• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(گزشتہ سے پیوستہ)

مہنگائی کے دباؤ کی ایک اور وجہ گیس اور بجلی کے نرخوں میں کیا گیا ردوبدل تھا۔ ریگولیٹرز ٹیرف کے ڈھانچے کا تعین کرنے کیلئے محصول کی ضروریات، واپسی کی ضمانت شدہ شرحوں اور دیگر عوامل کا فارمولہ استعمال کرتے ہیں۔ بہت سے ممالک میں قیمتوں کو ڈی ریگولیٹ کیا جاتا ہے اور مارکیٹ کے تعامل کے ذریعے طے کیا جاتا ہے۔ ریگولیٹر کا کام صارفین کی حفاظت کرنا اور اس بات کو یقینی بنانا ہے چوربازاری، ذخیرہ اندوزی اور شیئرز کے ارتکاز کے ذریعے صارفین کی جیب نہ کاٹی جاسکے۔ پاکستان میں بینکنگ اور ٹیلی کام سیکٹر کے ریگولیٹرز بینکنگ مصنوعات یا ٹیلی کام خدمات کی قیمتوں کا تعین نہیں کرتے حالانکہ دونوں سیکٹروں میں نجی شعبہ غالب ہے۔توانائی کے شعبے میں ریاستی ملکیت میں چلنے والے اداروں میں بدانتظامی پائی جاتی ہے۔ ان میںتکنیکی اور انتظامی مہارت کا فقدان ہے ، اور ان پر مفادپرست ٹولے کی اجارہ داری ہے ۔ یہ کمزور فعالیت ، ناقص بندوبست، لیکیج، وسائل کا زیاں اور بدعنوانی کی روک تھام سے قاصر ہیں ۔ اس کی وجہ سے حکومت کی طرف سے ملنے والی امدادی قیمت کا فائدہ صارفین تک نہیں پہنچ پاتا۔

معیشت پر افراطِ زر کے دباؤ کو کم کرنے کے ممکنہ اقدامات کیا ہوسکتے ہیں؟ ان میں سے کوئی بھی فوری یا قلیل مدت حل دست یاب نہیں۔ لیکن اس کے لئے مستقل مزاجی اور صبر آزما طریقے سے درمیانے یا طویل المدت نتائج کے لئے کام کرنا ہوگا۔ یہ بات بالکل قابل فہم ہے کہ سیاسی مجبوریوں کی وجہ سے قلیل المدت مسائل پر توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہوتی ہے لیکن اس کا منفی پہلو یہ ہے کہ ضروری طویل المدت پالیسی فیصلوں کو نظر انداز کردیا جاتا ہے۔اہم کام کی جگہ وہ کام کیا جاتا ہے جس کی ضرورت محسوس کی جارہی ہو۔ افراط زر کا مقابلہ کرنے کیلئے ملک کی پیداواری صلاحیت کو بڑھانا اور اسے مجموعی طلب سےہم آہنگ کرناضروری ہے۔ پاکستان میں زرعی اور صنعتی، دونوں شعبوں میں پیداواری سطح جمود کا شکار ہے ۔یہ پڑوسی ممالک کے مقابلے میں کم ہے ۔مہنگائی پر قابو پانے کیلئے اسے بڑھانا ناگزیر ہے۔ ایسا کرنے کے ذرائع معروف ہیں اور انہیں بار ہا دہرایا گیا ہے۔ ہم ذیل میں کچھ ایسے اقدامات کا خاکہ پیش کرتے ہیں جو مہنگائی کے دباؤ کو کم کرنے میں مددگار ثابت ہوں گے ۔ تاہم مجھے یہ کہنے کی اجازت دیجیے کہ ایسا فوری طور پر نہیں ہوسکے گا۔

سب سے پہلے پالیسی سازوں کو سپلائی کی رکاوٹوں کو دور کرنے اور موثر درآمدی متبادل کی حوصلہ افزائی کرنے پر زیادہ توجہ دینی چاہئے۔ تھر کا کوئلہ درآمدی کوئلے کے مقابلے میں بہت سستا ہے۔ ضروری ہے کہ بجلی پیدا کرنے والے کارخانوں کو تبدیل کرکے ملک میں دست یاب کوئلے کو بطور ایندھن استعمال کیا جا ئے۔ کوئلے کو گیس میں تبدیل کرنا بھی ایک اور امکان ہے جسے بجلی پیدا کرنے کے لئےقدرتی گیس کے متبادل کےلئے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ پانی، ہوا اور شمسی توانائی جیسے قابل تجدید توانائی کے منصوبوں کو ترجیحی بنیادوں پر مکمل کرنا چاہئے۔توانائی کی ترسیل اور تقسیم میں موجود فرق کو دور کرنے کے لئے درکار سرمایہ کاری کے لئے درآمدی ذرائع کی بجائے ملکی ذرائع کو اہمیت دی جائے۔بلوچستان میں توانائی کے ذخائر کی تلاش اور ترقی کو تیز کیا جائے۔حکومت کا مسابقتی مارکیٹ کو متعارف کرانے کا فیصلہ خوش آئند ہے ۔ اس میں کئی ایک خریدار اور گاہک فعال ہوں گے ۔ تاہم اس کیلئے چارجز کے زیر التوا مسئلے سے نمٹنا ہنوز باقی ہے۔DISCOپہلے ہی نج کاری کمیشن کے ایجنڈے پر ہیں جس کے تحت کنٹریکٹ دیے جائیں گے ۔ حتمی معاملات طے کرنے کیلئے بہت سے اقدامات درکار ہیں۔ بلوچستان میں توانائی کے ذرائع کی تلاش اور ترقی کے عمل کو تیز کیا جانا چاہیے ۔ گیس فروخت کرنے والی کمپنیوں کو نجی شعبے کے مسابقتی میدان میں قدم رکھنے کی اجازت دی جائے۔گیس کی اوسط قیمت طے کرنے کے لیے وضع کیا گیا فارمولا سیاسی تنازع کی نذر ہوگیا۔ ایسا کرتے ہوئے یہ احساس نہ کیا گیا کہ ہمارے قدرتی گیس کے وسائل کتنی تیزی سے کم ہورہے ہیں۔ مائع قدرتی گیس کے لیے دو نجی ٹرمینلز کو جلد از جلد آپریشنل کیا جانا چاہیے۔ آئل ریفائنری پالیسی پر کافی عرصے سے بحث ہو رہی ہے اور اسے فعال ہونا چاہیے۔ وزارت توانائی اگرچہ مستقل طور پر شدید دباؤ میں رہتی ہے، کو اسلام آباد سے تمام معاملات کو کنٹرول کرنے کی پالیسی کی مزاحمت کرنی چاہیے۔ کمپنیوں کو آپریشنل خود مختاری کی اجازت دینی چاہیے اور انھیں نتائج کے لیے جوابدہ ٹھہرانا چاہیے۔ وہ ہر اس شعبے میں غلط ہونے کے لیے غیر ضروری الزام لگاتے ہیں۔ نیشنل سوشل اینڈ اکنامک رجسٹری کی تکمیل کے بعد اب گندم، بجلی، کھاد، بیج وغیرہ پر سبسڈی کے موجودہ نظام سے ہٹ کر ٹارگٹڈ سبسڈی کے نظام کی طرف جانا ممکن ہو گیا ہے۔ نہ صرف یہ کہ یہ ایک مالی طور پر ذمہ دار انہ قدام ہے جس کے نتیجے میں عوامی اخراجات میں بچت ہوگی بلکہ اس سے کھپت کو ہموار کرنے اور مستحق گھرانوں کی پیداواری صلاحیت کو بڑھانے میں بھی مدد ملے گی۔ تیل کے بیجوں، دالوں، اور سپلائی میں کمی والی دیگر اجناس کی پیداوار کو فروغ دینے کے لیے فارم سیکٹر میں ان ٹارگٹڈ سبسڈیز کا اثر نمایاں ہو سکتا ہے۔

تیسرا، برآمدات بالخصوص معیشت کے نئے شعبوں میں اب منافع بخش شرح مبادلہ کے ساتھ ممکن ہونا چاہیے لیکن برآمد کنندگان کو درپیش مخصوص رکاوٹوں کی نشاندہی کرنے کے لیے ہر شعبے کے لیے محتاط منصوبہ بندی کی جانی چاہیے۔ یہ احساس نہیں ہے کہ عالمی ویلیو چین پر غلبے والی دنیا میں، اجزاء کی درآمدات پر ٹیرف اور انٹرمیڈیٹ ان پٹ برآمدات پر ٹیکس کے طور پر کام کرتے ہیں۔ آئی ٹی برآمدات میں گزشتہ چند برسوں میں کچھ مثبت پیش رفت ہوئی ہے۔اس شعبے میں وسیع امکانات کی گنجائش موجود ہے۔ حکومت کو اس میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے۔ضروری ہے کہ ایسی پالیسی اپنائی جائے جو اس شعبے کو نقصان نہ پہنچنے دے ۔ نیشنل ٹیرف کمیشن کو ٹیرف پالیسی ترتیب دینے کی ذمہ داری دی گئی ہے کیونکہ ایف بی آر صنعت کاری کو فروغ دینے کے بجائے ریونیو کو بڑھانے کا جنون رکھتا تھا۔ این ٹی سی کو ان عوامل کو مدنظر رکھنا چاہیے جو پاکستانی برآمدات کو عالمی منڈیوں میں مسابقتی بنائیں گے۔ قریبی تعلقات کے باوجود ہم دنیا کی سب سے بڑی منڈی، چین کے امکانات کو استعمال نہیں کرسکے ہیں۔ اس کا مقصد ایک پائیدار پوزیشن حاصل کرنا ہے جہاں اشیاء اور خدمات کی برآمدات درآمدات کی 80 فیصد تک مالی اعانت فراہم کرسکتی ہیں۔ اس طرح تجارتی عدم توازن کے حجم کو کم کرنا، کرنٹ اکاؤنٹ پر دباؤ اور بیرونی قرضوں پر انحصار کو کم کیا جاسکتا ہے۔ امید ہے کہ نیشنل سنگل ونڈو بین الاقوامی تجارتی لین دین کے اخراجات کو کم کرنے اور برآمد کنندگان کے منافع میں اضافہ کرنے میں معاون ثابت ہوگی۔

پیداوار اور مارکیٹ پر اثر انداز ہونے والے عوامل

میں حکومت کی براہ راست اور بالواسطہ مداخلت بہت زیاد ہ ہے۔ قیمتوں کی ترتیب، انتظامی کنٹرول، لازمی خریداری، ریلیز اور مختص کرنے کے رجحان نے مارکیٹوں کو بگاڑ دیا ہے ۔ تاہم نتائج قیمتوں کو مستحکم کرنے کی حکومت کی خواہش کے برعکس ہیں۔ مقامی انتظامیہ کی کوشش کے باوجود ذخیرہ اندوزی اور بلیک مارکیٹنگ کرنے والے مافیا مارکیٹ میں اشیا کی قلت پیدا کردیتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ صرف مارکیٹ کے کھلاڑیوں کو ہی سامان کی رسد اور طلب کا علم ہوتا ہے۔ انتظامیہ کے فرشتوں کو بھی ان کا علم نہیں ہوپاتا۔ نیز انتظامیہ کی مداخلت استحکام پیدا کرنے کے بجائے انتشار پیدا کرتی ہے۔ گندم کے لیے ریزرو اسٹاک مینجمنٹ اور ٹیکسوں اور ٹارگٹڈ سبسڈی کے انتظام کے علاوہ، حکومت کو انتظامی اقدامات کے ذریعے منڈیوں میں مداخلت کرنے سے گریز کرنا چاہیے کیوں کہ ان کا منفی ردعمل سامنے آتا ہے۔

آخر میں اہم نکتے پر بات کرنا چاہوں گا جس پر ہماری معاشی پالیسیوں کے مباحثے میں شاید ہی بات کی جاتی ہے ۔ کرنٹ اکاؤنٹ ایک اکاؤنٹنگ شناخت ہے جہاں بچت سرمایہ کاری کے مساوی ہوتی ہے۔ اگر ملکی بچت سرمایہ کاری کے تقاضوں سے کم ہوتی ہے تو اس خلا کو غیر ملکی بچتوں سے پُر کیا جاتا ہے۔ ہمارے پڑوسی ممالک کم بچت اور کم سرمایہ کاری کی شرح کے ساتھ اسی پوزیشن میں تھے۔ انہوں نے وقت کے ساتھ ساتھ ملکی بچت اور سرمایہ کاری کی شرح دونوں کو تقریباً دوگنا کر دیا ہے جو ان کی متاثر کن شرح نمو اور غیر ملکی بچتوں پر کم انحصار کی وضاحت کرتا ہے۔ملکی بچت میں، گھریلو، نجی اور کاروباری بچتیں شامل ہوتی ہیں ۔ اگر مالیاتی خسارہ جی ڈی پی کا 8 فیصد ہے اور ریاستی اداروں میں جی ڈی پی کا 2 فیصد منفی بچت ہے تو مجموعی گھریلو بچت کی شرح 10فیصد تک کم ہو جائے گی اور ہماری سرمایہ کاری کی صلاحیت محدود ہوجائے گی۔ اس کمی کو بیرونی ممالک سے محنت کشوں کی بھیجی گئی رقوم سے پورا کیا جاتا ہے۔ بلندشرح نمو کو برقرار رکھنے کیلئے براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کی ضرورت ہوتی ہے۔

اس سے ہمارے بیرونی اکائونٹ کی بار بار سراُٹھانے والی مشکلات کی وضاحت ہوتی ہے ۔ اس طرح مالیاتی خسارے کو محدود کرتے ہوئے قابل برداشت حد تک رکھنے اور سرکاری کنٹرول میں چلنے والے کاروباری اداروں کا بندوبست کرنے کیلئے پالیسی وضع کرنا ہوگی ۔فی الحال ہم ان عوامل سے صرف نظرکئے ہوئے ہیں ۔ لیکن مہنگائی کو بے قابو ہونے سے روکنے کیلئے ان اقدامات کی ضرورت ہے ۔ مختصر یہ کہ اشیائے خوردونوش کی درآمد، ٹارگٹڈ امدادی قیمت، برآمدی مسابقت ، مارکیٹ پر سرکاری کنٹرول اور مالیاتی خسارے کو کم کرنے ، اور مالیاتی اور کرنٹ اکائونٹ خسارے کو کم کرنے کیلئے درمیانی مدت کے اقدامات درکار ہیں ۔ یہ امور ابھی توجہ کے متقاضی ہیں مبادا بہت دیر ہوجائے۔

تازہ ترین