• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جنہیں خود اپنے اور اپنی اولادوں کے ساتھ کوئی ہمدردی نہیں، ان کے دکھوں پر کڑھنا، ان کی محرومیوں پر گھلنا پرلے درجہ کی حماقت اور جہالت ہے لیکن کیا کروں کہ انسان اپنی افتاد طبع کا بے بس قیدی ہوتا ہے اور قیدی بھی ایسا جسے عمر قید کی سزا سنا دی گئی ہو۔ میں عمر قید کی یہ سزا حوصلے سے کاٹ رہا ہوں۔
بچپن سے اس بڑھاپے تک میری زندگی میں 1970ء تا 1980ء اور صرف 10 سال بہت سخت اور مشکل تھے۔ ان 10 سالوں نے محرومی اور تنگی کیساتھ میرا ایسا اٹوٹ رشتہ قائم کر دیا جو پوری خواہش اور کوشش کے باوجود مجھ سے ٹوٹ نہیں سکا۔ 42 سال پہلے مجھے ہاسٹل میں 300 روپیہ ماہانہ ملتا تھا۔ صحافت میں پہلی تنخواہ 350 روپے ماہانہ مقرر ہوئی جو ان دنوں بہت مناسب تھی لیکن ”ہنڈ ٹو ماؤتھ“ والی بات تھی جس کا میں عادی نہیں تھا۔ پھر جنرل ضیاء الحق کی آمریت کے بعد تو زندگی باقاعدہ عذاب بن گئی، کیونکہ میں ”جیالا“ تھا۔ حالات ”ہینڈ ٹو ماؤتھ“ سے بھی آگے نکل گئے کہ جیل سے واپس آیا تو کینال پارک گلبرگ کے فلیٹ اور مین مارکیٹ میں بند اور برباد دفتر کے کرائے میرے منتظر اور جیب خالی تھی تب بھی مجیب الرحمن شامی نے میرا ون ون ٹو ٹو (1122) بننے کی بھرپور کوشش کی۔
پھر عزیز از جان دوست اور پنجاب یونیورسٹی کے سابق صدر حفیظ خان نے زبردستی مجھے سعودی عرب بلوا لیا کہ جب ہم دونوں میرے والد کی گاڑی میں نیو کیمپس ہاسٹل نمبر 1 میں ڈراپ ہوئے تو ابا جی نے نجانے کس ترنگ میں حفیظ خان کو میرا خیال رکھنے کی فرمائش کی۔ سو بچپن کا یہ دوست عملی زندگی میں بھی میرا بڑا بھائی اور گارڈین بن گیا اور کبھی اس رشتے میں جھول نہیں آنے دیا۔ قصہ مختصر میں 80ء میں سعودی عرب پہنچ گیا اور پھر 30، 31 سال کی عمر میں اس مارشل لائی ”بے روز گار قلمکار“ نے 212 ایس بلاک ماڈل ٹاؤن ایکسٹیشن میں اپنا پہلا گھر تعمیر کیا اور پھر کبھی کم از کم مالی حوالوں سے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا، لیکن زندگی ہمیشہ ہمیشہ کیلئے ابنارمل اور برباد ہو گئی۔ مجھے 70ء تا 80ء تک کی تنگی، ترشی، محرومی، ناآسودگی ہمیشہ ہانٹ بھی کرتی ہے اور بری طرح Hurt بھی کرتی ہے۔ یہ منحوس حکمران بجلی کایونٹ سو روپے کا بھی کر دیں، مٹن ہزار روپیہ کلو بھی ہو جائے تو میری ذاتی صحت پر کوئی فرق نہیں پڑتا لیکن میں مہنگائی کے ہر ریلے پر زخمی ہوتا اور مرتا ہوں۔ بیروز گاری اور مہنگائی کے ملاپ سے جنم لینے والا عفریت مجھے اپنی شہ رگ سے خون چوستا محسوس ہوتا ہے۔ مجھے 70ء تا 80ء کا وہ حسن نثار کبھی نہیں بھولتا جو سر ڈھانپتا تو پاؤں ننگے اور پاؤں ڈھانپتا تو سر ننگا… مجھے ہر وہ باپ یاد آتا ہے جو اپنے معصوم بچوں کی بنیادی ترین ضرورتیں پوری کرتے ہوئے بھی ہزار بار سوچتا ہے، کئی سال پہلے اسی صورتحال کی سولی پر ٹنگے ہوئے میں نے لکھا تھا:
عمر بھر یوں قرار میں رہنا
بے حسی کے حصار میں رہنا
لیکن میں عملاً یہ رویہ اپنا نہیں سکا اور اب تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ عزت، شہرت، دولت سب بکواس ہے۔ قدرت کی اصل عطا ”بے غیرتی“ اور ”بے حسی“ ہے۔ بے حسی، بے شرمی اور بے غیرتی ہی اس کوٹھے پر سب سے بڑا زیور ہیں ورنہ جماندرو بھوکے اور حالیہ پیٹ بھرے تو بولتے ہی نہیں۔
بجلی عیاشی نہیں… آکسیجن، خوراک اور پانی کے بعد سب سے اہم اور بنیادی ضرورت ہے لیکن اسے سکھا شاہی کے انداز میں ڈیل کیا جا رہا ہے۔ 200 یونٹ کی اوقات ہی کیا تو باقی سب کیا اس ملک کے دشمن ہیں؟ ظالمو! روشن پاکستان کے پرچار کو! انڈسٹریل صارفین کے ٹیرف میں تقریباً سو فیصد اضافے کے بعد بھی تم اصل میں تو عوام کو ہی مار رہے ہو کیونکہ صنعت کار تو یہ ”سرکاری بھتہ“ عوام کو ہی پاس اون کرے گا، صنعت کار کا کیا کہ وہ تو اسی حساب بلکہ اس سے بھی زیادہ اپنی مصنوعات کے نرخ بڑھا دے گا جو 200 یونٹ والے کو بھی برباد کرے گا، کس کو دھوکہ دے رہے ہو؟
سکھا شاہی سیریز کا دوسرا ایپی سوڈ یہ ہے کہ پرائیویٹ ہاوئزنگ سوسائٹیز کو ”کمرشل“ سمجھتے ہوئے بجلی کا ہر یونٹ تقریباً 5:30 روپے زیادہ مہنگا پڑے گا جبکہ ایل ڈی اے ٹائپ سرکاری سکیمیں اس سے مستثنیٰ ہوں گی… تو کیا یہ ظلم عظیم نہیں؟ پاکستان کو پاکستان کے سب سے بڑے صوبہ کے سب سے اہم شہر اور صوبائی دارالحکومت میں محلہ محلہ، قریہ قریہ تقسیم کرنے والے وژن سے عاری لوگو! سوچو تم کیا کر رہے ہو اور اس کا انجام کیا ہو گا؟
کیا خلفائے راشدین کے حوالے دینے والے یہ لوگ نہیں جانتے کہ حضرت عمر بن خطاب نے بازار سے گزرتے ہوئے کسی شخص کی ریڑھی پر کھجوروں کے تین ڈھیر دیکھ کر اس کی وجہ پوچھی تو دکاندار نے بتایا… ”ایک ڈھیڑی کھجور درجہ اول، دوسری درجہ دوم اور تیسری درجہ سوم“ تو خطاب کے عالیشان فرزند عمر نے ساری ڈھیریاں آپس میں مکس کرتے ہوئے فرمایا:
”تمہاری جرأت کیسے ہوئی کہ عمر کی زندگی میں رسول اللہﷺ کی امت کو تین طبقوں میں تقسیم کر سکو، انہیں ملا کر ان کی کوئی اوسط قیمت مقرر کرو“۔ (مفہوم)
آج عالم اسلام کے حکمران ہر حوالہ سے بہت حقیر ہیں، ان میں سے کوئی خلفائے راشدین کے قدموں کی دھول کی دھول کی دھول بھی نہیں لیکن ایسی بے شرمی و بے حیائی کہ سرکاری و غیر سیاسی ہاؤزنگ سکیموں کیلئے علیحدہ علیحدہ ٹیرف… پرائیویٹ ہاؤزنگ سکیموں نے عوام کو بہت لوٹا لیکن ہاؤزنگ سیکٹر میں کچھ نہ کچھ کونٹری بیوٹ تو کیا… بے حیا حکومتیں کیا کرتی رہیں کہ اگر یہ حکومتیں بڑھتی آبادی کی ہاؤزنگ ضروریات کو میچ کرتیں تو یہ نوبت ہی نہ آتی۔
پنجاب کب سے ذلیل ہو رہا ہے اور خاموش ہے لیکن کب تک؟ پنجاب پر ڈھائے جانے والے صدیوں پرانے مظالم کی داستان ان شاء اللہ اگلے کالم میں، کیا بیرونی و اندرونی مظالم ہی پنجاب کا مقدر ہیں؟ پنجابیوں کو اٹھنا ہو گا، احتجاج تو کرو، آواز تو اٹھاؤ کہ کہیں اپنے مار رہے ہیں کہیں اپنوں کے بھیس میں غیر مار رہے ہیں اور کہیں دشمن مار رہے ہیں، قتل عام کے علاوہ دشنام تو معمول کی بات ہے تو کیا ہم پنجابیوں نے صدیوں سے مار کھانے اور مارنے والوں کو سروں پر بٹھانے کا ٹھیکہ لے رکھا ہے؟
تازہ ترین