• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آپ نے وتایو فقیر کا نام سنا ہے؟ فقیر سے مراد بھکاری نہیں ہے۔ فقیر سے مراد ہے صوفی، درویش، سنت، دنیاداری سے بے نیاز، سنا ہے آپ نے وتایو فقیر کا نام؟ وہ غیر ملکی نہیں تھا، یہیں کا تھا، سندھ کا رہنے والا تھا نہیں سنا ہے نا آپ نے وتایو فقیر کا نام! سنتے بھی تو کیسے سنتے۔ مشرقی پاکستان چوبیس برس پاکستان کا ایک صوبہ تھا، اس ملک کا حصہ تھا۔ مغربی پاکستان کے چار صوبوں پنجاب، سندھ، خیبر پختونخوا اور بلوچستان کی ملی جلی اراضی یعنی رقبے اور آبادی میں بڑا تھا۔ 20 برس تک ہمارے ساتھ رہنے کے باوجود ہم نہیں جانتے کہ مشرقی پاکستان کے بڑے شاعر کون تھے؟ ان کے بڑے افسانہ نگار کون تھے؟ ناول نویس کون تھے؟ پینٹر کون تھے، مجسمہ ساز کون تھے؟ کوریوگرافر کون تھے؟ موسیقار کون تھے؟ مشرقی پاکستان کے صوفی بزرگ کون تھے؟ درویش کون تھے؟ ہم لوگ یعنی مغربی پاکستان کے لوگ نہیں جانتے تھے کہ مشرقی پاکستان سے کتنے اخبار کتنی تعداد میں چھپتے ہیں۔ کتنی کتابیں شائع ہوتی ہیں! ان میں کیا لکھا ہوتا تھا؟ وہ اپنے غم غصے اور ہم سے اپنی ناراضی کا اظہار کیسے کرتے تھے؟ ہم کچھ نہیں جانتے تھے۔ ان کے دکھ کیا تھے۔ ان کی شکایتیں کیا تھیں؟ ہمیں کبھی جاننے کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی تھی۔ دسمبر1971ء میں دنیا کے نقشے سے مشرقی پاکستان غائب ہوگیا۔ اس کی جگہ دنیا کے نقشے پر ابھر آیا، ایک نیا ملک، بنگلہ دیش۔ کسی کو اس بات کا دکھ نہیں تھا کہ پاکستان ٹوٹ گیا تھا اور مشرقی پاکستان خود مختار ملک بنگلہ دیش کے نام سے وجود میں آچکا تھا۔ اگر کسی کو دکھ تھا تو اس بات کا تھا کہ ہم نے جنگ کیسے ہاری! مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی پروا کسی کو نہیں تھی۔ ہم نے کئی لوگوں کو یہ کہتے ہوئے سنا تھا ”چلو اچھا ہی ہوا، بنگالیوں سے جان چھوٹی“۔
وتایو فقیر کے بارے میں کچھ سنانے سے پہلے میں آپ کو ایک ایسی بات بتانا چاہتا ہوں جو ممکن ہے کہ پہلے کبھی آپ نے سنی نہ ہو۔ قانونی بات ہے ذرا غور سے سنیے گا اور بعد میں حیران ہوئے گا۔ 1970ء کے انتخابات کے نتیجے میں1971ء میں پاکستان ٹوٹ گیا یعنی اپنے وجود میں آنے کے چوبیسویں برس پاکستان ٹوٹ گیا۔ الیکشن کے نتائج میں مغربی پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو کی پاکستان پیپلز پارٹی اکثریتی پارٹی کے طور پر ابھر آئی تھی اور مشرقی پاکستان میں شیخ مجیب الرحمن کی عوامی لیگ میجارٹی پارٹی کے طور پر سامنے آئی تھی۔ قومی اسمبلی میں عوامی لیگ نے پاکستان پیپلز پارٹی سے زیادہ سیٹیں حاصل کرلی تھیں مگر اس سے پہلے کہ قومی اسمبلی کا اجلاس ہوتا، آئین سازی کی ابتدا ہوتی، پاکستان ٹوٹ گیا۔ شیخ مجیب نے مشرقی پاکستان کو نیا نام بنگلہ دیش دیکر علیحدہ ملک بنالیا، ذوالفقار علی بھٹو نے مغربی پاکستان کے نام سے لفظ مغربی خارج کردیا یعنی نکال دیا اور مغربی پاکستان کو پاکستان کا نام دیا۔ چونکہ 1970ء کے الیکشن میں پیپلز پارٹی نے واضح اکثریت حاصل کی تھی لہٰذا ذوالفقار علی بھٹو نئے، چار صوبوں والے پاکستان کا وزیراعظم بن بیٹھا، اسی طرح 1970ء کے الیکشن میں واضح برتری حاصل کرنے کی بنا پر شیخ مجیب الرحمن سابقہ مشرقی پاکستان بنام بنگلہ دیش کا وزیراعظم بنا، دونوں کی تقرری غیر قانونی تھی۔ اس بات میں قانونی نکتہ یہ ہے کہ 1970ء کے الیکشن پاکستان میں ہوئے تھے۔ الیکشن کے نتائج سے پیدا ہونے والے گمبھیر مسائل اور خونریزی کی وجہ سے پاکستان ٹوٹا تھا۔ پاکستان کے ٹوٹتے ہی 1970ء کے الیکشن کے نتائج خود بخود کالعدم ہوگئے تھے، ختم ہوگئے تھے۔ اپنی قانونی حیثیت کھو بیٹھے تھے۔ ایم این اے، ایم این اے نہیں رہے تھے۔ ذوالفقار علی بھٹو کو مینڈیٹ مغربی پاکستان سے ملا تھا۔ نئے پاکستان میں الیکشن کرائے جاتے لیکن ایسا نہیں ہوا۔ بھٹو نے کالعدم الیکشن کے نتائج جائز قرار دیتے ہوئے اسمبلی کا اجلاس بلوایا اور وزیراعظم بن بیٹھا لہٰذا نئے پاکستان کی پہلی اسمبلی غیر قانونی تھی۔ اس اسمبلی کے بنائے ہوئے قوانین کی کوئی قانونی حیثیت نہیں بنتی۔ اسی غیر قانونی اسمبلی نے نئے پاکستان کو متفقہ آئین دیا جس کے جائز ہونے کے بارے میں شکوک و شبہات نظر انداز کرنا تاریخ کی نفی ہے۔
نفس کی بالادستی نے انسان کو اس دنیا میں خوار اور خراب کردیا ہے۔ انسان کو رسوا اور ذلیل کردیا ہے۔ انسان کو گمراہ اور بد راہ کردیا ہے۔ نفس کو اچھے اچھے ملبوسات، طرح طرح کے طعام چاہئیں، عیش و عیاشی چاہئے، عیش و عیاشی کے لئے بے انتہا دولت چاہئے، طاقت چاہئے، بنگلے کوٹھیاں، موٹر گاڑیاں، جہاز چاہئیں، بیرون ملک بینکوں میں اربوں ڈالر یورو اور پاؤنڈ چاہئیں، نفس کی خواہشوں کے آگے روحانیت دم توڑ دیتی ہے۔ روحانی فیض تخت نشینوں کو نہیں، خاک نشینوں کو نصیب ہوتا ہے۔ ہر آنے والے سال میں ہم ماہ رمضان کے دوران نفس کی خوب خاطر تواضع کرتے ہیں۔ اسے کھلا پلا کر اس قدر بدمست کردیتے ہیں کہ نفس سال بھر ہمیں تگنی کا ناچ نچاتا رہتا، مگر سنت صوفی درویش فقیر بدمست نفس کو نکیل ڈال دیتے ہیں۔ اسے اپنے تابع کرلیتے ہیں، نفس کو سر اٹھانے نہیں دیتے۔
وتایو فقیر صوفی، درویش تھے، نفس کو نیچا دکھانے کے لئے وہ طرح طرح کی تدابیر اپناتے تھے۔ دسترخواں پر مختلف اقسام کے طعام سجائے گئے ہیں، مشروب ہیں، مٹھائیاں ہیں، پھل ہیں، وتایو فقیر نفس سے مخاطب ہوئے ہیں۔ بتا نفس تجھے کیا کھانا ہے، تجھے کیا پینا ہے؟ دیکھ لینا دنیا بھر کے طعام تیرے آگے سجے ہوئے ہیں۔ مشروب ہیں، پھل اور مٹھائیاں ہیں، بتا تجھے کیا چاہئے“۔
وتایو فقیر جیب سے سوکھی روٹی کا ٹکڑا نکالتے۔ پانی میں بھگو کر نوالہ منہ میں ڈالتے اور کہتے ”کھا میرے نفس کھا، اس سے لذیذ کھانا تونے آج تک نہیں کھایا ہوگا،کھا سوکھی روٹی کھا“۔ایک روز نفس نے وتایو فقیر سے کہا ”عید آنے والی ہے، تو مجھے قیمتی کپڑے پہنا“۔
وتایو فقیر قیمتی ملبوسات لے آیا اور ویرانوں کی طرف نکل پڑا۔ راستے میں اسے مسکین پھر چرواہا ملا، وتایو فقیر نے ایک لباس چرواہے کو دے دیا۔ نفس چیخ پڑا ”یہ کیا کررہے ہو وتایا“۔ وتایو نے اسے جواب نہیں دیا۔ ویرانوں کی طرف جاتے ہوئے اسے جو بھی خستہ حال ملا اسے ایک جوڑی لباس دیتا گیا۔ حتیٰ کہ وتایو فقیر کے پاس کپڑوں کی صرف ایک جوڑی رہ گئی جو اس نے پہن لی۔ نفس نے ہنس کر کہا ”میں سمجھ رہا تھا تم کپڑوں کی آخری جوڑی بھی کسی غریب غربے کو دے دو گے، چلو تم نے میری ایک خواہش تو پوری کی“۔
نفس کی بات سن کر وتایو فقیر رک گیا۔ اس نے ادھر ادھر دیکھا۔ اے پھٹے پرانے کپڑوں میں ایک مجذوب دکھائی دیا۔ وتایو نے اپنے تن سے قیمتی لباس اتارا اور مجذوب کو پہنا دیا اور مجذوب کے پھٹے پرانے کپڑے خود پہن لئے۔
تازہ ترین