• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سرخ بتی پہ گاڑی رکی، باہر سے کسی نے کھٹکھٹایا”باجی آپ کا دوپٹہ لٹک رہا ہے۔گاڑی کا دروازہ کھولا، فوراً اندر پستول آگیا۔ ”فوراً چوڑیاں اتار دیں“ یہ منظر اب اسلام آباد میں اکثر ہو رہا ہے۔ خواتین زیور پہننے سے باز نہیں آتیں اور نوجوانوں کو (آوارہ نوجوانوں کو) یہ شوق چڑھ گیا ہے کہ بلاکام کئے، پیسے کمالئے جائیں۔ یہ میرے اپنوں کے بچے ہیں، ان کو کیا کہوں۔ایک اور ہنر کراچی سے سفر کرتا ہوا، ملتان سے ہوتا ہوا، لاہور اور پھر اسلام آباد اور پشاور پہنچ گیا ہے۔ بھتہ… یہاں فیکٹریاں کم ہیں۔ یہ نسخہ دکانداروں کو جگہ بہ جگہ مل رہا ہے، رقم پہنچا دیں ورنہ۔پہلے میں نے امریکہ میں کالوں کو ایسی حرکتیں کرتے دیکھا تھا پھر جب میں جنوبی امریکہ گئی تو ہوٹل میں پہنچتے ہی ہدایت نامہ ملا۔ باہر نکلتے وقت دس بیس ڈالر لے کر جائیں۔ پاسپورٹ ساتھ مت رکھیں۔ پکڑنے والے سے بحث مت کریں جو جیب میں ہے پکڑا دیں۔ یہی حال کولمبیا اور نکاراگوا میں ہوا مگر ارجنٹائن میں ایسا ماحول نہیں تھا کیونکہ ہر چوک پر ایک سپاہی کھڑا تھا۔
اب اسلام آباد کا یہ حال ہے کہ ویسے تو ہر چوک پہ سپاہی ہے مگر ذرا چلیں تو میرے ساتھ جناح سپرمارکیٹ یا ایف 11 کی مارکیٹ میں بے کار اور بے علم نوجوان، لڑکیاں دیکھ کر ہذیانی ہنسی کے ساتھ ہاتھ پہ ہاتھ مارتے، اتنے برے لگتے ہیں۔ کئی ایک کو تو میں نے ٹوک بھی دیا، جواب ملا ”ہماری ماں نہ بنئے“۔ کیا پچھلے زمانے میں نوجوان یوں بڑوں کے ساتھ بول سکتے تھے مگر سب ایسے نہیں، بہت سے نوجوان خود میری اور میری عمر کی خواتین کی گاڑیوں کو راستہ دیتے،کسی کا ٹائر پنکچر ہوجائے تو بدلنے میں خود آگے آگے ہوتے ہیں۔ بینک میں قطار لگی ہو تو خاتون آجائے تو آگے کو راستہ دیکر، میری جیسی ماؤں سے دعائیں لیتے ہیں۔ حالات بدل رہے ہیں۔ پیٹرول اور گیس اب تو ہر ماہ قیمتیں بڑھ جاتی ہیں۔ سفر کرنا ہم سب کی ضرورت ہے۔ آپ نے دیکھا ہی ہوگا کہ موٹر سائیکل پر پانچ افراد پہ مشتمل پورا خاندان سفر کررہا ہوتا ہے۔ اب تو چوک میں کھڑے ہوئے سپاہی بھی شریف ہوگئے ہیں ورنہ پہلے تو دو یا تین افراد کی سواری پر چالان یا پھر مٹھی گرم کرنے کے لئے کچھ نہ کچھ مانگتے۔ ٹرانسپورٹ کی کمی اور پٹرول کی قیمتوں کے بڑھنے کے باعث، سنا ہے شہباز شریف نے ہماری بچیوں کے لئے خواتین کی موٹر سائیکلیں درآمد کرنے اور نوجوان کالجوں میں پڑھنے والی بچیوں میں تقسیم کرنے کے لئے منصوبہ بنایا ہے۔ مجھے یاد آیا کہ امرتسر سے لے کر ہندوستان کے ہر شہر میں لڑکیاں اور خواتین موٹر سائیکل پر دفتر اور یونیورسٹی جاتی ہیں۔ علی گڑھ اور حیدرآباد دکن جیسے پرانے زمانے کی ثقافت کو جاری رکھتے ہوئے۔ پچاس فیصد بچیاں برقعہ اوڑھنے کے باوجود موٹر سائیکل پر یونیورسٹی آتی ہیں۔ پورے پنجاب اور ہریانہ میں تو ایک شہر سے دوسرے شہر بھی خواتین بڑے سکون سے موٹر سائیکل پر سفر کرتی نظر آتی ہیں حالانکہ وہ معاشرہ بھی کوئی نیک معاشرہ نہیں ہے ۔ لڑکیوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات معمول کا حصہ ہیں۔ خاندانی دشمنیاں بھی اسی طرح خون کی ہولی کھیلتی ہیں، جیسے ہمارے غیرت کے نام پر قتل کئے جاتے ہیں۔
دنیا میں دیکھا جائے تو سیکنڈ نیوین ممالک میں گاڑیوں کے اسٹینڈ بہت کم اور سائیکل اسٹینڈ بہت زیادہ، ہر دفتر، یونیورسٹی اور بازاروں میں دکھائی دیں گے۔ لوگوں کا کہنا یہ ہے کہ سارا دن دفتروں میں بیٹھنے کے باعث سائیکل چلانے سے صحت بہتر ہوتی ہے۔ دوسرے یہ کہ پٹرول بہت مہنگا ہونے کے علاوہ، ماحول آلودہ ہوجاتا ہے، اس لئے صرف ویک اینڈ پر اور وہ بھی شہر سے باہر جانے کے لئے، ان لوگوں کو گاڑی باہر نکالنے کی ضرورت پیش آتی ہے۔ لندن اور نیویارک کے علاوہ سارے بڑے شہروں میں لوگ سب وے سے دفتر یا یونیورسٹی جاتے ہیں۔ وہ لوگ بھی چھٹیوں کے دنوں میں گاڑیاں باہر نکالتے ہیں۔ ویسے کمال کی بات یہ ہے کہ ہفتہ، اتوار کو بھی پٹرول کی قیمتیں بڑھ جاتی ہیں۔ ہوٹلوں کے نرخ بھی بڑھا دیئے جاتے ہیں۔ بالکل اس طرح جیسے بارسلونا میں گرمیوں میں بل فائٹنگ کے ریٹس زیادہ ہوتے ہیں جبکہ سردیوں میں یہی جگہیں انہی یعنی باہر بیٹھنے والی جگہ کے ریٹس زیادہ ہوتے ہیں بزرگوں کے لئے تو ہندوستان تک میں 30فیصد ٹکٹ کم ہوتے ہیں چاہے جہاز ہوں کہ ٹرین، معلوم نہیں پاکستان میں اس طرح کی سہولتیں کب دی جائیں گی۔ ہماری سڑکوں پر تو معذوروں کی سائیکلیں چلانے کے لئے ریمپ بھی بہت کم بنائے جاتے ہیں۔ ہم کرتے کیا ہیں۔ کراچی میں تو چڑیا پیشاب کر جائے تو پانی کھڑا ہوجاتا ہے۔کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ پانی ایئرپورٹ پہ جانے کا خطرہ ہوجائے۔ کراچی میں ایک ہی انڈر پاس ہے، وہاں پانی، بارش کے بعد کئی کئی دن تک کھڑا رہتا ہے۔ یہی جو سیلاب کی شکل میں ایکسٹرا پانی آتا ہے۔ اس کو محفوظ کرنے کے لئے کہیں بھی ڈیم نہیں بنائے جارہے ہیں۔آج کل بالخصوص رمضان میں ہر روز دس پندرہ فون عورتوں کے یہ کہتے ہوئے آتے ہیں کہ آپ عورتوں کی مدد کرتی ہیں۔ مجھے اپنی بیٹی کی شادی کے لئے پچاس ہزار روپے چاہئیں یا میری بیٹی بیمار ہے اس کے علاج کے لئے رقم چاہئے، مدد فرمایئے۔ میں روز بتاتے بتاتے تھک گئی ہوں کہ میں ہنر مند عورتوں کی بنائی ہوئی اشیا فروخت کرکے، ان کی مدد کرتی ہوں۔ کوئی عورت بھٹ شاہ کی ہو کر ہری پور کی کہ بہاولپور کی۔ اس کی چیزیں جب فروخت ہوتی ہیں بغیر کسی کٹوتی کے، اس کی رکھی ہوئی قیمت کی ادائیگی فوراً کردی جاتی ہے۔ محنت کرکے کمانے والی عورتوں کی مدد کرتی ہوں۔ ٹیلیفون کرکے خیرات مانگنے والی عورتوں کی مدد کرنی بھی نہیں چاہئے۔ مجھے شرم آتی ہے کہ اس طرح مانگنے کا ان خواتین کو حوصلہ کیسے ہوتا ہے۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ جیسے پستول دکھا کے بیگ چھیننے والوں کا حوصلہ ہوتا ہے۔ میں ان سب خواتین سے کہتی ہوں تم سب کام کرو۔ مجھے وہ کام روانہ کرو۔ میں تمہاری مدد کروں گی!
تازہ ترین