• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
عمران خان وہ خوش قسمت انسان ہے جسے پاکستانی قوم نے بڑی دیر اپنی بے پناہ محبتوں کا مرکز بنائے رکھا۔ وہ جب کھلاڑی تھا تو سب کے احساس کے قریب تھا۔ اس کا اعتماد جہاں ملکی وقار میں اضافے کا باعث بنتا تھا وہیں عوام میں حب الوطنی کے جذبے کو بیدار کرتے ہوئے ان کا مورال بلند کرتا تھا پھر وہ دفاعی کاموں کی طرف متوجہ ہوا تو اس کے ایک اعلان پر اس کی توقعات سے بڑھ کر حوصلہ افزائی ہوئی۔ وطنِ عزیز کے حکمران طبقے سمیت تمام خاص و عام نے دل کھول کر پذیرائی کی۔ عورتوں نے اپنے زیورات اور دیہاڑی دار مزدوروں نے دن بھر کی کمائی اس کی جھولی میں ڈال کر اس سے محبت اور اس کے مشن سے وابستگی کا اظہار کیا پھر وہ سیاست میں آیا، لوگوں نے اس کے سابقہ ریکارڈز کو سامنے رکھ کر اسے دل سے خوش آمدید کہا۔ میرے لئے عمران خان کی بطور سیاسی لیڈر پذیرائی اس حوالے سے خوش آئند تھی کہ میرے لوگوں نے اپنے مسائل اور ملک کے معاملات کے حل کے لئے کسی آمر کو آواز نہیں دی بلکہ وہ ایک سیاسی اور جمہوری سوچ رکھنے والے لیڈر کے گرد جمع ہوئے۔ گزشتہ کچھ برسوں میں وہ سیاسی طور پر اپنے آپ کو منوانے میں کامیاب بھی ہوا جس کا ثبوت حالیہ الیکشن میں اس کی پارٹی کی تیسری پوزیشن ہے اور کسی نئی جماعت کے لئے یہ پوزیشن کوئی عام بات نہیں مگر وہ سیاسی چالبازوں کی دلفریب اداؤں کا اسیر ہو کر رہ گیا۔ سابقہ الیکشن میں خواہ مخواہ کی بیان بازی سے اپنی شخصیت کا وقار مجروح کیا اور ایجی ٹیشن کی فضا پیدا کی جو کسی طور بھی مناسب نہیں تھی۔ توقع تھی الیکشن کے بعد یہ معاملات ختم ہو جائیں گے۔ ایسا ہوا بھی مگر کچھ وقفے سے دوبارہ ایسی دھاندلی کا راگ الاپا جا رہا ہے جس کی تحقیقات ممکن نہیں کیوں کہ اس طرح تو پورے ملک میں ہر ہارنے والا امیدوار مطالبہ کر سکتا ہے۔ موجودہ صورتحال میں الیکشن کمیشن اور عدلیہ کو تنقید کا نشانہ بنا کر صرف قوم کو مزید مایوسی کا شکار بنایا جا رہا ہے۔ حالانکہ یہ الیکشن کمیشن اسمبلی کے اندر اور باہر اپوزیشن کے مشورے سے تشکیل دیا گیا جب کہ ریٹرننگ افسروں کی تعیناتی خود عمران خان اور ان کی پارٹی کے مشورے اور درخواست سے عدلیہ کی طرف سے کی گئی۔ یہ ضرور ہے کہ مختلف مقامات پر بے ضابطگی کے معاملات سامنے آئے ہیں لیکن یہ کسی منصوبے یا سوچی سمجھی سازش کا نتیجہ نہیں نہ ہی اس میں سیاسی پارٹیاں اور حکومت ِ وقت ملوث تھی بلکہ یہ انفرادی اثر و رسوخ کے نتائج تھے اور اس کے فیوض سے فیضیاب ہونے والوں میں تمام پارٹیاں شامل ہیں۔ اس حوالے سے عمران خان صاحب انڈیا کی مثال دیتے ہیں۔ انڈیا میں مسلسل جمہوریت کا راج رہا ہے جب کہ ہمارے معاشرے میں ابھی تک جمہوری روایات پوری طرح راسخ نہیں ہو سکیں۔ عوام اور سیاست دانوں میں ان روایات کو جذب ہو کر عادت میں ڈھلنے کے لئے کچھ وقت درکار ہے۔ اگر جمہوریت کا سفر تسلسل سے جاری رہا تو اس طرح کے مسائل وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ازخود ختم ہوتے جائیں گے اور معاملات صحیح رُخ اختیار کر لیں گے۔ اس حوالے سے بھی سیاسی پارٹیوں کا کردار بہت اہم ہو گا۔ اس کا اچھا خاصا اندازہ تو خان صاحب کو یقینا اِنٹرا پارٹی الیکشن میں بھی ہو چکا ہے جس میں ان کے اپنے مقرر کردہ الیکشن کمیشن پر پارٹی نے بہت تنقید کی اور دھاندلی کی بے شمار شکایات منظرِ عام پر آئیں لیکن اس حوالے سے ابھی تک کوئی سدباب نہیں ہوا نہ ہی کوئی انکوائری کرائی گئی کیوں کہ ایسی انکوائریاں کوئی آسان کام نہیں ہوتا۔ اصلاحات کا آغاز اپنے گھر سے کرنا چاہئے۔ تمام پارٹیوں کو اپنے ورکرز اور عوام کو جمہوری روایات کی پاسداری پر قائل کرنا چاہئے۔
رہی بات حالیہ بے معنی تکرار کی تو عرض ہے بے شک آزادیٴ اظہار سب کا حق ہے مگر پاکستان جیسے ملک میں جہاں جمہوریت اور عدلیہ بڑی مشکل سے ٹریک پر رواں ہوئے ہیں۔ احتیاط برتنے کی شدید ضرورت ہے کیوں کہ اس طرح کے بیانات سے عدلیہ اور چیف جسٹس کی شخصیت متنازع ہونے کا خدشہ لاحق ہو سکتا ہے اور اس کا فائدہ صرف ایک طبقے کو پہنچنے کا احتمال ہے یعنی کرپٹ مافیا کو بچ نکلنے کا موقع ملتا ہے۔ عمران خود شفاف لیڈر ہے اور چیف جسٹس کے یہ الفاظ بھی تاریخی ہیں کہ عمران خان کے منہ سے نکلے ہوئے الفاظ معنی رکھتے ہیں اس لئے اسے عدالت بلایا گیا ہے۔ اب عمران خان کو سوچنا ہے کہ وہ لوگوں کی سوچ اور معیار پر پورا اترنے کی کوشش میں اپنی شخصیت کو ایک بڑے لیڈر کے طور پر مزید جاذبِ نظر بناتا ہے یا خود کو فیصل رضا عابدی سے موازنے کے مقام پر رکھتا ہے اور اس عدالت کے کردار کو تنقید کا نشانہ بنانا ہے جو اپنی کارکردگی اور عوام میں بہتر ساکھ کے حوالے سے کسی بھی سیاسی پارٹی سے زیادہ مقبول ہے۔ وہ عدلیہ جس نے کرپشن کے بڑے بڑے اسکینڈلز، جن میں پنجاب بینک، اسٹیل مل اور رینٹل پاور شامل ہیں، کو بے نقاب کر کے ملک کو اربوں روپے کے خسارے سے محفوظ رکھا۔ اسی عدلیہ نے حکومت کو توقیر صادق جیسے شخص کو واپس لانے پر مجبور کیا۔ وہ عدلیہ جس نے پچاس سے زیادہ جعلی ڈگری ہولڈرز کو نااہل قرار دے کر ملک و قوم کی قیادت سے نااہل لوگوں کو نکال باہر کیا۔ وہ عدلیہ جس نے تین ملین جعلی ووٹرز کا الیکٹرول لسٹ سے خاتمہ کر کے تاریخی کارنامہ سرانجام دیا اور اس کا اعتراف خود عمران خان بھی کر چکے ہیں۔ پاکستان کی سیاسی فضا میں عمران کی موجودگی ایک مثبت علامت ہے۔ ملک و قوم کو ان کے اخلاص کی ضرورت ہے۔ انہیں سوچنا ہو گا کہ وہ سابق کرپشن چھپاؤ پالیسی کا شکار ہوتے ہوئے چیف جسٹس اور کرپٹ مافیا کے درمیان ڈھال کا کردار ادا کرنا چاہتے ہیں یا ایک دانشمند لیڈر کی طرح سیاسی اور جمہوری طرزِ فکر کو پروان چڑھاتے ہوئے اپنا امیج بناتے ہیں۔ سوری ایک چھوٹا سا لفظ ہے جس کی ادائیگی نہ صرف انہیں اعلیٰ ظرف بنائے گی بلکہ معاشرے میں برداشت اور رواداری کی قدروں کو فروغ دے گی ورنہ لوگ اپنی انا اور خود داری کی نمائش میں اداروں سے ٹکرانے کو ترجیح دینے لگیں گے۔
تازہ ترین