• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وسیم اکرم کو پاکستان میں ذیابطیس کی وبا بےقابو ہونے پر تشویش

 پاکستان کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان اور مایہ ناز فاسٹ بولر وسیم اکرم نے پاکستان میں ذیابطیس کے مریضوں کی بڑھتی ہوئی تعداد پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اس مرض کی روک تھام کے لیے سنجیدہ کوششیں کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔

کراچی میں نیشنل ایسوسی ایشن آف ڈائبیٹیز ایجوکیٹرز آف پاکستان کی فٹ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وسیم اکرم نے کہا کہ پاکستان دنیا میں ذیابطیس کے مریضوں کی تعداد کے لحاظ سے تیسرے نمبر پر آ گیا ہے جو کہ انتہائی تشویشناک بات ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ پاکستانی قوم کو صحت مند رہنے اور کھیلوں کی دنیا میں اپنا مقام بہتر بنانے کے لئے اپنا طرز زندگی بہتر کرنا ہوگا، والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کے لئے رول ماڈل بنیں اور اپنا طرز زندگی بہتر بنا کر ذیابطیس کے مرض سے دور رہیں۔

سابق کرکٹر کا کہنا تھا کہ وہ گزشتہ 24 سالوں سے ذیابطیس کے مرض میں مبتلا ہیں، لیکن اس کے باوجود وہ روزانہ 8 کلومیٹر واک اور رننگ کرتے ہیں، ان کی خوراک صحت مند اجزا، جن میں سبزیاں اور پھل شامل ہیں پر مشتمل ہوتی ہے جب کہ وہ جلدی سونے اور جلدی اٹھنے کے عادی ہیں۔

وسیم اکرم نے مزید کہا کہ پاکستان میں ذیابطیس کے مریضوں کی تعداد تین کروڑ سے زائد ہونے کا سبب بے تحاشا اور غیر متوازن خوراک کھانا، ورزش سے دوری اور غیر صحت مندانہ طرز زندگی ہے، پاکستان میں اگر لوگوں کو چینی نہ ملے تو وہ سڑکوں پر آ جاتے ہیں حالانکہ کہ چینی کے بغیر زندگی بہت سکون سے گزاری جا سکتی ہے۔

انہوں نے اس موقع پر میڈیا سے درخواست کی کہ وہ شوگر کے مرض کے حوالے سے لوگوں میں شعور اجاگر کرے اور بچوں کو موٹاپے اور شوگر کی بیماریوں سے بچانے کے لیے انہیں ورزش کی اہمیت کے ساتھ ساتھ فاسٹ فوڈ سے بچنے کی ترغیب دے۔

نیڈپ ڈائبیٹیز فٹ کانفرنس کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے نامور ماہر امراض ذیابطیس پروفیسر عبدالباسط کا کہنا تھا کہ پاکستان میں ہر سال تقریبا 2 لاکھ افراد ذیابطیس کی پیچیدگیوں کے سبب ٹانگیں کٹنے سے معذور ہو جاتے ہیں کیونکہ پاکستان میں تقریباً 50 لاکھ سے زائد افراد کو ذیابطیس کے علاج معالجے کی سہولتیں ہی میسر نہیں ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ پاکستان میں تقریباً 2 کروڑ لوگ ذیابطیس کے مرض میں مبتلا ہیں، جن میں سے 10 فیصد لوگوں کے پیروں میں مناسب علاج اور مرض کا شعور نہ ہونے کے سبب زخم ہو جاتے ہیں اور تقریباً 2 لاکھ افراد ہر سال ان زخمیوں کا علاج نہ ہونے کے سبب اپنے پیروں اور ٹانگوں سے محروم ہوجاتے ہیں۔

پروفیسر عبدالباسط کا کہنا تھا کہ ان کے ادارے بقائی انسٹیٹیوٹ آف ڈائبیٹالوجی اینڈ اینڈوکرائنولوجی نے ذیابطیس کے مریضوں کے لیے ایسے جوتے متعارف کرائے ہیں، جن کے استعمال سے پیروں کے زخموں سے بچا جاسکتا ہے، جس کے نتیجے میں پیر اور ٹانگیں کٹنے کی شرح میں بہت حد تک کمی واقع ہوتی ہے۔

پروفیسر باسط نے اس امر پر افسوس کا اظہار کیا کہ پاکستان میں تقریباً ایک کروڑ سے زائد افراد کو اس بات کا علم ہی نہیں کہ وہ ذیابطیس کے مرض میں مبتلا ہیں جبکہ تقریباً ایک کروڑ بچے موٹاپے کا شکار ہے جو کہ آنے والے چند سالوں میں پاکستان میں ذیابطیس کے مریضوں کی تعداد مزید بڑھنے کا سبب بن سکتے ہیں۔

کانفرنس کے آرگنائزنگ سیکرٹری ڈاکٹر زاہد میاں کا کہنا تھا کہ پاکستان میں زیادہ تر ذیابطیس کے مریضوں کو ٹانگیں کٹنے سے بچایا جا سکتا ہے، جس کے لیے وہ آئندہ چند سالوں میں پورے ملک میں 300 فٹ کلینک قائم کرنے جارہے ہیں، حکومت کو چاہیے کہ وہ پرائیویٹ سیکٹر کے تجربے سے فائدہ اٹھائے اور پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے تحت ملک کے طول وعرض میں ذیابطیس کے علاج کی یکساں سہولیات فراہم کرے۔

نیشنل ایسوسی ایشن آف ڈائبیٹیز ایجوکیٹرز آف پاکستان کے صدر ڈاکٹر سیف الحق نے اس موقع پر بتایا کہ کورونا کی وبا کی وجہ سے پاکستان میں ذیابطیس کا مرض بہت بری طریقے سے نظرانداز ہوا ہے لیکن اب کورونا کے کیسز میں کمی آنے کے ساتھ ساتھ اس مرض پر توجہ بحال اور مرکوز ہوتی جا رہی ہے جس کے نتیجے میں آنے والے چند سالوں میں ایسے اقدامات کیے جائیں گے جس سے نہ صرف اس مرض پر قابو پایا جاسکے گا بلکہ کے لوگوں کو زندگی میں مزید بہتری لائی جا سکے گی۔

کانفرنس سے ڈائریکٹر ہیلتھ سروسز کراچی ڈاکٹر اکرم سلطان، پروفیسر اعجاز وہرہ، ڈاکٹر مسرت ریاض، ڈاکٹر عاصم بن ظفر، ارم غفور سمیت ملکی اور غیر ملکی ماہرین نے خطاب کیا۔

تازہ ترین