• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مصنّفہ: شہناز پروین

صفحات: 272، قیمت: 400روپے

ناشر: رنگِ ادب پبلی کیشنز، اُردو بازار، کراچی۔

مصنّفہ سینئر قلم کار ہیں، افسانہ نگاری ان کی شخصیت کا بنیادی حوالہ ہے اور ایک ماہرِ تعلیم کی حیثیت سے بھی ان کی خدمات نظرانداز نہیں کی جاسکتیں کہ کئی کالجز کی پرنسپل بھی رہیں۔ ان کی زندگی کا بیش تر حصّہ چوں کہ ڈھاکا میں گزرا، لہٰذا ان کا زیرِتبصرہ ناول اسی تناظر میں لکھا گیا ہے۔ شہناز پروین اب خود بھی درجۂ استادی پر فائز ہیں، لیکن انہوں نے جس محبّت اور اِخلاص سے اپنے اساتذہ کا ذکر کیا ، اس سے اُن کی شرافتِ نفسی اور اعلیٰ ظرفی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔

ابتدا میں انہوں نے فیض احمد فیض کی وہ نظم شامل کی ہے، جو انہوں نے 1974ء میں ڈھاکا سے واپسی پر کہی تھی،’’ہم کہ ٹھہرے اجنبی، اتنی مداراتوں کے بعد‘‘۔اس سے بھی ان کی دانش مندی کا اندازہ ہوتا ہے۔ اس ناول کا آغاز انہوں نے امریکا سے کیا تھا کہ بقول ان کے، وہاں بنگلا دیش کے بہت سے رہنے والے ،اُردو بولنے والوں خصوصاً مشرقی پاکستان سے آکر بسنے والوں کو بنگال کا دشمن اور بنگالیوں کا قاتل سمجھتے تھے۔ یہ ناول چار نسلوں پر محیط ہے، جس کو انہوں نے نور النہار (ونگ نانی یا فیری نانی)، آمنہ (مکتی) ،عائشہ اور فاطمہ کے کرداروں کے ذریعے پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ 

اس ناول کا ایک حصّہ تاریخی اور سوانحی نوعیت کا ہے، دوسرا نام نہاد تاریخی، تیسرا آنکھوں دیکھا حال اور چوتھا محبّتوں بَھری نئی دُنیا کی آس، انسان کی تلاش، خواب اور خواہشات پر مشتمل ہے۔ مصنّفہ نے ایک جگہ وضاحت کی ہے کہ اس ناول کے بیش تر کرداروں کے نام فرضی ہیں، خصوصاً فوجیوں کے۔ اگر کوئی نام حقیقی محسوس ہو تو یہ محض اتفاق پر مبنی ہوگا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مشرقی پاکستان کے تناظر میں یہ ناول ایک دستاویز کا درجہ رکھتا ہے، جس سے ہر نسل کے لوگ استفادہ کرکے تاریخ سے آگاہی حاصل کرسکتے ہیں۔

تازہ ترین