• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
میں ڈاکٹروں کے معاملہ میں دہریہ ہوگیا ہوں۔ ان کی کسی بات پر اعتبار نہیں رہا، جس کے پاس جاؤ ایک نئی کہانی سنا دیتا ہے۔ کوئی دو معالج کسی ایک تشخیص پر متفق ہی نہیں ہوتے۔ بات یہ تھی کہ اسے خوار ہوتے کئی دن گزرگئے تھے۔ آج اِس ڈاکٹر کے کلینک پہ، کل اُس کے۔ بات ایک دو دن کی نہیں، ہفتوں مہینوں کی تھی۔ بڑے بڑے نامی گرامی ،اسپیشلسٹ ڈاکٹروں سے مشورہ کرنا ، بھاری بھاری فیس ادا کرنا۔ مسئلہ ہی ایسا تھا۔ مریض کی حالت دن بہ دن بگڑتی جا رہی تھی۔ دوائیں صبح شام ، ڈھیر ساری، فائدہ کوئی نہیں۔ کوئی بھی ڈاکٹر مرض کی صحیح تشخیص نہیں کر پا رہا تھا۔ ایک کچھ کہتا، دوسرا کچھ۔ آدمی کرے تو کیا کرے ۔ اِس کو دکھاؤ، اُس کو دکھاؤ۔ دکھادیا۔ پھر؟ معاملہ تووہیں کا وہیں رہا۔ ایک دن جب حالت زیادہ خراب ہوئی تو ایک اسپتال کے ایمرجنسی وارڈ میں لے گئے۔ اس سے پہلے کے چند دن بہت مشکل میں گزرے تھے۔ شدید تکلیف کی حالت میں ان کے پرانے معالج سے رجوع کیا تھا۔ وہ بہت عرصہ سے اُن کا علاج کر رہے تھے۔ سوچا شاید اس حالت میں مرض کی صحیح تشخیص ہو سکے۔ انہوں نے دیکھا، دواؤں میں کچھ ردوبدل کردیا۔ مگر رات کا بیشتر حصّہ اُسی تکلیف میں گزرا۔ بالآخر اسپتال لے جانا پڑا۔ وہاں ایمرجنسی وارڈ میں ڈاکٹر نے دیکھتے ہی کہا ان کے پھیپھڑوں میں پانی بھر گیا ہے، ایکسرے نے اس کی تصدیق کردی۔ رات کے اس مرحلہ میں وہ ایک جونیئر ڈاکٹر اپنے ڈیوٹی انجام دے رہا تھا۔ کام سے اسے دلچسپی تھی، خدا اس کا بھلا کرے۔ مریضہ دو دن اسپتال میں رہی۔ معاملہ صحیح تشخیص کا تھا، اور کام سے دلچسپی کا۔
یونہی، یہ ذاتی سی واردات ایک محفل میں بیان کردی۔ لگا سب بھرے بیٹھے ہیں۔ ہر ایک کے پاس اس کا اپنا تجربہ تھا، اپنا دکھ، شکایتوں کا ایک پلندہ۔والد صاحب علیل ہو گئے ۔ان کے جسم میں خون مسلسل کم ہو رہا تھا۔ہرہفتے یا دوسرے ہفتے دو بوتل خون انہیں دیا جاتا۔ایک دودرجن ڈاکٹروں کو دکھایا۔اس میں کوئی مبالغہ نہیں ہے۔جب گنا تو شاید تیرہ یا چودہ ڈاکٹر تھے مشورہ دینے والے۔خون کی بیماری کے ایک خصوصی اسپتال میں بھی دکھایا۔ مرض کا پتہ نہیں چل سکا، آٹھ ماہ وہ بے چارے بڑے بڑے ڈاکٹروں کی ،معاف کیجئے گا، نااہلیوں کا عذاب جھیلتے رہے۔ ایک جنرل پریکٹیشنر سے مشورہ کیا،اُس نے کہا کینسر ہے۔الٹراساؤنڈہوا۔ایک دوسرے ڈاکٹر کو فون کیافرمایااُسے تو الٹراساؤنڈپڑھنا بھی نہیں آتا۔بات مگر پہلے ہی ڈاکٹر کی ہی درست تھی۔
محفل میں سب ہی دوست تھے،سب ہی کے ساتھ یا گھر میں ،کسی کو کبھی نہ کبھی کوئی مرض لاحق ہو ہی جاتا ہے۔ ڈاکٹروں کے کلینک کے چکّر سب نے ہی لگائے ہوئے تھے، تجربہ اُن سب کا بھی تلخ ہی تھا۔ایک عزیز دوست کی اہلیہ کی آنکھ میں کوئی مسئلہ ہو گیا۔اللہ انہیں صحت یاب کرے۔بہت عزیز ہیں۔ مختلف ڈاکٹروں کے تجربوں کا نشانہ بنتے بنتے ایک بڑے اسپتال کے ایک’ ڈاکٹر ِ اعظم ‘کے پاس لے جائی گئیں ۔ڈاکٹر صاحب جتنے بڑے ہیں اتنے ہی مہنگے بھی۔ ان کے ہاتھ ایک دوا لگ گئی ہے۔ ہے تو وہ ذیابیطس کے مریضوں کے لئے۔جن کی بصارت بہت متاثر ہو جائے اس دوا کا ایک انجکشن مہینے ڈیڑھ مہینے کے لئے بینائی بہتر کردیتا ہے۔مطب میں مریضوں کی ایک لمبی لائن لگی ہوتی ہے،ساٹھ ستر ہزار روپے ایک انجکشن کے لیتے ہیں ۔تیس سیکنڈ کا کام ہے، ایک منٹ سے زیادہ کا بہرحال نہیں۔ (سنا ہے ستّر پچھتّر لاکھ روپے ماہانہ کماتے ہیں۔ انکم ٹیکس والوں نے نوٹس بھیج دیا تھا، اسپتال بڑا ہے، تعلقات بھی بہت، بچا لیا) کئی ماہ بعد پتہ چلا خاتون کی آنکھ میں اسٹیرائڈ لگا رہے تھے۔ اخلاق کا تقاضا ہے کہ اسٹیرائڈ لگانے سے پہلے مریض کو بتایا جائے۔ اس کے مضر اثرات بہت ہیں۔ انہوں نے زحمت نہیں کی بتایا ہی نہیں، بس تختہ مشق بناتے رہے،خاتون بھی متاثر ہوئیں۔
توجہ سے سب سن تو رہے تھے مگربے چین، اپنی بیتی سنانے کے لئے۔بیگم صاحبہ بیمار ہو گئیں۔علاج چلتا رہا۔حالت ایک دن زیادہ بگڑ گئی۔گھر والوں کو اندازہ ہی نہیں ہو رہا تھامسئلہ کیا ہے۔گردے کے ڈاکٹر کے پاس لے گئے۔خوب دیکھ بھال کر انہوں نے کہا گردوں کا کوئی مسئلہ نہیں ہے،انہیں فوراًدل کے ڈاکٹر کو دکھائیں ۔بھاگم بھاگ امراضِ قلب کے ڈاکٹر کے پاس پہنچے۔انہوں نے بھی دیکھا بھالا ،کہا دل کا کوئی مسئلہ نہیں ہے، گردے کے ڈاکٹر کے پاس لے جائیں ۔یہ بتانا بھی کوئی کام نہیں آیا کہ گردے کے ڈاکٹر کے پاس سے ہی آرہے ہیں ۔اس بات سے بھی انہوں نے اتفاق نہیں کیا کہ اسپتال میں داخل کرادیں۔ اگلی ہی صبح امراضِ قلب کے ایمرجنسی وارڈ میں وہ مریضہ کا معائنہ کر رہے تھے۔ڈھائی دن بعد انہوں نے کہا ایسی جگہ لے جائیں جہاں ایک ہی جگہ دل اور گردے کا علاج ہو سکے۔طب کے ان ملاؤں نے ایک مریض کی جان عذاب کردی تھی۔مریضہ تیس دن ایک دوسرے اسپتال کے آئی سی یو میں رہیں ۔ حالت اتنی بگڑ چکی تھی، ڈاکٹرمعلوم ہی نہیں کر سکے۔
قصّے ہی قصّے۔ ہر ایک کے پاس۔عمر کے اس حصّے میں آدمی کو کئی مرض لگ جاتے ہیں۔ بزرگوں کا معاملہ اور بھی خطرناک۔ گر پڑ جائیں تو زندگی عذاب۔ والدہ کے ساتھ یہی ہوا۔ گر پڑیں، ایک ہڈی میں ہلکا سا بال آگیا۔ کوئی پریشانی سی پریشانی تھی۔ ہڈیوں کے دو بڑے ڈاکٹروں نے کہا فوری آپریشن کرائیں۔ ایک نے کہا کوئی ضرورت نہیں۔ ایک اسکیل منگایا، بچّوں کے استعمال کا ’فٹا‘، پیر کو سیدھا رکھنے کے لئے ایڑی اور پنجے پر پلاسٹر کیا، کہا جائیں، پندرہ دن بعد دکھا دیجئے گا۔ اب وہ ماشاء اللہ مزے سے چلتی پھرتی ہیں۔ وہ ’ماہر‘ ڈاکٹر درست مشورہ کیوں نہیں دے پائے؟ یا دینا نہیں چاہتے تھے؟ ان کا کاروبار ہی اسی طرح چلتا ہے۔ جیبیں یونہی تو نہیں بھرتیں۔
جسم کے بہت سے اعضاء، بہت سے کیا، سب ہی اعضاء رفتہ رفتہ کمزور پڑتے جاتے ہیں۔کچھ عمر کا تقاضا،کچھ لاپر وائیاں اور کچھ آج کل کی ملاوٹی غذا۔کسی کا دل متاثر کسی کا گردہ۔ دل کے ڈاکٹروں کے قصّے بھی بہت،گردے کے ڈاکٹروں کے بھی۔ہر ایک کی اپنی داستان تھی۔گردے کی صفائی کے لئے ڈائیلیسز جدید طریقہ ہے۔بہت سی مشکلات دور ہو جاتی ہیں، جس نے یہ طریقہ ایجاد کیا اسے اللہ اجردے گا۔جو مریضوں کو یہ سہولت فراہم کرتے ہیں انہیں اس کا صلہ ملے گا۔مگر بات محفل میں شریک ایک صاحب کی کچھ اور تھی۔ان کی بیگم کے ہاتھ میں ڈائیلیسز کے لئے ایک آپریشن کرایا گیا۔
Festula بنانا خاصا باریک کام ہے،مہنگا بھی، بن گیا اور یہاں کراچی کے ایک اسپتال میں ڈائیلیسز ہوتا رہا۔اتفاق کہ وہ اسلام آباد چلی گئیں۔وہاں ایک بڑے اور ظاہر ہے مہنگے اسپتال میں ڈائیلیسز شروع ہوا۔ دو تین بار ہی ہوا تھا کہ ڈاکڑوں نے نوید سنائی،فیسٹیولا خراب ہو گیا ہے۔علاج؟ایک ڈاکٹر نے کہا آپریشن سے ٹھیک ہو جائے گا۔دوسرے نے کہا نا ممکن۔ایسا ہوتا ہی نہیں،دوسرے ہاتھ پر نیا بنے گا۔مگر اُس ڈاکٹر نے تو کہا ہے،کہا ہوگا۔ہم نے تو نہیں دیکھا۔
کسی بھی محفل میں، دوستوں کے ساتھ گپ شپ میں، کہیں بھی، آپ کسی اسپتال،کسی ڈاکٹر کا قصہ چھیڑدیں۔ہر شخص کے پاس ایک کہانی ہے،زیادہ بھی ہوتی ہیں۔گھر میں زیادہ لوگ ہوں تو ان میں سے کئی ان مشکلات کا شکار رہے ہوں گے۔اصل مشکل مریضوں کی ہے ڈاکٹر مرض کی صحیح تشخیص کیوں نہیں کر پاتے۔ہر ڈاکٹر اپنی اپنی کہانی سناتا ہے ، دوسرے سے مختلف ۔ بھائی اب توجدید دور ہے۔ہر قسم کے ٹیسٹ ہوتے ہیں۔ان سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ مرض کیا ہے، وجوہات کیا ہیں۔ ڈاکٹروں کو یہ بات سمجھ میں کیوں نہیں آتی حالانکہ ٹیسٹ وہ خود کراتے ہیں، بہت سے۔ پھر وہ صحیح تشخیص کیوں نہیں کر پاتے ؟یہ کیا کہ ہر ڈاکٹر کی رائے دوسرے سے مختلف،اکثر بالکل ہی مختلف۔
مریض بے چارہ کبھی اِس کی سنتا ہے کبھی اُس کی۔اکثر اُس کی بیماری بگڑتی ہی رہتی ہے۔والد صاحب کینسر کی تشخیص کے بعد تین ہفتے زندہ رہے۔آنکھ کی مریضہ چھ ماہ ایک دوسرے ڈاکٹر سے علاج کرائیں گی پھر طے ہو گا کہ اسٹیرائڈ کی پیدا کی ہوئی خرابی کس حد تک کم ہوئی ہے۔ باقی علاج بعد میں۔ فیسٹیولاپتہ نہیں بنے گا یا نہیں۔آپ کے آس پاس آپ نے بھی دیکھا ہوگا،سب ہی دیکھتے ہیں،ہر جگہ ڈاکٹروں کی کہانیاں،لاپروائیوں کی داستانیں عام ہیں۔ ان کا کوئی علاج ہے؟
حکومت کی کوئی ذمہ داری ہے؟ کسی ادارے کے پاس عام آدمی کے درد کا کوئی مداوا ہے؟ کوئی اس کی دادرسی کرسکتا ہے؟ کہتے ہیں ڈاکٹروں کی کوئی انجمن بھی ہے۔کوئی ایک ادارہ بھی ہے جو ان کی نگرانی کرتا ہے، اچھا؟ ایسا ہے کیا؟
تازہ ترین