• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اس روز آسمان پر گہرے بادل چھائے ہوئے تھے۔ لاہور ایئرپورٹ کے لاؤنج میں خاتون اناؤنسر کی آواز سنائی دی ”اسلام آباد کی فلائٹ لاہور پہنچ گئی ہے۔“
”واقعی پہنچ گئی؟“ میرے دوست نے چہرے پر حیرانی بکھیرتے ہوئے ہنس کر کہا۔ پھر اس نے مجھے مخاطب کیا ا ور کہا ”ذرا اِن پی آئی اے والوں کو دیکھو ان کے لئے فلائٹ کا اسلام آباد سے لاہور بخیریت پہنچ جانا باقاعدہ ایک خبر ہے جسے وہ پورے اہتمام کے ساتھ لاؤڈ سپیکر سے نشر کرتے ہیں۔“
اس ستم ظریف کو ابھی اس ”خبر“ پر مزید تبصرہ آرائی کرنا تھی مگر دریں اثناء لاہورسے اسلام آباد جانے والی فلائٹ بھی ”اناؤنس“ ہوگئی چنانچہ ہم دوڑ کر ننھے منے سے ”اے ٹی آر“ میں جا بیٹھے۔ ہلکی ہلکی بارش شروع ہوگئی تھی اور جہاز تک پہنچتے پہنچتے ہمارے کپڑے بھیگ گئے۔
تھوڑی دیر کے بعد یہ ”معصوم“ سا جہاز فضا میں تھا۔ میں نے کھڑکی میں سے نیچے جھانکنے کی کوشش کی مگر نیچے دھند تھی اور گہرے بادل تھے۔ زمین بھی آسمان لگ رہی تھی۔ ہم دو آسمانو ں کے درمیان پرواز کررہے تھے۔
”ہم ایک ہی آسمان سے شکوہ کناں رہتے ہیں، آج دو ہوگئے ہیں۔“ میں نے اپنے دوست کو مخاطب کرکے کہا۔ اس کی نظریں بھی کھڑکی کی جانب تھیں۔
”نبڑ لاں گے“ اس نے ہنستے ہوئے کہا ”مگر تم اس اے ٹی آر صاحب کا حلیہ ملاحظہ کر رہے ہو؟“
”ہاں! وہ تو میں دیکھ رہا ہوں۔“ میں نے اپنے اردگرد ایک نظر ڈالتے ہوئے کہا! ” اے ٹی آر تو مجھے ویسے بھی جہاز نہیں لگتا بلکہ لگتا ہے جیسے جہاز کے بچے نکلوائے ہوئے ہوں۔“
میرے دوست نے حفاظتی پیٹی کھول لی تھی اور اب ٹانگیں پسارنے کی کوشش کر رہا تھا اور اس کوشش کے دوران اس کے گھٹنے بار بار اگلی سیٹ سے جا ٹکراتے تھے۔
”اس مسافر کو دیکھ رہے ہو؟“ میرے دوست نے بائیں جانب کی ایک نشست پر براجمان ایک خوفنناک سی شکل و صورت کے نوجوان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ ”یہ مجھے ہائی جیکر لگتا ہے۔ تھوڑی دیر بعد یہ اُٹھ کر کاک پٹ کی طرف جائے گا اورپائلٹ کو طیارے کا رخ انڈیا کی طرف موڑنے کو کہے گا۔ آہا! میں نے ابھی تک انڈیا نہیں دیکھا۔“
یہ فقرہ مکمل کرکے ابھی وہ روٹین کا قہقہہ لگانے ہی کو تھا کہ جہاز ایک جھٹکے سے یکدم نیچے کو ہوگیا۔ بالکل اسی طرح جیسے کسی بات پر بیٹھے بیٹھے دل ڈوب سا جاتا ہے اور پھر وہ مسلسل ڈوبنے لگا۔ یوں لگتا تھا جیسے کوئی رکشہ ٹوٹے ٹبوں والی سڑک پر چل رہا ہو۔
”تم بھی اپنی حفاظتی پیٹی باندھ لو۔“ میرے ہنسوڑے دوست نے دوبارہ اپنی حفاظتی پیٹی باندھتے ہوے سنجیدگی سے کہا۔اس کی ہنسی غائب ہوگئی تھی اور اس کے ہونٹ ہولے ہولے ہل رہے تھے، غالباً وہ کلمہ طیبہ کا وِرد کر رہا تھا۔”ایسے موسم میں ایئر پاکٹس زیادہ ہوتی ہیں مگر اس میں گھبرانے کی کوئی بات نہیں۔“ میں نے اسے تسلی دینے کی کوشش کی جبکہ جہازکے دیگر مسافروں کی طرح خوف کے مارے میری زبان بھی تالو سے چپک کر رہ گئی تھی۔
میں نے حفاظتی پیٹی باندھ لی اور اب اپنا دھیان بٹانے کے لئے یونہی اردگرد نظر دوڑا رہا تھا۔
”دراصل بات یہ ہے کہ…“
میرے دوست کا فقرہ نامکمل رہ گیا۔کیونکہ جہاز ایک بار پھر پورے شدومد کے ساتھ ہچکولے کھانے لگا تھا۔ دوست نے اپنا دھیان دوسری طرف مبذول کرنے کیلئے اپنے دونوں ہاتھوں میں اخبار تھام لیا اور اپنے ہونٹ مضبوطی سے سکیڑ لئے۔
اب جہاز متواتر جھٹکوں کی زد میں تھا۔
میری اپنی حالت غیر ہو رہی تھی۔ جہاز کے دیگر مسافر بھی شدید خوفزدہ نظر آ رہے تھے مگر وہ جو کہاجاتا ہے کہ سکاؤٹ خطرے میں مسکراتا ہے اور سیٹی بجاتا ہے، سو میں نے خطرہ سامنے پا کرمسکرانے کی کوشش کی اور سیٹی بجانے کی کوشش کی!
میں غالباً ان میں سے اول الذکر کوشش میں کامیاب ہوسکا، کیونکہ میرے سہمے ہوئے دوست نے خشمگیں نظروں سے میری طرف دیکھا اور جھلا کر کہا: ”یہ دانت کیوں نکال رہے ہو؟“
”میں خود دانت نہیں نکالوں گا تو تھوڑی د یر بعد ویسے ہی نکل جائیں گے لہٰذا بہتر یہی ہے کہ اپنے دانت آپ نکالے جائیں۔ تم بھی کوشش کرو۔“
غالباً میری بات میرے دوست کی سمجھ میں آگئی تھی کیونکہ تھوڑی دیر بعد وہ مسکرانے کی منزل طے کرکے قہقہے لگانے کی حدود میں داخل ہو گیا تھا۔
جہاز نے ایک بار پھر غوطہ کھایا۔
”یار ذرا کھڑکی سے دیکھنا کہ مقام فوتیدگی کون سا ہے؟ کہیں سبزہ ٴ نورستہ بھی ہے یا نہیں؟ اور ذرا یہ بھی پتہ کرو کہ لحد پر شبنم افشانی وغیرہ کا بندوبست کیا ہے؟“
میرے دوست کا چہرہ خوف سے متغیر تھا مگر وہ ہنستا جارہا تھا۔
وہ دو روز قبل ٹریفک کے ایک حادثے کا شکار ہوا تھا اور اس کی پیشانی پر چوٹوں کے خاصے واضح نشان تھے۔ وہ انہیں ہاتھ لگا لگا کر دیکھ رہا تھا۔
”یہ سب معلوم کرنے کاکوئی فائدہ نہیں۔“ میں نے قہقہہ لگاتے ہوئے کہا ”تمہارے بارے میں تو امدادی کام کرنے والوں میں یہ کنفیوژن پیدا ہوجائے گا کہ اس کی پرانی چوٹیں کون سی ہیں اور نئی کون سی ہیں؟“
اس پر میرے دوست نے بھرپور قہقہہ لگایا اور اس اثناء میں، میں نے محسوس کیا کہ دوسرے مسافروں کو ہمارے یہ قہقہے زہر لگ رہے تھے، کیونکہ بہت سی آنکھیں کھا جانے والی نظروں سے ہمیں دیکھ رہی تھیں مگر پھر یہ آنکھیں خودبخود بند ہوگئیں اور ہونٹ ہلنا شروع ہوگئے۔ کیونکہ جہاز ایک بار پھر ہچکولوں کی زد میں تھا۔
”میں تمہیں ایک بات بتاؤں؟“ میں نے اپنے دوست کو مخاطب کیا ”میں نے احتیاطاً کلمہ طیبہ کا ورد کر لیا ہے کہ اللہ جانے موقع پر اس کا موقع ملے نہ ملے۔“
جواب میں میرے دوست نے مسکرانے کی کوشش کی مگر اس کی یہ مسکراہٹ اس کے ہونٹوں کی دہلیز پار نہ کرسکی، مجھے صرف اس کے لب ہلتے ہوئے محسوس ہوئے۔
باہر وہی دو آسمان تھے۔ ایک نیچے اور ایک اوپر اورہمارا اے ٹی آر پھدکتا ہوا ان کے درمیان میں سے گزر رہا تھا۔
دریں اثنا اناؤنسمنٹ بوتھ میں سے ایئرہوسٹس نے اعلان کیا ”خواتین و حضرات! ہم تھوڑی دیر بعد اسلام آباد ایئرپورٹ پر لینڈ کریں گے۔ ہمیں امید ہے کہ آپ کا سفر بہت خوشگوار گزرا ہوگا۔“
اس بار ہم دونوں کا قہقہہ خاصا بلند تھا اور اس قہقہے میں غالباً منزل مقصود تک پہنچنے کے اعلان کی مسرت بھی شامل تھی۔
ایئرپورٹ پر موسلادھار بارش ہو رہی تھی۔ جہاز کی سیڑھیاں اترنے کے بعد سطح زمین پر قدم رکھتے ہوئے میں نے ایک طویل سانس لیا اور پھراپنے دوست کے کاندھوں پر ہاتھ رکھ کر کہا :”تم جانتے ہو جہاز کے باقی مسافر کتنے سہمے ہوئے تھے اور اس کے برعکس ہم دونوں کتنے بہادر لگ رہے تھے؟ اس لئے کہ وہ ہم تھے جواندر سے سب سے زیادہ خوفزدہ تھے۔ سب سے زیادہ خوفزدہ آدمی خود کو سب سے زیادہ بہادر ثابت کرنے کی کوشش میں لگا رہتاہے!“
عیدمبارک
قارئین کو میری طرف سے دلی عید مبارک!
تازہ ترین