• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان کے قیام کے وقت کوئی پاکستانی سکّہ نہیں تھا، بھارتی سکّوں کو ہی قانونی سکّے قرار دیا گیا تھا۔ 1948ء میں پاکستانی روپے کا سکّہ ضرب ہوا۔ ابتدا میں پاکستانی اور بھارتی دونوں روپے ہم قدر تھے۔ 1952ء میں جب بھارت نے اپنے روپے کی قدر میں کمی کی تو پاکستانی روپیہ بھارتی روپے سے بڑھ گیا۔ آج بھارتی روپیہ حالیہ قدر کے بعد 60 روپے ایک ڈالر کے مساوی ہے اور پاکستانی روپیہ کھلے بازار میں 107 روپے کا ہو گیا ہے۔ مجھے یہ یاد نہیں کہ 1948ء میں ایک امریکی ڈالر کتنے روپے کا تھا مگر جب میں پہلی عالمی آبادی کانفرنس منعقدہ روم سے ہوتا ہوا امریکہ ٹریننگ کیلئے گیا تھا تو اس وقت مبادلات خارجہ پر سخت کنٹرول تھا۔ مجھے دس پونڈ کا زرمبادلہ ملا جو میرے پاسپورٹ میں درج کیا گیا تھا اور میں نے خفیہ طور پر ساڑھے تین روپے فی ڈالر کے حساب سے دس ڈالر خریدے اور اسی شرح کے مطابق امریکہ میں نصف تنخواہ ایک سال تک وصول کرتا رہا۔ آہستہ، آہستہ امریکی ڈالر مہنگا ہوتا رہا۔ جب 65-63 روپے کے گرد گردش کر رہا تھا تب میرے دوست مرحوم محسن بھوپالی نے کہا تھا
اپنے ڈالر سنبھال کر رکھنا، سو روپے تک جائے گا نرخ ان کا۔ مرحوم کی پیش گوئی درست ثابت ہوئی اور ڈالر کا نرخ 107 روپے تک پہنچ گیا۔ سیکرٹری خزانہ نے کہا کہ شرح مبادلہ کے سلسلے میں آئی ایم ایف سے کوئی خفیہ معاہدہ نہیں ہوا۔ اس وقت ڈالر کے مقابلے میں روپے کی گرتی ہوئی وجہ یہ ہے کہ رمضان میں عمرے پر جانے والوں کی تعداد بڑھ جاتی ہے اور مبادلہ خارجہ حاصل کرنے والوں کی طرف سے ڈالر کی طلب میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ عالمی اداروں کی طرف سے رقم ملنے پر ڈالر کی قدر میں اضافہ رک جائے گا حالانکہ اب حج کا زمانہ آ رہا ہے اور عمرے کے مقابلے میں حج میں زیادہ اخراجات ہوتے ہیں اور عازمین حج سرکاری کوٹے کے علاوہ زائد زرمبادلہ بھی اپنے ساتھ لے جانا چاہتے ہیں۔ ویسے جہاں تک حج کے اخراجات کا تعلق ہے تو سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں وزارت مذہبی امور کے سیکرٹری نے اعتراف کیا کہ دنیا میں سب سے زیادہ حج اخراجات پاکستانی عازمین کو برداشت کرنے پڑتے ہیں۔ بینک عازمین حج کی رقوم سے فائدہ اٹھا رہے ہیں، وہ یہ رقوم وصول ہوتے ہی مذہبی امور کے اکاؤنٹ میں جمع نہیں کراتے بلکہ اپنے مقاصد کیلئے استعمال کرتے ہیں اور تاخیر سے جمع کراتے ہیں۔ (سوال یہ ہے کہ کیا سو فیصد رقوم سرکاری اکاؤنٹ میں جمع ہو جاتی ہیں اور اس کی جانچ کا کوئی مستند طریقہ رائج ہے؟) ہمارے حاجیوں کو بھارتی حاجیوں کے مقابلے میں جہازوں کا زیادہ کرایہ ادا کرنا پڑتا ہے حالانکہ ان کا فاصلہ ہم سے زیادہ ہے۔ حرمین شریفین کے قرب و جوار میں ان کو مناسب سہولتیں بھی حاصل نہیں ہوتیں۔ پچھلے برسوں میں ایسے کئی اداروں کو اپنا کام بند کرنا پڑا جو رشوت دینے کو حرام سمجھتے تھے۔ ڈالر کی قدر میں اضافے کی وجہ سے ان کے اخراجات میں اضافہ ہو جائے گا۔ ویسے سعودی ریال بھی امریکی ڈالر، برطانوی پونڈ اور یورو کی مطابقت میں 27.23 روپے سے بڑھ کر 27.42 روپے کا ہو گیا۔
ڈالر کی قدر میں سب سے زیادہ اضافہ پیپلز پارٹی کے دور میں ہوا یعنی پانچ سال میں کوئی 34 روپے کا اضافہ نگراں حکومت کے دور میں ڈالر کی قدر میں ایک روپے کا اور موجودہ حکومت جسے اقتدار میں آئے صرف 58 دن ہوئے ہیں ڈالر کی قیمت میں 6 روپے کا اضافہ ہو گیا ہے۔ اس کی کچھ تفصیل یوں بیان کی جاتی ہے کہ اسٹیٹ بینک کی جانب سے ڈالر کی خریداری پر دستاویزات پیش کرنے کی شرط پر کرنسی ڈیلرز نے اوپن مارکیٹ میں اوّل دن ایک روپیہ اور دوسرے دن ایک روپیہ پچاس پیسے کا اضافہ کر دیا۔ حالانکہ اسٹیٹ بینک کے منی لانڈرنگ کے اقدام سے ڈالر کی قیمت میں کمی ہو سکتی تھی چنانچہ حکومت نے طے کیا ہے کہ وہ روپے کی گرتی ہوئی قدر کو روکنے کیلئے فارن کرنسی کمپنیز کا تعاون حاصل کرے گی۔ ادھر کرنسی کا کاروبار کرنے والوں نے مطالبہ کیا ہے کہ اسٹیٹ بینک نے جو سخت اقدام نافذ کیا ہے وہ واپس لیا جائے نیز سونے کی غیرقانونی درآمد کو کچھ عرصے کیلئے روکا جائے کیونکہ اس کی وجہ سے ڈالر کی مانگ بڑھ رہی ہے۔
مرے کو مارے شاہ مدار کے بقول برطانیہ سے رقم کی منتقلی کو روکنے کیلئے برکلے بینک نے فیصلہ کیا ہے کہ بیرونی ملکوں کو جن میں پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش شامل ہیں، روپیہ منتقل کرنے والی کمپنیوں میں70 فیصد کمی کر دی جائے۔ اس سے نہ صرف ہزاروں لوگ بیروزگار ہو جائیں گے بلکہ ان ممالک کی ترسیل زر کی رقم بھی گھٹ جائے گی۔ پاکستانیوں کی زیر ملکیت 300 سے زائد رجسٹرڈ ادارے ترسیل زر کا یہ کام کرتے ہیں، ان کی فیس بہت کم ہے اور بعض رقوم کی منتقلی پر یہ کوئی فیس وصول نہیں کرتے چنانچہ ان کی ایسوسی ایشن نے وزیراعظم اور وزیر خزانہ سے درخواست کی ہے کہ برکلے بینک ایک آزاد ادارہ ہے، اگر حکومت پاکستان ان کی مدد کرنا چاہتی ہے تو اسے اس سلسلے میں برطانوی حکومت سے رجوع کرنا پڑے گا۔ ویسے غیرملکی ادارے جو فیصلہ کر لیتے ہیں اس میں بہت ہی کم صورت میں ردوبدل کیا جاتا ہے مگر یہ معاملہ محض ان 300 اداروں کا نہیں ہے بلکہ اس میں خود کو اس وقت زرمبادلہ کی شدید ضرورت ہے مگر ملک میں بروقت اور فوری کارروائی کا نظام موجود نہیں۔ ساتھ ہی حکومت اور اسٹیٹ بینک کو فوری طور پر ایسے اقدامات کرنے چاہئیں جس سے روپے کی گراوٹ نہ صرف رک جائے بلکہ روپے کی قدر بڑھ جائے خواہ اس سے کوئی ناراض ہو۔
تازہ ترین