتے ہیں کہ ہم مشتاق احمد یوسفی کی مناسبت سے عہد یوسفی میں زندہ ہیں، لیکن ناموس رسالت کے حوالے سے دیکھا جائے تو ہمیں اس بات پر بھی فخر کرنا چاہئے کہ ہم جناب محمد متین خالد کے عہد میں زندہ ہیں ان جذبات کا اظہار میں نے اس روز سید خالد بخاری کی ایصال ثواب کی محفل میں بھی کیا تھا کیونکہ متین خالد صاحب وہاں اسٹیج پر تشریف فرما تھے، متین خالد صاحب دنیا بھر میں مجاہد ختم نبوت کے حوالے سے جانے جاتے ہیں وہ کم وبیش چھوٹی بڑی دو سو کتابوں کے مصنف ہیں۔ مجھے اس روز متین خالد صاحب کا مہمان ہونے کا شرف بھی حاصل رہا،20جولائی کا دن اس اعتبار سے بھی یادگا ر رہا کہ متین خالد صاحب نے اس روز مجھے غازی علم الدین شہید کے مزار پر حاضری کا موقع فراہم کیا وہ مجھے طاہر بندگی کے دوارے بھی لے گئے۔ مولانا احمد علی لاہور، مولانا انور احمد علی اور دیگر شیوخ کی زیارت بھی کرائی، آئی ایس پی کے کرنل زیڈ اے سلہری کی تربت پر فاتح پڑھی ۔ ممتاز مذہبی اسکالر اور کالم نگار جناب طاہر نقاش کے بیٹے کی تعزیت بھی ہوئی ۔سب سے دلآویز اور دل کی گہرائیوں تک تسکین پہنچانے والا دورہ داتا دربار کا تھا، حضرت داتا گنج بخش کی اسلام کے لئے تبلیغ روز روشن کی طرح عیاں ہے میں جب کبھی لاہور جاتا ہوں تو پہلی ملاقات حضرت علی ہجویری سے ہی ہوا کرتی ہے شاید میری ان سے برسوں کی دوستی تھی ایک میرے ساتھ اس روز جناب متین خالد کا وجود غنیمت تھا کہ پنجاب کے محکمہ اوقاف کا عملہ کمال محبت اور عقیدت سے ہمیں داتا دربار کے اندر لے گیا ۔سیدعلی ہجویری کے پہلو میں کھڑا کر کے پھولوں ،گلدستوں ،چادروں اور دیگر تبرکات کی اس قدر عنایات کر دی کہ ہمیں وہاں سے نیچے اترنا محال لگا، وہاں پر موجود دیگر زائرین ہمیں اس حوالے سے غور سے دیکھتے رہے کہ نہ ہم وزیر ،مشیر نہ سیاست دان، نہ کوئی اور خوبصورتی پھر آخر کیا شے ہے جو اتنا پروٹوکول اور توقیردی گئی۔ ہم خود بھی سجے سجائے دولہے کی طرح چلتے چلتے خود کو ہی دیکھتے رہے کہ آخر یہ سب کیا ہے کیا قبولیت کے یہی لمحات تھے جب ہم یہاں پہنچے لیکن پھر مجھے عالی مرتبت جناب ممنون حسین کا وہ جملہ یاد آ گیا جو انہوں نے21جون1999ء کو سندھ کا گورنر بن کے کہا تھا کہ عزت اور ذلت صرف اللہ کے اختیار میں ہے۔ہمارا آخری دورہ جس میں ممتاز قلمکار اور درجنوں کتابوں کے مصنف و مولف جناب علامہ عبدالستار عاصم تھے ۔ماڈل ٹاؤن کے علاقے میں گزشتہ چھبیس برسوں سے قائم مذہبی ادارے ”جامع رضویہ ٹرسٹ“ کا تھا۔ شیخ ڈاکٹر مفتی غلام سرور قادری صاحب نے اس کی بنیاد رکھی تھی۔”علی ہجویری لائبریری“ کے نام سے قائم دنیا بھر کے دینی کتب کے نایاب نسخوں کے اس حصے کا افتتاح میاں محمد نواز شریف نے23جنوری1992ء کو کیا تھا جب وہ وزیر اعظم تھے اس لائبریری پر اٹھنے والا سارا خرچہ بھی میاں نواز شریف نے ہی ادا کیا تھا بچوں کے میس اور اسپتال کے علاوہ شہباز ہال کا افتتاح 4/اپریل 1991ء کو میاں شہباز شریف صاحب نے کیا تھا جو ان دنوں ممبر قوی اسمبلی ہوا کرتے تھے اور ان کے سارے اخراجات بھی جناب شہباز نے ہی ادا کئے تھے۔
رضویہ ٹرسٹ کے بانی مفتی غلام سرور قادری آج ہم میں موجود نہیں، وہ 2010ء میں داغ مفارقت دے گئے تھے آج کل ان کا جانشین بیٹا مفتی وحید سرور قادری رضویہ ٹرسٹ کا انتظام سنبھالے ہوئے ہیں انہوں نے ہمیں بتایا کہ تقریباً 280 سے زائد طلباء کا قیام و طعام، علاج معالجہ اور دیگر ضروریات کے انتظامات و انصرام مفت کیا جاتا ہے۔ قاری وحید سرور قادری نے علی ہجویری لائبریری کے شعبوں کے بارے میں بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ قرآن، سیرت، تفسیر ،حدیث، فقہ ،طب ،اسلامی قوانین، عمرانیات ،دیگر مذاہب اور تاریخ اسلام کی16ہزار کتابیں لائبریری میں موجود ہیں، نایاب مخطوطے بھی ہیں انہوں نے مزید بتایا کو ایک بچے پر ماہانہ پندرہ سو روپے خرچ آتا ہے رضویہ ٹرسٹ کا سالانہ خرچ 55لاکھ سے زیادہ ہے۔ سچی بات ہے حکومت کے کرنے کے کام ہیں اور ضویہ ٹرسٹ جیسے فلاحی ادارے مخیر حضرات کے تعاون سے کر رہے ہیں۔
تازہ ترین