• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
خوشیوں کا قتل ہو گیا۔ پھولوں، رنگوں اور خوشیوں کی جگہ خار، آلودگی اور غم آگئے ہیں۔ موت کا موسم ہے زندگی روٹھ گئی شاید … گیتوں، غزلوں اور ماہیوں کی جگہ آہوں سسکیوں اور بینوں نے لے لی ہے۔ وقت کے موسم پر موت کے بادل ہیں۔ بارش کی پھوار، آنسوؤں کی برسات لگتی ہے فضا میں بارود کی بو آتی ہے۔ زندگی موت کی کشتی پر سوار ہے اور کشتی گرداب میں ہے۔ دہشت گردی کا دریا چڑھا ہوا ہے، مددگار سوئے ہوئے ہیں۔ حکمت عملیاں ناکام ہوگئی ہیں پہلے بری حکومت تھی اب حکومت نام کی چیز کو ڈھونڈنا پڑتا ہے۔ قوم خامشی کے قبرستان میں ہے موت کے موسم کی تکلیف وہی گھرانے سمجھ سکتے ہیں جن کے چراغ گل ہو گئے جو کبھی گھروں کو لوٹ کر آنے والوں کا انتظار کرتے تھے اب وہ اپنے پیاروں کا دیدار کرنے کیلئے قبرستانوں کا رخ کرتے ہیں۔ دیار گورستان میں کیسا، وہاں تو بجھے ہوئے چراغ رکھے ہیں۔ کون بتائے کہ جب ایک گھر سے ایک لاش اٹھتی ہے تو کئی انسانوں کی زندگیاں مصائب کے منہ میں چلی جاتی ہیں اچھے بھلے انسان مرجھا جاتے ہیں۔ زندگی ہل کر رہ جاتی ہے۔ روشنی، تاریکی میں بدل جاتی ہے حکمرانوں کو فرصت کہاں کہ وہ ان شہروں کا رخ کرتے جہاں چراغ گل ہو گئے تھے۔ جہاں زندگی موت کے سامنے بے بس ہو گئی تھی نہ کوئی کوئٹہ گیا، نہ کراچی اور نہ ہی پشاور۔ یہی تین شہر ہیں جو کچھ عرصے سے جل رہے ہیں انہی تین شہروں میں صف ماتم بچھی ہوئی ہے۔ یہاں دہشت گردوں کا راج ہے اور حکومت بے بسی کی تصویر کہ
رنگ سے محروم ہر تصویر کر دی جائے گی
رحمن ملک تو پھر بھی بہادر تھا ہر جگہ پہنچ جاتا تھا جہاں دہشت گردی ہوتی تھی رحمن ملک وہاں ضرور پہنچ جاتا تھا مگر اب کے ایسا نہیں، اب تو جائے حادثہ ترستی رہتی ہے کہ کوئی پوچھنے والا ہی آجائے آہوں اور سسکیوں میں دلاسہ دینے والا بھی کوئی نہیں ہوتا۔ ہاں مگر ہرطرف خاموشی ہے۔ جانب داری کے قبرستان سے کوئی آواز نہیں اٹھتی۔ شہر برباد ہو گئے تو جانبداری کے اس قبرستان کو کون بچائے گا۔
عجیب رویہ ہے کہ پہلے سیلاب آیا تو زرداری صاحب ملک سے باہر تھے۔ وہ وزیراعظم بھی نہیں تھے، صدر تھے مگر جمہوری حکومت میں تو وزیراعظم ہی سربراہ حکومت ہوتا ہے اس کے باوجود صدر مملکت پر تنقید کے جتنے تیر کمانوں میں تھے برسا دیئے گئے۔ اس مرتبہ یہ نہ ہو سکا۔ لوگوں کی بستیاں دریا نگل رہے تھے، سیلاب زندگیاں اجاڑ رہے تھے اور صرف یہ بتانے پر اکتفا کیاجارہا تھا کہ فلاں فلاں علاقے زیرآب آگئے۔ لبوں پر قفل رہے کہ حکومتوں کے سربراہ ملک سے باہر تھے ایک طرف سیلاب تباہ کاریاں کرتا رہا دوسری طرف شہروں میں موت رقص کرتی رہی اور قوم خامشی کی تصویر بنی رہی۔
کوئی پالیسی نہیں۔ گزشتہ ساٹھ سالوں سے لوگوں کو جمہوریت کے نام پر بے وقوف بنایا جا رہا ہے غور کریں تو پتہ چلے گا کہ ساٹھ برس سے ایک ہی خاندان حکومت کر رہا ہے۔ ایک حکومت میں ایک رشتہ دار تو دوسری حکومت میں دوسرا رشتہ دار، ماضی بعید کی بات نہیں کرتا۔ ماضی قریب اور حال کی بات کرتا ہوں مثلاً پچھلی حکومت میں چوہدری احمد مختار وفاقی وزیر تھے اب ان کے کزن سردار ایاز صادق اسپیکر قومی اسمبلی ہیں گزشتہ دور میں فاروق نائیک اور سردار سلیم حیدر، وفاقی حکومت کا حصہ تھے اب ان کے رشتہ دار خواجہ آصف اور چوہدری نثار علی خان حکومت کے اہم وزراء ہیں گزشتہ سے پیوستہ حکومت میں وصی ظفر وزیر قانون تھے اب ان کے کزن احسان اقبال منصوبہ بندی کے وزیر ہیں مثالیں تو اور بھی ہیں مگر رہنے دیں۔ بس ایک ہی ٹولہ حکومت کر رہا ہے پاکستان سے دولت لوٹ کر بیرون ملک شفٹ کر رہا ہے کمال ہے اپنا بزنس باہر ہے اور لوگوں سے کہتے ہیں کہ پاکستان میں سرمایہ کاری کرو، آپ کو تحفظ دیں گے۔
تحفظ کا یہ عالم ہے کہ کسی بھی شہر میں کوئی بھی محفوظ نہیں ہے۔ کوئی کسی وقت بھی لٹ سکتا ہے کوئی کسی وقت بھی مر سکتا ہے۔ نہ مارکیٹوں میں خریدار محفوظ اور نہ ہی عبادت گاہوں میں کوئی محفوظ ہے حالانکہ زمانہ جہالت میں بھی عبادت گاہیں جائے امن ہوا کرتی تھیں۔ حیرت ہے کہ ہر طرف کھلی دہشت گردی ہے اور چارہ گر خاموش ہیں۔ مسیحائی کا کوئی راستہ نہیں نکالا جا رہا۔ افغان بارڈر کو سیل کر کے بچا جا سکتا ہے پورے ملک کو اسلحہ فری کر کے موت کو شہروں سے دور کیا جا سکتا ہے مگر اہل سیاست کو چالاکیوں کے علاوہ کچھ آئے تو وہ کریں۔ باقی رہ گئے عوام تو میں کیا کہوں کہ برسوں پہلے عوام کے بارے میں حبیب جالب بہت کچھ کہہ گئے تھے۔
لہو میں نہائی ہوئی عید بڑی افسردہ تھی، عید کے روز بھی بے گناہوں کے جنازے اٹھتے رہے۔ ایک زمانے میں ہمارا معاشرہ بہت خوبصورت تھا۔ ستر کی دہائی تک معاشرے میں گیت تھے۔ خوشیاں تھیں، شاعری تھی، رنگ تھے، معاشرہ لبرل تھا، کسی کی آزادی سلب نہیں تھی، موت وحشت نہیں بنی تھی پھر اس حسین معاشرے کو نظر لگ گئی۔ یہاں ملّاازم کا بھوت سوار ہو گیا۔ نفرت کے بیج بوئے جانے لگے صوبائی لسانی تعصب کے ساتھ ساتھ فرقہ واریت کو اس قدر ہوا دی گئی کہ موت گلیوں میں آبسی۔ گیت رونے دھونے میں بدل گئے فرقہ واریت کی آڑ میں انسانوں کا قتل جائز ہونے لگا۔ لوگ بات کرتے ہوئے ڈرنے لگے ۔ واہ، کیا بدنصیب معاشرہ ہے جہاں جگہ جگہ پر نفرت ہے شہروں سے جنازے کیا اٹھنے لگے محبتوں کا جنازہ اٹھ گیا ہے اور قومجانب داری کے قبرستان میں خاموش ہے۔ فیض صاحب کی دھرتی کے ایک شاعر سرور ارمان کے چار خوبصورت اشعار آپ کے ذوق مطالعہ کیلئے پیش کر رہا ہوں اگرچہ اس معاشرے میں پڑھنے کا نہ زیادہ رواج ہے اور نہ ہی زیادہ شوق۔ جہاں اعلیٰ ترین منصب علم کی بنیاد پر نہیں عمدہ کھانے کی بنیاد پر دے دیئے جائیں وہاں کوئی آواز ایسے ہی ہے جیسے شہر خموشاں میں سے کوئی لب کشائی کرے کہ

پانیوں کا یہ بہاؤ نہیں دیکھا جاتا
ہم سے دھرتی کا کٹاؤ نہیں دیکھا جاتا
ہم سے ہر بار ترے شوق تماشا کیلئے
اسی بستی کا چناؤ نہیں دیکھا جاتا
روئے تاریخ پہ دھبے نہیں دیکھے جاتے
سینہٴ وقت کا گھاؤ نہیں دیکھا جاتا
ہر طرف خون، ہر ایک سمت بلکتے ہوئے لوگ
اب یہ منظر نہ دکھاؤ، نہیں دیکھا جاتا
تازہ ترین