• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آپ کو ایک عجیب و غریب اصول بتا رہا ہوں۔ یہ اصول زندگی کے ہر معاملے اور ہر مرحلے پر صادق آتا ہے۔ اصول یہ ہے کہ پانی کے بہاؤ کے قدرتی راستے بند کر دیئے جائیں تو پانی بے قابو ہو کر تباہی مچانے لگتا ہے۔کچھ بہت زیادہ غور کرنے کی ضرورت نہیں۔ گھر کا نظام چلانے سے لے کر ملک کا نظام چلانے تک ، جہاں آپ نے نکاس کے رستے روکے، بہتے پانی نے وہیں انتقام کا تھپّڑ رسید کیا۔ انسان ہر ایک سے جیت سکتا ہے، قدرت سے نہیں۔ امریکہ جیسا ملک جو خود کو خدا سمجھتا ہے، جب آندھی، طوفان اور سیلاب کی زد میں آتا ہے تو زد میں نہیں آتا ، ٹھوکروں میں روندا جاتا ہے۔ ساری تدبیریں اور تمام ایجادیں دھری کی دھری رہ جاتی ہیں اور بے بس انسان بیٹھا دیکھا کرتا ہے۔کراچی شہر کو میں نے پہلے پہل تریسٹھ سال قبل دیکھا تھا۔ سیدھا سادہ ، قرینے سے بنا، سلیقے سے آراستہ شہر ہوا کرتا تھا۔ شہر میں بڑے بڑے کشادہ نالے نظر آتے تھے جو عام دنوں میں نکاسی کا کام کرتے تھے اور بارشوں میں وہی برساتی نالے بن جاتے تھے۔ انہی دنوں ہمیں جغرافیئے کی جو کتاب پڑھائی جاتی تھی اس میں کراچی میں بارش کا سالانہ اوسط آٹھ انچ لکھا تھا۔اتنی بارش بھی کہیں گورا قبرستان سے آگے ویرانوں میں برستی ہوگی کیونکہ ہمیں تو جب بھی نظر آیا، چھینٹا پڑتا ہی نظر آیا۔ کبھی بوندا باندی زور پکڑ لیتی تو غریب غربا کی چاند ی ہوجاتی ۔ وہ پانی میں پھنسنے والی گاڑیوں کو دھکا لگا کر دو چار روپے کما لیتے تھے۔ اسی طرح سائیکل رکشہ والے بھی دو کے بجائے تین روپے کا مطالبہ کرنے لگتے تھے۔ لیاری ندی پر پل نہیں تھا اور نئے نئے آباد ہونیوالے لالو کھیت تک لوگ پائنچے چڑھا کر چلے جاتے تھے۔ نہ کوئی چھت گرتی تھی اور نہ کرنٹ لگنے سے کوئی مرتا تھا۔ ایک دو مرتبہ ایسا ہوا کہ بارش نے شدت اختیار کی تو لوگوں نے کھلے آسمان کے نیچے اذانیں دیں۔ اذانیں تو اس وقت بھی دی جاتی تھیں جب کئی کئی مہینے گزر جاتے اور کراچی کی زمین پر اوپر سے ایک قطرہ بھی نہیں گرتا تھا۔ بندر روڈ کے کنارے لگے گولر جیسے درختوں کے بڑے بڑے پتّے خاک میں اٹ جاتے تھے اور مہینوں بعد مینہ برستا تو غریب پتے نکھر جاتے تھے۔
کبھی رات کو تیز بارش ہو جاتی تو جہاں اب اردو بازار ہے ، اس کے نیچے چھپا ہوا نالہ صاف ستھرا اور کھلا ہوا تھا جس میں بپھرتا ہوا پانی دیکھنے کے لئے مجمع لگ جاتا تھا۔ یہ پانی ہم لوگوں کی نگاہوں کے سامنے بہتا چلا جاتا اور ہر طرح کی کثافت ساتھ لئے خدا جانے کہاں چلا جاتا تھا۔ اس میں سارا کمال کراچی کو بسانے والے انگریزوں، پارسیوں اور ہندوؤں کا تھا۔ انہوں نے پانی کے بہاؤ کے تمام قدرتی راستوں کا احترام کیا تھا، بارش کی گزرگاہوں پر عمارتیں نہیں بنائی تھیں اور نکاس کا باقاعدہ اہتمام کیا تھا اور ذرا سوچئے کس شہر میں؟ جہاں بارش کا سالانہ اوسط محض آٹھ انچ تھا۔
شہری منصوبہ بندی کے اپنی الگ سائنس ہے۔ اس کے لئے بڑی مہارت کی ضرورت ہے۔ جو کراچی ہم نے دیکھا تھا اس میں ایک جانب بے شمار فوجی بیرکیں تھیں جو جیکب لائن، جٹ لینڈ لائن اور ایبی سینیا لائن جیسے ناموں سے مشہور تھیں اور تقسیم کے بعد ہندوستان سے آنے والوں کے قافلوں کو انہی بیرکوں میں سر چھپانے کو جگہ ملی تھی۔ ان قطار درقطار بیرکوں کے درمیان نکاسیٴ آب کا پورا پورا اہتمام تھااور چونکہ جگہ جگہ ڈھلانیں تھیں، پانی اپنے قدرتی راستوں سے ہوتا ہوا نشیب میں چلا جاتا تھا جہاں برساتی نالے پہلے ہی تعمیر ہو چکے تھے۔دوسرا کراچی و ہ تھا جو پارسیوں اور ہندوؤں نے بسایا تھا، اس میں ایک جانب پارسی کالونی اور عامل کالونی جیسے علاقے تھے جن کے بنگلے اور کوٹھیاں دیکھ کر ہم کوارٹروں میں رہنے والوں کو رشک آتا تھا۔ گرو مندر سے جیل تک جانے والی جمشید روڈ اور نیو ٹاؤن کی شاندار آبادیوں میں جگہ جگہ نالے بنائے گئے تھے جن کی ایک خوبی کا احساس ہمیں اب ہوتا ہے کہ وہ سارے کے سارے عام لوگوں کی نگاہوں سے اوجھل تھے اور اس طرح تعمیر کئے گئے تھے کہ علاقے کے حسن کو داغ دار نہ کریں۔ان کے اوپر بنے ہوئے پُل آج بھی موجود ہوں گے، ان کی تعمیر میں بھی نفاست کا خیال رکھا گیا تھا۔ گرومندر پر ہمارا اسلامیہ کالج تھا جس کے پچھواڑے بہت بڑا نالہ تھا لیکن کیا مجال کہ کبھی کلاس روم میں بدبو آئی ہو یا نالہ ابلا ہو تو اس کا پانی کالج کے احاطے میں داخل ہوا ہو۔ چونکہ یہ نالے قدرتی گزرگاہوں کی مناسبت سے بنائے گئے تھے اس لئے کبھی یہ سوچا بھی نہیں کہ ان سے گزرنے والا پانی جاتا کہاں ہے۔ ظاہر ہے کہ پانی نشیب ہی میں مرتا ہے۔
شہری منصوبہ بندیاں تو خیر اب نصیبِ دشمناں ہوئیں۔ شہر ہے کہ بنتا چلا جارہا ہے اورکیسی تعمیر ہے کہ اس میں ہر قدم پر تخریب کی صورت ہے۔ نالے پاٹ دیئے گئے ہیں، زمین کی ہوس نے زمین کی روح کو مجروح کردیا ہے۔ ہم نے بڑے بڑے نالے کچرے سے اٹے ہوئے دیکھے ہیں جہاں شہر بھر کے جمعدار اور پیٹ بھرے لوگ اپنا بوجھ ہلکا کرتے ہیں۔ ایک چھینٹا پڑتے ہی ہمارے وقتوں میں بجلی چلی جاتی تھی اور ٹیلی فون کو چپ لگ جاتی تھی۔ بجلی کا تو اب یہ حساب ہے کہ چھینٹا پڑے یا نہ پڑے ، اچانک چلا جانا اس کے فرائض منصبی میں شامل ہے۔ ٹیلی فون اب کھمبوں اور تاروں کا محتاج نہیں، کام کئے جاتا ہے اور بقول شخصے لوگ چار چار گھنٹے بات کرتے ہیں۔ سچ ہے ، آفت اور عشق گھڑی نہیں دیکھاکرتے۔ آج کے لوگ شاید نہ مانیں لیکن پرانے کراچی میں چاکیواڑہ اور لی مارکیٹ جیسے علاقوں میں صفائی کا اور پانی کے نکاس کا کوشش کر کے انتظام کیا گیا تھا۔ لی مارکیٹ میں اندرونِ ملک سے تجارتی قافلے آتے تھے جن میں اونٹ اور مویشی کثرت سے ہوتے تھے۔ہم نے کبھی نہیں سنا کہ پہلی ہی بارش میں کھارادر ڈوب گیا اور میٹھادر اور لیاری زیر آب آگئے، آتے ہوں گے لیکن اس شدت سے نہیں۔ کراچی اس معاملے میں بدنصیب شہر ہے۔ ایک تو اسے بے ترتیبی سے بسایا گیا ہے، جس کے جہاں سینگ سمائے وہیں عمارت اٹھا دی۔ اب شہر خشک رہے یا ڈوبے ، اس کی بلا سے۔ یوں سمجھئے کہ کبھی رات کے دوران ہوائی جہاز میں سفر کیجئے تو شہروں میں نظر آنے والی روشنیاں دیکھئے جس سے شہر کی ترتیب یا بے ترتیبی کی احساس ہوتا ہے۔ دنیا کے اکثر شہروں میں روشنیاں ترتیب سے اور سلیقے سے نظر آتی ہیں۔ کراچی میں بالکل آسمان کے منتشر ستاروں کا منظر ہوتا ہے۔کسی زمانے میں جو سیدھی سیدھی سڑکیں بنی تھیں، وہ تو آج تک سیدھی ہیں، باقی کا یہ عالم ہے کہ مدت سے آرزو ہے کہ سیدھا کرے کوئی۔ کراچی کے علاقے ناظم آباد کے بلاک نمبر چار سے واقف لوگ جانتے ہوں گے کہ اس کی تمام سڑکیں گول ہیں، دائرے کے باہر دائرہ اور پھر مزید دائرہ۔ کہتے ہیں کہ اس علاقے کے ٹاؤن پلانر جب علاقے کا نقشہ بنارہے تھے انہیں ایک سو چار بخار تھا، نقشہ بناتے جاتے تھے اور کہتے جاتے تھے کہ اس علاقے کاحسن کبھی ہوائی جہاز میں بیٹھ کر دیکھنا۔ ہم نے وہ حسن برسہا برس ان بھول بھلیوں کے چکر کاٹ کر ہی دیکھا۔ وہ زمانہ تھا جب علاقے کے زیادہ پلاٹ خالی پڑے تھے اور اناج اور بھوسے سے لدے اونٹ اندرون سندھ سے آتے ہوئے انہی پلاٹوں پر پگ ڈنڈیاں بناتے ہوئے لی مارکیٹ جایا کرتے تھے تو رات کے سناٹے میں ان کی گھنٹیاں بجا کرتی تھیں اور کبھی کبھار کوئی سندھی شتربان اونچی لے میں گاتاہوا گزرتا تھا تو جی چاہتا تھا کہ اس کا اونٹ کچھ دیر کے لئے وہیں ٹھہرا رہے مگر پھر یہ سوچ کر رہ جاتے تھے کہ اونٹ رُک گئے تھے تو الف لیلہ کے قافلوں جیسی ان کے پیروں اورگَلوں میں پڑی گھنٹیاں بھی تو رک جائیں گی۔کیسا وقت آن لگا ہے کہ کانوں کو بھلی لگنے والی آوازوں کے قافلے تو کبھی کے جاچکے۔اب ہمارے علاقوں سے دھماکوں کے قافلے گزر رہے ہیں۔
تازہ ترین