• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پچھلے ایک ہفتے کے دوران جو کچھ بلوچستان میں ہورہا ہے اس سے یقینا پاکستانی عوام کی اکثریت اشک بار ہے۔ خاص طور پر تحریک پاکستان میں حصہ لینے والے جو چند افراد ابھی زندگی کا بوجھ اٹھائے ہوئے اور مختلف بیماریاں لئے چل رہے ہیں وہ بہت ہی افسردہ اور ڈیپریشن میں مبتلا ہیں۔ کیا اس دن کے لئے قربانیاں دے کر وہ ہندوستان کے مختلف شہروں سے آئے تھے۔ کیا ان کی قربانیوں کی آج یہ قیمت پڑی ہے کہ اپنے دیس میں بھی وہ محفوظ نہیں۔ ہندوستان کو اس لئے چھوڑا تھا کہ وہ وہاں سکھوں اور ہندوؤں کے ہاتھوں محفوظ نہیں تھے اور یہاں اب اپنوں کے ہاتھوں محفوظ نہیں۔
ہجرت کرکے آنے والوں نے جب پاک سرزمین پر قدم رکھا تو رب کا شکر ادا کرنے کے لئے سجدے دئیے اس سرزمین کو چوما کسی نے یہاں کی مٹی کو اپنے ماتھے پر لگایا یہاں اب حالات ایسے نہیں، موت کا رقص جاری ہے۔ وہاں تو پتہ تھا کہ سکھ اور ہندو دشمن ہیں یہاں پتہ نہیں کہ کون دشمن ہے۔ یہاں سے کدھر جائیں اور کس ملک کی مٹی کو چومیں؟
عید سے قبل ایک طرف بلوچستان میں موت کا کھیل جاری تھا تو دوسری طرف ہمارے لوگ چاند رات پر عید کی خریداری میں دنیا سے بے خبر مگن تھے۔ عید سے صرف ایک اور روز قبل اور پھر عید پر جو کچھ بلوچستان میں ہوا کیا اس کے بعد ہمیں کیا جشن منانے چاہئیں تھے؟ ہمارے شعراء کرام تو کہتے ہیں کہ
دشمن مرے تے خوشی نہ کرئیے
سجنا وی مرجانا اے
ہم کیسے لوگ ہیں کہ یہاں تو اپنے مسلمان بھائی مارے جارہے ہیں انہیں شہید کیا جارہا تھا اور ہم عید کی گہما گہمی اور رونقوں میں بھرپور طریقے سے شرکت کررہے تھے۔
کچھ عرصہ قبل کی بات ہے کہ ڈی ایچ اے لاہور کے قبرستان میں کسی عزیز کی وفات کے سلسلے میں وہاں موجود تھا۔ لوگ وفات پانے والے کو دفنانے کی تیاریاں کررہے تھے ۔ہم کیا دیکھتے ہیں کہ ایک پکی قبر کے سفید پتھر پر ایک شخص چوکڑی مارے بیٹھے ہیں اور موبائل فون پر اپنے کسی کارندے کو کہہ رہے تھے کہ وہاں فلاں کمپنی کا شیئرز ایکسچینج مارکیٹ سے فوراً اٹھالو بہت نفع ہوگا۔ بھاؤ چڑھنے والا ہے۔ قبر کے اوپر بیٹھ کر بھی دنیا اور پیسے سے اس قدر پیار، یہ بے حسی کی انتہا نہیں تو اور کیا ہے؟
سو آج ہم بلوچستان کے واقعات پرافسوس بھی کرتے ہیں،محفلوں میں بیٹھ کر بڑھے دکھی ہوتے ہیں مگر زندگی کے معمولات میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔پنجاب اور ملک کے جن شہروں میں امن ہے ہم سمجھتے ہیں کہ یہ ہم سے بہت دور ایسے واقعات ہورہے ہیں ہم محفوظ ہیں ،ارے بھائی اب کوئی محفوظ نہیں، اگر کوئی یہ سمجھ رہا ہے کہ کچھ نہیں ہوگا، تو یہ غلط فہمی ہے بہت کچھ ہونے والا ہے بہت کچھ ہونے کو ہے ہم نے پہلے بھی کہا تھا کہ دہشتگردی کے واقعات بڑھتے جائیں گے اور یہ مارنے والے جو یقینا پتہ نہیں کس مذہب کے پیروکار ہیں اور آج تک کسی مرنے والے دہشتگرد کے گھر کا پتہ نہیں چلا۔ کسی نے آکر یہ نہیں کہا کہ ان لڑکا چند روز قبل غائب ہوگیا تھا یا اس کی سرگرمیاں مشکوک قسم کی تھیں۔ لگتا ہے کہ خود کش بمباروں کا کوئی گھر نہیں، کوئی خاندان نہیں، یہ زمین سے اگتے ہیں یا آسمان سے گرتے ہیں یا پھر کسی اور ملک سے آرہے ہیں کسی مرنے والے دہشت گرد کے گھر والے روتے نہیں ہیں۔
رسم چل نکلی تو العنصر
پھر نہ روکی جائے گی
رفتہ رفتہ سوئے مقتل
شہر سارا جائے گا
یہ کیسی رسم کیسی ریت روایت چل پڑی ہے کہ بے گناہ افراد کو مارو۔ رمضان المبارک اور عید کا احترام بھی نہ کیا ، امن قائم رکھنے والے تمام ادارے بے بس ہوچکے ہیں ، کوئی کہتا ہے کہ بہت ہوچکی اب اس کو روکنا ہوگا۔ ارے بھائیو!کون روکے گا؟کون سخت قدم اٹھائے گا؟ کب حکومت کچھ سخت فیصلہ کرے گی؟ کہنے والے ان واقعات کو مشرقی پاکستان کے واقعات سے ملتے جلتے بتاتے ہیں اور پھر مشرقی پاکستان کا جو حشر ہوا کس طرح اور کن قوتوں نے اسے علیحدہ کرکے ایک اور ملک بنادیا، کیا یہی قائد اعظم کا پاکستان اور علامہ اقبال کا تصور پاکستان تھا۔ اب کیا بلوچستان (اللہ کبھی نہ کرے) کو علیحدہ کرنے کے لئے جو قوتیں کام کررہی ہیں۔ ان کے آگے بالکل بے بس ہوچکے ہیں، ساحر لدھیانوی نے کہا تھا
لاکھ بیٹھے کوئی چھپ چھپ کے کمیں گاہوں میں
خون خود دیتا ہے جلادوں کے مسکن کا سراغ
سازشیں لاکھ اڑوھاتی ہیں ظلمت کا نقاب
لے کے ہر بوند نکلتی ہے ہتھیلی پر چراغ
پتہ نہیں کب یہ بے گناہ لوگوں کا خون ان کمین گاہوں تک لے جائے گا ؟کب یہ سازشیں بے نقاب ہوں گی؟ایک طرف لوگ مررہے تھے بازاروں میں خریداری اور رونقیں دکھائی جاتی رہیں ، افسوس صد افسوس ایک طرف خون بہایا جارہا ہے، دوسری طرف ہاتھوں پر لگی مہندی کی لالی دکھائی جارہی ہے، اتنے بڑے اور اوپر نیچے لگاتار واقعات پر قومی سوگ منانا چاہئے تھا۔ سوائے حکمرانوں کے روایتی بیانات کے کچھ نظر نہیں آیا۔ دینی فریضے ضرور سرانجام دیں مگر یہ بھی تو فرض ہے اس فرض کی ادائیگی بھی تو کرنی چاہئے۔ حاکمان وقت عوام کی جان و مال کے ضامن ہوتے ہیں۔ آخر اس دہشت گردی کا اختتام کیسے ہوگا؟ کون ختم کرے گااس دہشت گردی کی لہر کو؟ کیا لوگ اس طرح مرتے اور شہید ہوتے رہیں گے؟ کیا لوگوں کے کندھے اب جنازے اٹھا اٹھا کر شل نہیں ہوگئے؟ کتنے ماں باپ کو بے سہارا کرنا ہے؟ یہ کیسی خون کی آندھی اور ہولی ہے جو رکنے کا نام نہیں لے رہی۔کیا کوئی مسلمان اس قدر ظالم ہوسکتا ہے؟ ہاں ہوسکتا ہے لیکن وہ یقینا مسلمان نہیں ہوگا جو اس طرح بے گناہ لوگوں کو مارتا جارہا ہے۔ ہم نے تو ہلاکو خاں اور چنگیز خاں کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔کب حکومت ڈنڈا اٹھائے گی جب سب ختم ہوجائیں گے۔
جنرل ضیاء الحق نے طالبان کی شکل میں فصل بوئی تھی اب وہ فصل بڑھ چکی ہے جو بیج جگہ جگہ پھینکے تھے آج وہ تناور درخت بن چکے ہیں پر یہ درخت ٹھنڈی چھاؤں نہیں دیتے آگ برساتے ہیں ان کے قریب کوئی آجائے اس کو آگ لگ جاتی ہے۔
ن لیگ کی حکومت باہر کے ممالک سے معاہدے کرکے باہر سے سرمایہ کاروں کو لانا چاہتی ہے مگر یہاں پر حالات روز بروز بگڑتے جارہے ہیں۔ گوادر کو ترقی دینی ہے ،تجارت بڑھانی ہے،کئی منصوبے زیرتکمیل اور زیر غور ہیں مگر یہاں پر تو خون کی سرمایہ کاری ہورہاہے۔لاشوں کے ڈیپازٹ بڑھ رہے ہیں لاکروں میں خون اکٹھا ہوتا جارہا ہے کیسے ترقی ہوگی؟کون ترقی کا عمل شروع کررکھے گا؟
ہر حکومت نے کئی پولیس آفیسرز کو باہر کے ممالک بھیج کر دہشت گری پر بڑی مہنگی تربیت بھی کراتی ہے جب ہم اس دہشت گردی کے آگے بے بس ہیں تو پھر کیوں قوم کے لاکھوں روپے ہر سال اس قسم کی تربیت پر ضائع کئے جارہے ہیں۔ حکومت نے بڑی مذمت کرلی اب مذمت نہیں مرمت کی ضرورت ہے بڑی سخت مرمت کریں ان دہشتگردوں کی ۔ مرمت کریں اپنے سیکورٹی اداروں کی۔
تازہ ترین