• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ڈاکٹر محمد اجمل نیازی کو میں نے پہلی بار 1987 میں گورنمنٹ کالج لاہور کے بخاری آڈیٹوریم میں دیکھا تھا۔ تب میں گورنمنٹ ایمرسن کالج ملتان میں بی اے تھرڈ ایئر کا طالب علم تھا۔ یہاں پنجاب بھر کے کالجوں کےطلبہ و طالبات کے درمیان طرحی مشاعرہ تھا۔ میں بھی اپنی بساط کے مطابق ایک غزل لکھ کر لے آیا تھا۔ ڈاکٹر اجمل نیازی اور پروفیسر سعید مرتضیٰ زیدی منصف تھے۔ انعام پانے والوں میں میرا نام بھی شامل تھا لیکن میرے لئے اس سے بڑا انعام یہ تھا کہ یہاں میں نے ان اساتذہ کرام کی پہلی جھلک دیکھی جن کا اس زمانے میں طوطی بول رہا تھا۔ اجمل نیازی کی شخصیت سب سے جدا تھی۔ تب وہ پگڑی کے بغیر تھے۔ لیکن ان کا لباس، چال ڈھال، بول چال اور سرخ وسفید رنگت انہیں دوسروں سے ممتاز کیے ہوئے تھی۔ اس روز جب میں گورنمنٹ کالج کے دروازے سے باہر نکلا تو یہ عہد کرکے نکلا کہ اب لاہور کو ہمیشہ کے لئے اپنا مسکن بنائوں گا۔ 1990 میں ایم اے کی ڈگری ہاتھ میں لے کر مستقل طور پر لاہور آگیا۔ روزنامہ ’’پاکستان‘‘ کے دفتر میں ملازمت کے لئے پہنچا تو حمید جہلمی صاحب نے پہلے ہی دن نیوز روم میں بٹھا دیا۔ میری آرزو تھی کہ ادبی ایڈیشن کا انچارج بن جائوں لیکن تب ڈاکٹر اجمل نیازی اس ایڈیشن کے انچارج تھے۔ اس ملازمت کا ایک فائدہ یہ ہوا کہ ڈاکٹر صاحب سے ہر روز ملاقات ہونے لگی۔ ان دنوں وہ اصلی والے ایف سی کالج میں پڑھاتے تھے۔ کالج سے سیدھے اخبار کے دفتر پہنچ جاتے۔ میگزین سیکشن میں بیٹھ کر اپنا کام کرتے۔ چائے پیتے اور پلاتے۔ دوستوں کو نئے لطیفے سناتے۔ کبھی کبھی دلدار پرویز بھٹی بھی ان کے ساتھ آتے۔ ان کے لطیفے زیادہ قہقہہ آور ہوتے تھے۔ کچھ عرصہ کے بعد اللہ جانے کیا ہوا کہ اخبار کے مالکان ڈاکٹرصاحب سے کسی بات پر خفا ہوگئے۔ ادبی ایڈیشن مجھے دے دیا گیا۔ میں نے چند ایڈیشن نکالے تو مجھ سے بھی شکایتیں پیدا ہوگئیں۔ چنانچہ ایک بار پھر ادبی ایڈیشن ڈاکٹر صاحب کو مل گیا۔ یہ مشق کئی بار ہوئی۔ ہم دونوں کو ایک دوسرے کا حریف بنا دیاگیا۔ ڈاکٹر صاحب مجھ سے کنی کتراتے، میں ان سے نظریں چراتا۔ ایک دن ہم دونوں کو احساس ہوا کہ ہمارے مالکان DIVIDE AND RULE کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں تو ہم دونوں ایک ہوگئے۔ ہم دونوں ایک دوسرے سے تعاون کرنے لگے۔ ہم نے کئی شخصیات کے انٹرویو ایک ساتھ کئے۔ میں انہیں چھاپتا، وہ مجھے چھاپتے۔ ڈاکٹر صاحب تو پہلے ہی شہر کے مشہور آدمی تھے۔ شہر کےبڑے بڑے شاعر اور ادیب مجھے بھی حیرت سے دیکھنے لگے کہ یہ کون نوجوان ہے؟ کہاں سے آیا ہے؟ کس کی سفارش پر آیا ہے؟ جب ان سے میل جول بڑھا تو ان پر کھلا کہ ادب اس نوجوان کا اوڑھنا بچھونا ہے، شاعر ی اس کا عشق ہے اور صحافت اس کا پیشہ نہیں، شوق ہے۔

مجھے ڈاکٹر اجمل نیازی کی بائیک پر بیٹھنے کا موقع بھی ملا۔ کبھی کبھی وہ اپنے ننھے منے بیٹوں احسن اور سلمان کوبھی ساتھ لے آتے۔ یہ دونوں بچے میرے ساتھ ڈھابے پر جاتے، نان چنے کھاتے اور خوش ہوتے۔ ڈاکٹر صاحب نے کچھ عرصے کے بعدایک پرانی کار خرید لی۔ اس کا رنگ سرخ تھا، نمبر 7755 تھا۔ چلتی تھی، اس لئے کار کہلاتی تھی۔ تب ڈاکٹر صاحب ایف سی کالج سے تبدیل ہو کر گورنمنٹ کالج آ چکے تھے۔ ادبی ایڈیشن کی کاپی جڑاتے ہوئے وہ اچانک اپنی گھڑی دیکھتے اور کہتے ’’اوہو! میری کلاس کا وقت ہوگیا ہے‘‘۔جیل روڈ اور مال روڈ کی ٹریفک چیرتے ہوئے وہ گورنمنٹ کالج جا پہنچتے۔ کلاس پڑھاتے اور ایک بار پھر ادبی ایڈیشن کی کاپی جڑوانے میں منہمک ہو جاتے۔کبھی کبھی وہ مجھے بھی اپنے ساتھ گورنمنٹ کالج لے جاتے۔ وہ کلاس پڑھاتے رہتے اور میں بابو خان کے ہاتھ کی بنی ہوئی چائے نوش کرتا رہتا۔ بونس یہ ملتا کہ شعبۂ اردو میں موجود بڑے بڑے اساتذہ کرام کی باتیں سنتا۔ تب وہاں ڈاکٹر سید معین الرحمٰن، ڈاکٹر سلیم اختر، پروفیسر صابر لودھی، پروفیسر اصغر ندیم سید، پروفیسر حق نواز، پروفیسر ڈاکٹر سعادت سعید ہوا کرتے تھے۔

ڈاکٹر اجمل نیازی کی شخصیت اور تحریر دونوں کا ایک اسلوب تھا۔ ان کی شخصیت نہایت رنگ رنگیلی تھی۔ ان میں ایک چلبلا پن تھا جو انہیں سکون سے بیٹھنے ہی نہیں دیتا تھا۔ وہ ہر لمحہ متحرک اور سرگرم رہتے تھے۔ وہ لاہور کی ادبی زندگی کی روح تھے ۔ان کے آنے سے ہر تقریب کامیاب ہو جاتی تھی۔ اپنی شخصیت کی طرح مرصع گفتگو کرتے۔ ان کی نثر ان کی شاعرانہ صلاحیتوں کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اچھے بھلے شاعر تھے لیکن اپنے اندر کے شاعر کو انہوں نے زیادہ سامنے آنے کا موقع نہیں دیا۔

ان کے شخصی اوصاف پر نظر ڈالی جائے تو پتا چلتا ہے کہ وہ ایک دلیر آدمی تھے۔ کسی دوست پر مصیبت آن پڑتی تو خم ٹھونک کر میدان میں آ جاتے۔ جمالی صورت، جلالی کیفیت میں بدل جاتی۔ چہرہ لال بھبھوکا ہو جاتا۔ ایف سی کالج کے ایک پرنسپل سے ناراض ہوئے تو ان کے خلاف محاذ آرا ہوگئے۔ اپنے کالموں میں اس کی خوب خبر لی۔ دوستی نبھانے کا فن انہیں آتا تھا۔ ایک بار ایک پرنسپل نے اردو کے چند پروفیسروں کو بے جا پریشان کیا تو انہوں نے اس پرنسپل کو بھی خوب لتاڑا۔ دوستوں کی پریشانی ان کی اپنی پریشانی بن جاتی تھی۔ جب تک دوستوں کو اس پریشانی سے نہ نکال لیتے، تب تک چین سے نہیں بیٹھتے تھے۔ دوست انہیں جہاں بلاتے پہنچ جاتے۔ کسی کی کتاب کا فلیپ یا دیباچہ لکھنے کی فرمائش کو تو کبھی انکار نہ کیا۔ نوجوانوں سے مل کر خوش ہوتے۔ ڈاکٹر صاحب کے سارے دوست جانتے تھے کہ وہ ناراض بہت جلد ہو جایا کرتے تھے لیکن یہ بھی سچ ہے کہ ان کا غصہ بہت جلد جھاگ کی طرح بیٹھ جاتاتھا۔ ایک بار میں نے ان کی پگڑی کے بغیر کچھ تصویریں سوشل میڈیا پر ڈال دیں تو مجھ سے ناراض ہوگئے۔ دو چار دن گزرے تو معذرت کا فون آگیا۔

ڈاکٹر صاحب نے دنیا کا مال نہیں کمایا۔ البتہ دوستوں کی محبت کو سینت سینت کر رکھتے۔ ان کے آخری دو برس الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا سے دور گزرے لیکن دوست انہیں بھولے نہیں۔ ان کے گھر جاتے رہے، انہیں ہسپتال میں ملنے جاتے، ان کے جنازے میں شریک لوگوں کی تعداد دیکھ کر یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ وہ بہت دولت مند تھے۔

تازہ ترین