• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بدقسمتی سے پاکستان میں معاشی گفتگو قطبی، زہریلی اور متعصبانہ ہو چکی ہے۔ اگر کوئی نتیجہ سازگار ہے تو حکومت اس کا پوری تندہی سے دفاع کرتی ہے لیکن حزب اختلاف کی طرف سے اسے مشکوک اور منفی انداز میں پیش کیا جاتا ہے۔ چند ایک قابل احترام ماہرین کو چھوڑ کر زیادہ تر معاشی ’’ماہرین‘‘ اور مبصرین دوٹوک انداز میں دونوں میں سے کسی ایک کے موقف کے ساتھ جڑے دکھائی دیتے ہیں۔ غیر جانبدار اور معروضی تجزیہ کاروں سے گریز کیا جاتا ہے کیونکہ وہ ریٹنگ کے لئے کوئی بھڑکیلی بات نہیں کرتے۔ سوشل میڈیا خاص طور پر بعض وی لوگراور ٹویٹر من گھڑت معلومات پھیلانے کا ایک مقبول ذریعہ بن چکے ہیں۔ اور یہ پلیٹ فارم حکومت کے لئے بھی موزوں ہیں اور حزب اختلاف کے لئے بھی۔ ناظرین حیران ہیں کہ اصل صورت حال کیا ہے۔ ایک ہی نوع کےحقائق کی جانب دارانہ، من پسند اور بعض اوقات مبہم تشریح مارکیٹ کے رجحانات پر اس طرح اثر انداز ہوتی ہے کہ اُن کا اندازہ لگانا ناممکن ہوجاتا ہے۔ اس کا بمشکل ہی احساس کیا جاتا ہے کہ کسی خاص وقت کے معاشی نتائج کو کسی بھی سیاسی حکومت سے منسوب نہیں کیا جا سکتا چاہے وہ اقتدار میں ہو یا اس سے پہلے اقتدار میں رہی ہو۔ یہ نتائج محض حکومتی پالیسیوں کا نتیجہ نہیں بلکہ عالمی معاشی حالات، فیکٹر اینڈومنٹس، نجی شعبے کا ردعمل، ماضی کی سرمایہ کاری اور ماضی کے پالیسی فیصلوں سے حاصل ہونے والی بہتری یا مایوسی، موجودہ عوامی پالیسیوں اور انتظام کے معیار کے پیچیدہ باہمی تعلق کا اظہار ہوتے ہیں۔ حکومت کسی بھی وقت جی ڈی پی کے 20 فیصد سے زیادہ کو براہ راست کنٹرول نہیں کرتی ہے جبکہ 80 فیصد نجی شعبے کے زیر کنٹرول ہے۔ ہاں یہ سچ ہے کہ حکومت اپنے پالیسی موقف، ضوابط، ٹیکس اور بنیادی ڈھانچے کی فراہمی اور انسانی سرمائے کے ذریعے نجی شعبے کے ردعمل کو متاثر کرتی ہے۔ ریاستی ملکیت میں چلنے والے اداروں (SOEs) کے علاوہ زیادہ تر فارمز، فرمیں اور کاروبار نجی شعبے سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس لئے ان کے سوچنے اور فیصلہ کرنے کے طریقے بھی اتنے ہی اہم ہیں۔بیرونی حالات بھی اہم ہیں کیونکہ سامان اور خدمات کی درآمدات اور برآمدات، کارکنوں کی ترسیلاتِ زر، براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری اور خالص بیرونی مالیاتی بہاؤ جی ڈی پی کے نصف سے زیادہ ہیں۔ لہٰذا عالمی معاشی حرکیات، بین الاقوامی تجارت، مالیاتی منڈیاں اور ہجرت داخلی معاشی نتائج پر بہت زیادہ اثرات مرتب کرتی ہیں۔ سرمائے کا دست یاب اسٹاک اور اس کے استعمال کی شرح کے علاوہ ماہرافرادی قوت پیداواری صلاحیت بڑھانے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔اگر ملک کی اہم برآمدات ٹیکسٹائل ہیں لیکن ہمارے پاس نسبتاً پرانی مشینری، آلات اور غیر تربیت یافتہ افرادی قوت ہے تو یہ توقع کرنا عبث ہوگا کہ ہم بیرونی منڈیوں میں ویتنام اور بنگلہ دیش کا مقابلہ کریں۔

ماضی کی سرمایہ کاری اور ماضی کی پالیسیوں کے اثرات پیداوار کے عوامل کو بڑھابھی سکتے ہیں اور ختم بھی کرسکتے ہیں۔ اگر آب پاشی کے نظام میں پانی کا ضیاع روکا جاسکتا، اگر بجلی کی ترسیل کے نظام میں ہونے والے نقصانات کا تدارک کر لیا جاتا، اگر محصولات کی شرح بڑھائی جاچکی ہوتی اور سرکاری شعبے میں چلنے والی کاروباری تنظیموں کا مسئلہ حل کرلیا جاتا تو موجودہ عوامل کی پیداواری صلاحیت کہیں بڑھ جاتی۔تکنیکی انضمام اور ان کا استعمال، اور انتظامی بندوبست پیداواری صلاحیت کو بڑھاتے، روکتے یا جمود کا شکار کرتے ہیں۔ اگر اوسط کسانوں کو تکنیکی معلومات تک رسائی کے ساتھ ساتھ تصدیق شدہ بیج، کھاد کی مناسب مقدار، بہتر معیار کی کیڑے مار ادویات، چھوٹے اوزار اور آلات، بارش کی کٹائی کے ذریعے پانی کی بچت کی سہولت فراہم کی جاتی تو ملک کو آئے روز خوراک اور کپاس کے بحران کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔ بلاشبہ طریقہ کار اور عملی مشکلات اپنی جگہ پر موجود ہیں، جیسے کہ اعداد و شمار کی دستیابی، لیکن کافی معلومات حاصل کرکے اس کی بنیاد تشکیل دی جاسکتی ہے۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے تحقیقی اداروں نے بھی اتنا سخت کام نہیں کیا بلکہ عمومی بحثوں کا سہارا لیا ہے۔ ان بحثوں کے ذریعے پہلے سے ہی اپنائی گئی آرا کو مزید راسخ کیا جاتا ہے۔

انتباہات اور تحفظات کی مندرجہ بالا فہرست کے باوجود ہم نے نوٹ کیا ہے کہ پاکستان میں حکومت کی طرف سے ’’فتح‘‘ کا اعلان کرنے کا عمومی رجحان پایا جاتا ہے۔ جیسے ہی مختصر مدت کے تیز رفتار اقتصادی اشارے اوپر جاتے ہیں، ہم جشن منانا شروع کردیتے ہیں۔ اس کے پیچھے کارفرما بنیادی عوامل کا تجزیہ نہیں کیا جاتا۔جیسے اُن کی سمت تبدیل ہوتی ہے، وہ اپنی ساکھ کھونے لگتے ہیں۔ اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے حز ب اختلاف حکومت کو نااہلی یا بدانتظامی کا ذمہ دار ٹھہراتی ہے۔ مستقبل میں ایسی صورت حال سے بچنے کے لئے عوامل کا تجزیہ کرنے کی بجائے اس اتار چڑھائو کوسیاسی پوائنٹ اسکورنگ کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔اس غیر یقینی صورتحال میں رسک پریمیم بڑھ جانے سے سرمایہ کاری کی ریٹرن کی کم از کم شرح کا تعین مشکل ہوجاتا ہے۔ اس کی وجہ سے بہت سے اہم منصوبے ناکام یا غیر فعال ہوجاتے ہیں جو درآمدکردہ اشیا کا متبادل، یا برآمدی اشیا تیار کرکے پیداواری حجم بڑھا سکتے تھے۔یہ شیطانی چکر طلب اور مقامی پیداواری گنجائش کے درمیان فرق بڑھادیتا ہے۔ اس کی وجہ سے درآمدات میں ہونے والا اضافہ ادائیگیوں کے توازن کو بگاڑ دیتا ہے، اس کی وجہ سے قرضے بڑھ جاتے ہیں اور مہنگائی میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ اس کے متبادل کے طور پربحرانی صورتحال اور شدید قلت کا سامنا کرنے والی حکومتوں کو ان شعبوں میں سرمایہ کاری پر راغب کرنے کے لئے واپسی کی ضمانت، بھاری تعزیری شقوں کا اقرار، ٹیکس میں چھوٹ اور دیگر فراخدلانہ رعایتیں دینا پڑتی ہیں۔ 1994 کے بعد سے ہماری توانائی کی پالیسی کی کہانی اس قسم کی پالیسی مداخلت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ کئی حکومتیں آئیں اور گئیں، اس پالیسی کا بال بھی بیکانہ کرسکیں۔ بجلی کی پیداوار سے لے کر قدرتی مائع گیس کی درآمد تک، ایسی پالیسیوں کے نقصان دہ اثرات کا دستاویزی ثبوت موجود ہے۔

سبز انقلاب جس نے پاکستان کو خوراک کی درآمد کرنے والے دائمی ملک سے ایک خود کفیل اور برآمد کرنے والے ملک میں تبدیل کر دیا، ایوب خان کے دور حکومت میں شروع کیا گیا لیکن اس کے مکمل ثمرات کم از کم دو دہائیوں کے بعد محسوس ہوئے۔ خوش قسمتی سے، آنے والی حکومتوں نے اس پروگرام کو جاری رکھا اور اسے بند نہیں کیا۔ پی پی پی حکومت کی جانب سے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام (BISP) کی شکل میں شروع کیے گئے سماجی تحفظ کے پروگرام کو بعد میں آنے والی مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے سپورٹ کیا اور کوویڈ 19 کی وبا کے دوران کام آیا۔ اگر نچلی سطح پر موجودگی، ڈیٹا بیس، تکنیکی اثرات کے ساتھ یہ پروگرام موجود نہ ہوتا تو پی ٹی آئی حکومت کے لئے اتنے مختصر عرصے میں 16 ملین گھرانوں یا تقریباً 50 فیصد آبادی کو 200 ارب روپے سے زیادہ کی ہنگامی نقد امداد فراہم کرنا مشکل ہوتا۔ یقیناً موجودہ حکومت نے نیشنل رجسٹری یعنی ڈیٹا بیس کو اپ ڈیٹ کرنے کے لئے ایک نیا سروے کیا ہے۔

یہ دو مثالیں ہماری سیاسی جماعتوں کے لئے سوچ کا باعث ہو سکتی ہیں کہ معاشی پالیسیوں کا تسلسل، مستقل مزاجی اور پیشین گوئی صفر گراؤنڈ سے ختم کرنے اور دوبارہ شروع کرنے سے کہیں زیادہ سیاسی منافع دیتی ہے۔ پانچ سالہ انتخابی دور معاشی نتائج کی پیمائش کرنے اور کسی خاص حکومت کو منسوب کرنے کے لئے مناسب پیمانہ نہیں ہے۔

تازہ ترین