• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
”1947 میں جب میں لاہور آیا تو میرا تعارف ایک خاتون چندر کانتا سے ہواجو فلم میں قسمت آزمانے آئی تھیں۔ ان سے گہرے مراسم کی وجہ سے میرا زیادہ وقت ان کے ساتھ گزرتا تھااور یہ وہ زمانہ تھا جب اکثر لوگ ریستوران یا بار میں شام گزارتے تھے۔ ان دنوں مال روڈ پر ”سٹینڈرڈ“ ریستوران ہوتا تھا جس میں کچھ لوگ آ کر Couples کی شکل میں بیٹھتے تھے۔ میرا بھی وہاں آنا جانارہتا تھا۔ وہاں میں نے دیکھا کہ خواجہ احمد عباس کبھی گیتا بالی کے ساتھ نظر آتے تھے اور کبھی ایک کرسچن لڑکی کے ساتھ جو اس وقت کے مشہور مزاحیہ اداکار مجنوں کی بہن تھی۔ اس خاتون کا نام اب مجھے یاد نہیں۔ یہ اکثر ان دو کے ساتھ پائے جاتے تھے۔ پھر دیکھاکہ گیتا بالی غائب ہوگئی اور وہ کرسچن خاتون ہی صرف ان کے ساتھ دکھائی دینے لگی۔ خواجہ احمد عباس اصل میں تو کاروبار بمبئی میں کرتے تھے لیکن ایک پروگریسو فلم کی تکمیل کے لئے لاہور آئے ہوئے تھے۔ فلم کا نام ’آج اور کل“ تھا۔ یہ فلم لاہور میں بن رہی تھی اور خواجہ صاحب کی ٹیم میں اس وقت کے پڑھے لکھے لوگ موجود تھے مثلاً میوزک ڈائریکٹر خورشید انور تھے۔“
”قیام پاکستان سے پہلے بزرگوں میں جس شاعر کی شراب نوشی کا سب سے زیادہ چرچا تھا وہ جگر مرادآبادی تھے۔ میں نے انہیں اس حالت میں کبھی نہیں دیکھا لیکن ان کی داستانیں سنتا رہا اور جب ان سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا تو وہ ترک بادہ کرچکے تھے۔ ان کے علاوہ اختر شیرانی کا بہت چرچا تھا۔ پھرمجاز لکھنوی بھی اس کے لئے بہت مشہور تھے۔ ادھر جو لوگ تھے ان میں الطاف مشہدی، مجید لاہوری، حاجی لق لق اور عبدالحمید عدم اس سلسلہ میں بہت مشہور تھے۔“
”صوفی تبسم صاحب کاگھر جب سمن آباد منتقل ہوا تو اس وقت ان کے گھر خاص رونق ہوتی تھی۔ ان کی محفل میں جو لوگ شامل ہوتے تھے وہ اپنا اپنا سامان ساتھ لے کر آتے تھے اور مل کر امریکن سسٹم کے طرز پر چیزیں مہیا کرتے تھے۔ صوفی صاحب وہاں اپنے ہاتھوں سے سب کے لئے پکوڑے بناتے تھے اورکبھی کشمیری کھانے بھی اور یہ سلسلہ صوفی صاحب کی وفات تک چلتا رہا۔ صوفی صاحب میں پینے کے بعد اور تو کوئی خاص تبدیلی نہیں آتی تھی صرف یہ کہ وہ ماضی سے لے کر حال تک کی کچھ باتیں بڑے دلچسپ پیرائے میں سناتے تھے اور اگر ذرا زیادہ موڈ میں ہوتے تو ساتھ بیٹھے ہوئے شخص کوگاؤ تکیہ سمجھ کر اس پر کہنی ٹیک کر عشقیہ شاعری شروع کردیتے۔ اس سے ذرا آگے بڑھتے تو اس ”گاؤتکیئے“ پر سر ٹکاکر سو بھی جاتے۔“
”کنور مہندر سنگھ بیدی اصل میں چک بیدیاں ضلع ساہیوال کے رہنے والے ہیں۔ ہم نے افسانوں داستانوں میں سن رکھا تھا کہ اگلے وقتوں میں بعض رئیسوں کے دروازوں پر ہاتھی جھولتے تھے لیکن کنور صاحب کے دروازے پر واقعی ہاتھی جھولتا تھا جو ان کے پاکستان سے جانے کے بعد چڑیا گھر بھیج دیا گیا۔ یہ مادہ ہتھنی تھی جس کا نام بینظیر تھا۔ بیدی اس سلسلہ میں سناتے ہیں کہ کافی عرصہ بعد جب میں پاکستان آیا اور لاہور کے چڑیاگھر گیا تو ہتھنی کے کھانے کے لئے بہت سی چیزیں ساتھ لے گیا۔ جب میں وہاں پہنچا تو یہ دوسری طرف دیکھ رہی تھی۔ میں نے آواز دی … ”بینظیر“ تو ہتھنی نے چاروں طرف دیکھا۔ میں نے دوبارہ آواز دی تو فوراً سیدھی میرے پاس آئی اور میں نے اسے چیزیں کھلائیں۔ پھر جب میں رخصت ہوا تو وہ بہت چنگھاڑی۔“”اس کے بعد یہ ہوا کہ ”نقوش“ والے مرحوم طفیل صاحب مجھ سے دو ووٹ زیادہ لے کہ رائٹرز گلڈ کے سیکرٹری منتخب ہوگئے۔ مرحوم شروع سے ہمارے دوست اور ساتھی تھی لیکن انہوں نے یہ الیکشن بالکل سیاسی انداز میں لڑا اور اس پر ان کے کم از کم 50ہزارخرچ ہوئے۔ وہ ووٹوں کے لئے جہاز میں بیٹھ کر پشاور، کراچی اورکوئٹہ بھی جاتے تھے اور گورنر سے سفارش بھی کرواتے تھے۔ اس طرح وہ اپنے زمانے کے بالکل نوازشریف تھے۔“”حفیظ جالندھری اور احسان دانش، یہ دونوں ہمارے شاعر اسلام ہیں۔ ہم نے سینکڑوں مشاعرے ایک ساتھ پڑھے ہیں لیکن میں نے کسی جگہ ان دونوں کو نماز پڑھتے نہیں دیکھا۔ میں نے اپنے معتبر ساتھیوں سے بھی پوچھا کہ شاید میری نظر سے یہ واقعہ نہ گزرا ہو لیکن جب بھی میں نے کسی سے سوال کیا کہ آپ نے کبھی انہیں نماز پڑھتے دیکھا ہے؟ تو سب کا جواب نفی میں تھا۔ میں کبھی کبھی یہ سوچتا ہوں:
ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ
دیتے ہیں دھوکا یہ بازیگر کھلا
”میری زندگی کا جو تجربہ ہے اس میں، میں نے مذہب کا نام لے کر واقعی خدا کا خوف رکھنے والوں کو بہت کم دیکھا ہے۔ میرے مشاہدے میں اکثر ایسے لوگ آئے ہیں جو خدا کو خوش کرنا چاہتے ہیں اور کرتے بھی ہوں گے لیکن میں نے ان میں خدا کے بندوں کو خوش کرنے والا نہیں دیکھا۔“
اور اب کچھ تصویروں کے کیپشنز کہ ان میں سے اکثر چہرے خود ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ”تصویر“ بن چکے۔
”قتیل شفائی، فیض احمد فیض#، حبیب جالب“
”اداکار محمد علی، مہدی حسن اور قتیل شفائی“
”بیماری میں احمد ندیم قاسمی کے ہمراہ“
”طفیل ہشیارپوری اور قتیل شفائی“
”مصور ایف ایم حسین کے ساتھ“
”خوشونت سنگھ اور اندرجیت کے ساتھ“
”دلیپ کمار، نوید قتیل،قتیل شفائی، صفدر میر اور احمد بشیر“
”احمدراہی کے ساتھ“
”بمبئی میں دیوآنند کے ساتھ“
”موسیقار خواجہ خورشید انور کے ساتھ“
”کنور مہندرسنگھ بیدی، قتیل شفائی اور احمد ندیم قاسمی“
”ممتاز شاعر،ادیب، فلمساز اور ہدایتکار گلزار کے ساتھ“
”محسن احسان، قتیل، احمد فراز اور خاطر غزنوی“
قارئین!
یہ عید میں نے عہدساز نغمہ نگار قتیل شفائی مرحوم و مغفور کی آپ بیتی ”گھنگھرو ٹوٹ گئے“ کے ساتھ گزاری۔ پہلی بار میں وارفتگی میں تیزی کے ساتھ یہ طلسم ہوشربا پڑھ گیا، اب دوسری بار دھیمے دھیرے پڑھی تو سوچا چند اقتباسات آپ کے ساتھ شیئر کروں کہ اس آپ بیتی میں بین السطور بھی بہت کچھ ہے۔
تازہ ترین