• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
قومی توانائی پالیسی 2013-18ء جس کا حال ہی میں وزیراعظم نے اعلان کیا ہے کے مطابق حکومت نے 2017ء تک لوڈشیڈنگ کے خاتمے اور بجلی کی قیمتوں میں کمی کے اہداف رکھے ہیں لیکن حال ہی میں حکومت نے بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کر دیا ہے اور کمرشل صارفین کی بجلی فی یونٹ قیمت6 روپے اضافے سے 16 روپے اور صنعتی صارفین کیلئے 5 روپے اضافے کے ساتھ 18 روپے کردی گئی ہے جن کا اطلاق فوری طور پر کیا گیا ہے۔ بجلی کے نرخوں میں اضافے کی وجہ گردشی قرضوں کو دوبارہ بڑھنے سے روکنا ہے۔ حکومتی بانڈز اور بینکوں سے قرضے لے کر 503 ارب روپے کے گردشی قرضوں کی ادائیگی کے بعد ان قرضوں کو دوبارہ بڑھنے سے روکنے کیلئے یہ ضروری تھا کہ بجلی کے نرخوں میں اضافہ کرکے 3 سالوں میں حکومتی سبسڈیز کو بتدریج ختم کیا جائے۔ قومی توانائی پالیسی کے اہم اہداف میں بجلی کی طلب اور رسد میں 5 ہزار میگاواٹ کا اضافہ کرنا ہے لیکن اس میں 7.5 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کیلئے سرمایہ کاروں کو راغب کرنا ضروری ہے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ ان کے آنے کے بعد 1400 میگاواٹ بجلی نیشنل گرڈ میں شامل ہوچکی ہے۔ اس کے علاوہ گردشی قرضوں کی ادائیگی کے وقت آئی پی پیز نے 1700 میگاواٹ اضافی بجلی فراہم کرنے کا معاہدہ کیا تھا اور اس طرح 1500میگاواٹ اضافی بجلی بند پلانٹس کی بحالی سے حاصل کی جائے گی۔ قومی توانائی پالیسی کے اہم اہداف میں بجلی کی ترسیل کی لائنوں میں بہتری، بجلی چوری کی روک تھام سے تیکنیکی (T&D) نقصانات میں کمی اور بجلی کے غیر ادا شدہ بلوں کی وصولی کو یقینی بنانا شامل ہیں۔
بجلی کے بلوں کی عدم ادائیگی کے ضمن میں صوبوں کے ذمہ وفاق کے اربوں روپے کافی عرصے سے واجب الادا ہیں جس میں چاروں صوبوں، فاٹا اور آزاد کشمیر کے مجموعی واجبات 103 ارب روپے اور نجی شعبے کے 281 ارب روپے شامل ہیں۔ صوبوں میں سندھ 44.7 ارب روپے کے ساتھ سرفہرست ہے، آزاد کشمیر 24 ارب روپے، فاٹا 20.2 ارب روپے، خیبر پختونخوا 19.5 ارب روپے، وفاقی محکموں کے 4.6 ارب روپے اور پنجاب کے 3.8 ارب روپے شامل ہیں۔ حال ہی میں حکومت نے مشترکہ مفادات کونسل (CCI)کے اجلاس میں وفاق کی جانب سے صوبوں کو دیئے جانے والے وسائل میں سے بجلی کے واجبات کی براہ راست کٹوتی کی تجویز پیش کی تھی لیکن صوبوں کا اس پر اتفاق نہیں ہوسکا۔ بجلی پیدا اور سپلائی کرنے والی حکومتی کمپنیوں جینکو اور ڈسکوز کی نجکاری بھی قومی توانائی پالیسی کا ایک حصہ ہے تاکہ کارپوریٹ سیکٹر سے نئی پروفیشنل انتظامیہ لاکر ان اداروں میں بدانتظامی اور کرپشن کا خاتمہ کیا جاسکے۔ مشترکہ مفادات کونسل (CCI) سے منظور ہونے والی قومی توانائی پالیسی کے تحت بجلی کے ایک یونٹ کو پیدا اور سپلائی کرنے کی مجموعی لاگت 14.7 روپے آتی ہے جبکہ اس کی اصل لاگت 12 روپے فی یونٹ ہے لیکن بدانتظامی اور کرپشن کی وجہ سے صارفین بجلی کے ہر یونٹ پر 2.7 روپے اضافی ادا کررہے ہیں۔ پانی اور بجلی کے وزیر اور نیپرا کے مطابق بجلی چوری کی مد میں 140 ارب روپے اور سسٹم کے تیکنیکی نقصانات کے باعث 200 ارب روپے سالانہ کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔ نیپرا کے مطابق تیکنیکی نقصانات 16% جبکہ وزارت پانی و بجلی کے مطابق یہ 23% سے 25%تک ہے لیکن ماہرین کا یہ کہنا ہے کہ یہ تیکنیکی نقصانات حقیقتاً 30% تک پہنچ چکے ہیں۔ سسٹم سے 1% تیکنیکی نقصان کو کم کرنے سے 6 ارب روپے کی بچت ہوتی ہے اور حکومت نے آئی ایم ایف سے نئے قرضے لیتے وقت ان نقصانات کو بتدریج کم کرنے اور بجلی کی مد میں دی جانے والی حکومتی سبسڈی کو آئندہ 3 سالوں میں ختم کرنے کا وعدہ کیا ہے۔
بجلی کے نرخوں میں حالیہ اضافے سے یقینا صنعت پر منفی اثرات پڑیں گے اور صنعتوں کی پیداواری لاگت میں اضافہ ہوجائے گا جس سے ہماری مصنوعات کی بین الاقوامی منڈیوں میں مقابلاتی سکت کم ہوجائے گی اور نتیجتاً اس سے ملکی ایکسپورٹس متاثر ہوں گی۔ ایکسپورٹرز عموماً 3 سے 4 ماہ کیلئے موجودہ پیداواری لاگت کی بنیاد پر اپنی مصنوعات کے سودے بیرونی خریداروں سے کرتے ہیں اور انہیں ہر حالت میں ان طے شدہ قیمتوں پر اپنا مال ایکسپورٹ کرنا پڑتا ہے لیکن اس دوران غیر متوقع طور پر بجلی اور گیس کی قیمتیں خاطر خواہ بڑھ جانے کے باعث ان کی پیداواری لاگت بڑھ جاتی ہے جس کے باعث انہیں ان سودوں کی تکمیل پر نقصان کا سامنا کرنا پڑتا ہے بصورت دیگر ایکسپورٹ آرڈر کے معاہدوں کی تکمیل نہ کرنے پر ایکسپورٹرز کی ساکھ متاثر ہوتی ہے۔ ملکی زرمبادلہ کے ذخائر پہلے ہی تیزی سے کم ہورہے ہیں اورہم نے بیرونی قرضوں کی ادائیگی کیلئے آئی ایم ایف سے 5.3 بلین ڈالر کا نیا قرضہ حاصل کیا ہے جو بڑھ کر 7.3 بلین ڈالر تک پہنچ سکتے ہیں لہٰذا زرمبادلہ کے ذخائر اور روپے کی قدر میں کمی کو روکنے کیلئے ہمیں اپنی ایکسپورٹس کو موجودہ 24 بلین ڈالر سالانہ کی سطح سے بڑھانا ہوگا۔ میرے نزدیک بجلی کے نرخوں میں اضافے کے ذریعے بجلی کی مد میں دی گئی حکومتی سبسڈی کو کم کرنا طویل المیعاد بنیادوں پر ایک ناقص حکمت عملی ہوگی۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ اپنے انرجی مکس میں تبدیلی لائے اور 44% فرنس آئل سے مہنگی بجلی پیدا کرنے کے بجائے متبادل ذرائع جس میں ہائیڈرو، کوئلے، ونڈمل، سولر اور نیوکلیئر سول انرجی شامل ہیں سے زیادہ سے زیادہ سستی بجلی پیدا کرکے بجلی کی اوسطاً پیداواری لاگت میں کمی لائے جس کیلئے ہائیڈرو پاور کے اہم منصوبوں دیامیر، بھاشا، داسو اور بن جی ڈیمز کو پایہ تکمیل تک پہنچانا ضروری ہے۔ کوئلے اور ہائیڈرو سے آئندہ 5 سالوں میں بجلی پیدا کرنے کیلئے ہمیں تقریباً 25 سے 30 بلین ڈالر سرمایہ کاری کی ضرورت ہے تاکہ ملک میں بجلی کی طلب اور رسد کا فرق ختم کیا جاسکے۔ بجلی کی کمی کو پورا کرنے کیلئے ہمیں 2018ء تک ہر سال تقریباً 3500 میگاواٹ اضافی بجلی پیدا کرنا پڑے گی۔ یہاں میں اپنی اس بات کا پھر اعادہ کروں گا کہ وزارت پیٹرولیم و قدرتی وسائل اور وزارت پانی و بجلی کو ضم کرکے وزارت توانائی قائم کی جائے۔اس کے ساتھ ساتھ ملک میں صنعتی شعبے میں گروتھ حاصل کرنے اور ملازمتوں کے نئے مواقع پیدا کرنے کیلئے ہمیں آنے والے وقت میں ڈسکاؤنٹ ریٹ میں کمی اور بجلی و گیس کی قیمتوں میں استحکام رکھنا ہوگا لیکن آئی ایم ایف سے نئے قرضے کے معاہدے کی رو سے حکومت کو افراط زر میں کمی کیلئے سخت مالیاتی پالیسی اپناکر ڈسکاؤنٹ ریٹ میں اضافہ کرنا پڑے گا جس سے بینکوں کے قرضوں کے مارک اپ میں اضافہ ہوگا۔ حکومت کو بجلی کی مد میں دی جانے والی سبسڈی ختم کرنے کیلئے بجلی اور گیس کے نرخوں میں مزید اضافہ بھی کرنا پڑے گا جن سے ہماری پیداواری لاگت میں اضافہ ہوگا اور گروتھ اور ایکسپورٹ متاثر ہوگی لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت انرجی سیکٹر میں اصلاحات کرنے کے ساتھ ساتھ ملکی صنعتی شعبے کی گروتھ اور ایکسپورٹس کو متاثر نہ ہونے دے۔ میں ملک میں توانائی کے بحران کے خاتمے کیلئے قومی توانائی پالیسی کا خیر مقدم کرتا ہوں لیکن تمام اسٹیک ہولڈرز کے خدشات کو مدنظر رکھتے ہوئے اس پالیسی پر عملدرآمد ہی حکومت کا اصل امتحان ہوگا۔
تازہ ترین