• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

چند دن پہلے لکھے گئے کالم میں ’’اُوری۔ دی سرجیکل اسٹرائیک‘‘ انڈین فلم کے ریکارڈ بزنس کا ذکر ہوا۔ اِسی ضمن میں ایک اور فلم ’’راضی‘‘ کی کہانی بھی سُن لیجئے مگر مناسب ہوگا کہ ہندوستان کی فلم انڈسٹری جن اَدوار سے گزری پہلے اُن کا تذکرہ ہو جائے۔ آزادی کے فوراً بعد پاکستان کے حوالے سے جو فلمیں بنائی گئیں وہ زیادہ تر بٹوارے سے متعلق تھیں۔ ’’ٹرین ٹو پاکستان‘‘ اور اُس جیسی کہانیاں، قتل و غارت کے اُن واقعات پر مبنی تھیں جو آبادی کی جبری نقل مکانی کے دوران پیش آئے۔ بیشتر فلموں میں اِس انسانی المیے کا نقشہ، غیرجانبداری سے کھینچا گیا۔ اِس دور کے بعد بھی فلم سازوں کی سوچی سمجھی کوشش ہوتی کہ فلمی کہانی کو اقلیتوں کے لئے بھی قابلِ قبول بنایا جائے۔ کاروباری لحاظ سے بھی یہ فائدہ مند فیصلہ تھا اور یہ رُحجان تادیر قائم رہا۔ وجہ کچھ بھی ہو، اِن کہانیوں کے ذریعے ہندوستان میں بسنے والی مختلف اقلیتوں کے حوالے سے ایک مشترکہ سماج تخلیق کرنے کی واضح کوشش نظر آتی تھی۔ فلموں کا ہیرو، چاہے وہ کسی چھلئے کا کردار ادا کر رہا ہو، نغمہ سرائی میں، ’’ہندو مسلم سکھ عیسائی، سب کو میرا سلام‘‘ کہتا سُنائی دیتا۔ اگر کسی فلم میں تین بچے، ماں سے بچھڑ کر مسلمان، عیسائی اور ہندو گھرانوں میں پرورش پا کر مختلف مذاہب اختیار کر لیتے تو احتیاط کی جاتی کہ مذہبی تقسیم کا اُن کے کرداروں کی اچھائی یا بُرائی سے تعلق نہ جوڑا جائے۔ اِن فلموں کے ذریعے سماج میں انسان دوستی اور محبت کے جذبات کی ارفع حیثیت کا پرچار کیا جاتا۔ فلمی نغمات میں ’’سارے جہاں سے اچھا ہندوستان ہمارا‘‘ گاتے ہوئے علامہ اقبال کا یہ پیغام بھی دیا جاتا ’’مذہب نہیں سکھاتا آپس میں بیر رکھنا‘‘۔ ہندوستان کو امن پسند ملک ظاہر کرنے کے لئے نغموں کے بول اِسی مناسبت سے لکھے جاتے۔ شاید میرے ہم عصروں کو یہ گانا یاد ہو ’’مہمان جو ہمارا ہوتا ہے‘ وہ جان سے پیارا ہوتا ہے‘ ہم اُس دیس کے باسی ہیں جس دیس میں گنگا بہتی ہے‘‘۔

1965ءکی پاک بھارت جنگ اور پھر 1971میں ہندوستانی فوج نے پاکستان کو دو لخت کرنے میں جو کردار ادا کیا اُن واقعات پر ہندوستانی فلم انڈسٹری نے بہت سی فلمیں بنائیں مگر عسکری مہم جوئی کی فلمی کہانیاں چاہے حقیقت کے قریب ہوں یا مبالغہ آرائی پر مبنی غیرمعمولی مقبولیت حاصل نہ کر سکیں۔مزید تفصیلات کی وُسعت اِس کالم کی محدود گنجائش میں سما نہیں سکتی۔

ہندوستان کے سیاسی اُتار چڑھائو میں جب آر ایس ایس، جن سنگھ اور بی جے پی کی مقبولیت بڑھی تو ہندوستان کی سماجی سوچ میں بتدریج تبدیلی کا عمل شروع ہوا۔ معاشی ترقی کے ساتھ بڑھتی ہوئی مڈل کلاس میں Shining India اور Incredible Indiaجیسے وطن پرست نعرے مقبول ہو گئے۔ ہندوستانی عوام ہمیشہ سے اپنے ملک کو ورلڈ پاور کے رُوپ میں دیکھنا چاہتے تھے۔ اِس خواب کو حقیقت میں دیکھنے کی تمنا، عقل اور فہم پر غالب آنے لگی۔ اِس پس منظر میں فلم ’’راضی‘‘ کی کہانی کا جائزہ لیتے ہیں جس کی بنیاد ہریندر سکا (Harinder Sikka) کے ناول (Calling Sehmat) ’’کالنگ سہمت‘‘پر رکھی گئی ہے۔ ناول نگار کا کہنا ہے کہ کہانی سچے واقعات پر مبنی ہے۔ یہ دعویٰ اپنی جگہ مگر بیان کئے گئے ’’حقیقی‘‘ واقعات پڑھنے سے پہلے، قارئین دِل تھام لیں کیونکہ یہ کتھا اُن کے تخیل کی پرواز سے بُلند تر ہے۔ مُجھے شُبہ ہے کہ لکھتے وقت، ہریندر سکا نشے کی کیفیت میں ہو گا کیونکہ کہانی کا تانا بانا بُنتے وقت اُس نے قارئین کی عقل اور فہم کا احترام نہیں کیا۔ 2008میں لکھے گئے ناول کے مطابق ایک کشمیری مسلمان ہدایت خان، ہندوستان کی خُفیہ ایجنسی ’’را‘‘ کا ایجنٹ ہونے کے باوجود پاکستان آرمی کے ایک بریگیڈیئر پرویز سید سے دوستی رکھتا ہے۔ پھیپھڑوں کے کینسر میں مبتلا ہدایت خان کو موت کی دستک تو سُنائی دے رہی ہے مگر آخرت سنوارنے کی فکر نہیں۔ اُس کی بیس سالہ بیٹی، سہمت ابھی غیرشادی شدہ ہے۔ ہدایت خان بیٹی کے معاملے میں بھی ایک ’’وکھری‘‘ قسم کا بابل ہے۔ کہانی کے اِس موڑ پر قارئین اپنی عقل کو رُخصت پر بھیج دیں کیونکہ اب واقعات یقین اور گمان کی حدود سے باہر نکل رہے ہیں۔ ہدایت خان موت سے پہلے بیٹی سہمت کو ’’را‘‘ کا ایجنٹ بنا کر اُس کی تربیت کرواتے ہیں اور پھر اِس مسلمان کشمیری بچی کی شادی اپنے دوست بریگیڈیئر پرویز سید کے بیٹے سے کرتے ہیں جو پاکستانی فوج میں افسر ہے۔ اِس لئے نہیں کہ ’’رانی بیٹی‘‘ ایک خوش و خُرم ازدواجی زندگی گزارے بلکہ آخری خواہش ہے کہ مسلمان فوجی گھرانے کی بہو کے رُوپ میں ہندوستان کے لئے پاکستان آرمی کے راز چُرائے۔ رُخصتی کے بعد بیٹی پاکستان آ جاتی ہے مگر اپنے بابل کی طرح نو بیاہتا کشمیری لڑکی بھی ایک مختلف قسم کی بہو ہے۔ شوہر کی محبت حاصل ہونے کے باوجود اُسے گھر بسانے سے زیادہ ’’را‘‘ کے لئے کام کرنے کی فکر رہتی ہے۔ اِس دوران سہمت کے سُسر، بریگیڈیئر پرویز سید ترقی پا کر میجر جنرل ہو چکے ہیں۔ جب سہمت پر پُرزے نکالتی ہے تو اُس کی اصلیت جس پر ظاہر ہوتی ہے، اُسے قتل کر دیتی ہے جس میں گھریلو ملازم سے لے کر شوہر کے رشتے دار بھی شامل ہیں۔ ’’را‘‘ کے دُوسرے ایجنٹ سہمت کے سہولت کار بھی پاکستان میں موجود ہیں۔ اُنہیں ہدایت ہے کہ پکڑے جانے کی صورت میں سہمت کو مار دیا جائے۔ قصہ مختصر جب اُس کے شوہر ثمر سید کو حقیقت کا علم ہوتا ہے تو سہمت کے سہولت کار اِن دونوں پر گرنیڈ سے حملہ کرتے ہیں۔ شوہر مارا جاتا ہے مگر سہمت بچ نکلتی ہے۔ واپس ہندوستان بھاگ جانے کے بعد ایک لڑکے کو جنم دیتی ہے جو ماں کی خواہش کے مطابق جوان ہونے پر ’’را‘‘ کا ایجنٹ بن جاتا ہے۔ ایک کشمیری مسلمان لڑکی کے حوالے سے کہانی بعید از قیاس سہی مگر جو لوگ عسکری معاملات کی تھوڑی بہت شُدھ بُدھ رکھتے ہیں اُنہیں اپنی عقل کو خواب آور گولیاں دیکر سُلانا پڑیگا کیونکہ پاکستان آرمی کے جنرل کے گھر سے سہمت جو راز چُراتی ہے وہ پاکستان نیوی سے متعلق ہیں۔ اُسکی چُرائی ہوئی معلومات کی وجہ سے ہندوستانی جہاز آئی این ایس راجپوت، پاکستانی آبدوز ’’غازی‘‘ کو غرق کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ اگر آپ کے ذہن میں یہ سوال آئے کہ آرمی افسر کے پاس نیوی کی پلاننگ کا کیا کام، تو میرے پاس اِس سوال کا جواب نہیں۔ یہ الف لیلوی داستان ہندوستانی فلم بینوں کی عقل اور فہم کا مذاق اُڑاتی ہے مگر اِس کے باوجود، پینتیس کروڑ ہندوستانی روپے کی لاگت سے بنی اِس ناقابلِ یقین کہانی نے دو سو کروڑ ہندوستانی روپے کا بزنس کیا۔ اِسے کئی فلم فیئر ایوارڈز بھی ملے۔ نظر آتا ہے کہ ہندوستانی عوام کی سوچ میں بتدریج ایک منفی تبدیلی آرہی ہے۔ اسلامو فوبیا اور پاکستان دُشمنی کا چُورن مقبول ہوتا جا رہا ہے۔ ہندوستانی حکومت اپنے عوام کی عقل سے عاری حُب الوطنی کو نامناسب طور پر استعمال کرتے ہوئے مذہبی بنیاد پر معاشرے میں تقسیم و تفریق کی ایسی دراڑیں ڈال رہی ہے جو کسی بھی سماج کیلئے اچھا شگون نہیں۔

تازہ ترین