• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

افغانستان میں یخ بستہ ہوائیں چلنا شروع ہوگئی ہیں اور اُس کے وسطی ایشیا سے منسلک صوبوں کی پہاڑیوں نے برف کی چادر اوڑھ لی ہے۔ جلد ہی سائیبریا سے آنے والی ہوائیں زندگی کو گویا منجمد کرنے لگیں گی۔ ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہو رہا۔ وہاں کے باشندے صدیوں سے اِس موسم کے عادی ہیں، لیکن اِس مرتبہ افغانستان میں اشیائے خورو نوش کی ایسی قلّت ہے کہ لوگ موسمِ سرما میں فاقوں کا سامنا کرنے والے ہیں۔ پاکستان کے وزیرِ اطلاعات، فوّاد چوہدری کا بیان ہے کہ’’ وہاں بچّے بھوک سے جاں بحق ہو رہے ہیں۔‘‘

وہاں خوراک اور روز مرہ استعمال کی دیگر اشیاء ختم ہونے کو ہیں، بلکہ مستقبل قریب میں فراہمی کا امکان بھی نظر نہیں آرہا۔ طالبان کو حکومت سنبھالے تین ماہ ہوچُکے ہیں، لیکن وہ اب تک کسی بھی مُلک سے اپنی حکومت تسلیم کروانے میں کام یاب نہیں ہوسکے۔یہ ضرور ہے کہ اُن کے مختلف ممالک سے غیر سرکاری رابطے جاری ہیں، لیکن اُن کا زیادہ تر تعلق سیاسی اور فوجی معاملات سے ہے۔

پاکستان، برادر افغان عوام کی ایک حد تک، بلکہ اس سے بھی کچھ زیادہ ہی مدد کر رہا ہے، لیکن دو کروڑ، بیس لاکھ افراد کو تمام ضروری اشیاء کی فراہمی اُس کے بس میں نہیں ہے۔ خود پاکستان میں منہگائی نے تباہی مچائی ہوئی ہے، اِس لیے وہ ایک حد تک ہی مدد کرسکتا ہے۔لہٰذا افغان عوام کو خوراک وغیرہ فراہم کرنے کی ذمّے داری عالمی برادری ہی کو سنبھالنا پڑے گی۔اقوامِ متحدہ کی جانب سے بار بار مدد کی اپیلز کی جا رہی ہیں اور دنیا کو مشکل ترین حالات سے خبردار کیا جا رہا ہے۔

یہ انسانی المیہ کس نوعیت کا ہے؟ اِس سے بچنے کے لیے کیا کیا جا رہا ہے اور کیا، کیا جانا چاہیے؟ یہ سوالات اِس لیے بھی اہم ہیں کہ اقوامِ متحدہ کے مطابق اِس المیے کے اثرات باقی دنیا پر بھی مرتّب ہو سکتے ہیں۔ پاکستان کا کہنا ہے کہ اگر افغانستان کی مدد نہ کی گئی، تو اُس کے عوام کے ساتھ پڑوسی ممالک، بالخصوص پاکستان بھی ان حالات سے متاثر ہوگا۔ کوئی بھی مُلک افغان شہریوں کو پناہ دینے کو تیار نہیں۔ 

اگر پاکستان کی طرف دیکھا جائے، تو وہ پہلے ہی35 لاکھ افغانیوں کی میزبانی کر رہا ہے اور اس سے پیدا ہونے والے مسائل بھی بُھگت رہا ہے۔ دنیا کے امیر ممالک کا رویّہ جی۔20 کانفرنس میں سامنے آچُکا کہ وہاں اِس معاملے پر مکمل خاموشی رہی۔ اُدھر عالمی بینک نے بھی افغانستان کو کسی قسم کی امداد دینے سے انکار کر دیا ہے۔طالبان کے انتہائی تیز رفتار ٹیک اوور سے قبل افغانستان میں اشرف غنی کی حکومت تھی، لیکن درحقیقت وہاں کی معیشت کا بوجھ امریکا اور اُس کے اتحادیوں نے سنبھال رکھا تھا۔افغان اکانومی کا 80 فی صد سے زاید امریکا پورا کر رہا تھا، جو تقریباً چھے ارب ڈالر سالانہ بنتا تھا۔( یہ اُس رقم کے برابر ہے، جو ہم آئی ایم ایف سے لینے کی تگ و دو کر رہے ہیں)۔

امریکی امداد سے عوام کی ضروریات پوری ہونے کے ساتھ انفرا اسٹرکچر کی بہتری اور تن خواہیں پوری ہو رہی تھیں۔ یاد رہے،جب طالبان نے کابل پر قبضہ کیا ،تو یہ سوال بار بار سامنے آیا کہ امریکا نے30 بلین ڈالرز سے افغان آرمی تیار کی، لیکن اُس نے کسی بڑی مزاحمت کے بغیر مُلک طالبان کے حوالے کر دیا۔اس کا مطلب ہے کہ امریکا ساز و سامان کی فراہمی کے ساتھ، باقی تمام فوجی خرچہ بھی دے رہا تھا۔اب صُورتِ حال یہ ہے کہ مُلک کی کوئی آمدنی نہیں، جب کہ کسی اور ذریعے سے بھی سرمایہ نہیں مل رہا۔

وہاں سے منشّیات کے علاوہ شاید ہی کوئی قابلِ ذکر چیز باہر بھیجی جاتی ہو اور جس پر نہ صرف دنیا کو شدید تحفّظات ہیں، بلکہ خود طالبان بھی اس پر پابندی لگا چُکے ہیں۔افغانستان کے اُن 10 ارب ڈالرز کا بھی ذکر ہوتا رہتا ہے، جو امریکی بینکس میں منجمد ہیں، تاہم یہ واضح نہیں کہ اُن کا اصل معاملہ کیا ہے اور وہ کس نے وہاں رکھوائے تھے؟افغانستان میں اِن دنوں اصل مسئلہ خوراک اور ادویہ کی کمی کا ہے، جب کہ ملازمین کی تن خواہوں اور دیگر معاملات چلانے کے لیے بھی پیسوں کی ضرورت ہے۔اقوامِ متحدہ آٹا فراہم کر رہی ہے، جس کی نگرانی طالبان سپاہی کر رہے ہیں۔

اقوامِ متحدہ کے مطابق،95 فی صد افغان شہریوں کے پاس خوراک ناکافی ہے اور سرد موسم شدّت اختیار کر چُکا ہے۔ایسے میں قحط کی سی صورت جنم لے سکتی ہے۔ایک زمانے میں افریقی صحرائوں میں قحط کا ذکر عام تھا اور اب مغربی ایشیا میں بھی یہ نوبت آرہی ہے۔ مغربی ممالک کا اصرار ہے کہ اس سے قبل کہ وہ طالبان حکومت کو تسلیم کریں، انسانی حقوق، خواتین کی تعلیم اور نمایندہ حکومت کے معاملات حل کیے جائیں، لیکن طالبان تین ماہ گزرنے کے باوجود اُنھیں مطمئن نہیں کر سکے۔ 

چین، روس، ایران اور دیگر پڑوسی ممالک بھی نمائندہ حکومت کے قیام کی شرط پر قائم ہیں اور اسی لیے ان میں سے کوئی بھی مُلک طالبان حکومت کو تسلیم کرنے میں پہل نہیں کررہا۔پاکستان نے بھی طالبان حکومت تسلیم تو نہیں کی، لیکن اُن سے وزارتی اور محکمہ جاتی شکل میں رابطے رکھے ہوئے ہے۔ اُس کا کہنا ہے کہ’’ ہم ایسی حالت میں اپنے افغان بھائیوں کو اکیلا نہیں چھوڑ سکتے۔‘‘شاید طالبان یہ سمجھتے ہیں کہ دنیا وقت گزرنے کے ساتھ اُن کی حکومت کو تسلیم کر ہی لے گی کہ آخر فوجی ڈکٹیٹرز بھی تو قبول کرلیے جاتے ہیں، جیسے برما میں ہوا۔ مسلم دنیا بھی طالبان حکومت کے معاملے پر خاموش ہے، حالاں کہ مُلّا عُمر کے زمانے میں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے پاکستان کے ساتھ اُنہیں تسلیم کر لیا تھا۔

داعش کا معاملہ بھی طالبان کے لیے دردِ سر بنتا جارہا ہے۔اجتماعاتِ جمعہ میں دھماکے معمول بن گئے ہیں اور داعش اُن کی ذمّے داری قبول کر رہی ہے۔افغان طالبان کا امریکا کے خلاف جنگ میں عمومی طریقہ یہ تھا کہ وہ سردیوں میں لڑائی بند کر دیتے اور موسم بہتر ہونے پر دوبارہ اسلحہ اُٹھا لیتے، اِس طرح اُنہیں سَستانے کا موقع مل جاتا، لیکن داعش کسی باقاعدہ جنگ کی بجائے خود کُش حملوں پر انحصار کر رہی ہے، جو کسی موسم کے پابند نہیں۔دیکھا جائے، تو پوری دنیا داعش کے خلاف ہے۔

امریکا اُسے سب سے خطرناک دہشت گرد گروہ قرار دیتا ہے، لیکن اس کے باوجود اس خطرے کے خلاف متحدہ محاذ بنانے میں مشکلات سامنے آ رہی ہیں۔مثال کے طور پر یہ کیسے ممکن ہے کہ امریکا کل تک جن طالبان سے جنگ کر رہا تھا، اب اُنہی کے ساتھ مل کر ایک اور مسلّح گروہ کے خلاف جنگ کرے؟پاکستان کو بھی اس بات کا خطرہ ہے کہ اگر افغانستان میں انسانی المیے کا جلد حل نہ نکالا گیا، تو کہیں داعش کو عوام میں پھیلنے والی بے چینی سے فائدہ اُٹھانے کا موقع نہ مل جائے اور یوں خطّے میں ایک بار پھر دہشت گردی میں اضافہ ہوجائے۔

یاد رہے، جب عراق اور شام میں داعش کا خطرہ بڑھا، تو ایران کے حمایت یافتہ مسلّح گروہوں نے اُس کے خلاف کُھل کر امریکی فوج کا ساتھ دیا اور داعش کی شکست میں اہم کردار ادا کیا، باوجود یہ کہ ایران، امریکا کو’’ شیطان‘‘ کہتا تھا۔ افغانستان میں فوری طور پر معیشت کا پہیّہ رواں کر کے ایسے شدّت پسند گروہوں کا راستہ روکنا ضروری ہے، تاہم اس ضمن میں اصل کردار خود طالبان ہی کو ادا کرنا ہوگا۔

اُنہوں نے ٹیک اوور سے قبل بین الاقوامی سطح کے مذاکرات کیے اور مختلف معاہدوں تک بھی پہنچے۔اب افغان عوام اُن کی ذمّے داری ہیں کہ وہی اُن کے حکم ران ہیں۔اپیلز کرنا ایک الگ بات ہے، مگر دوسروں پر انحصار کرنا بالکل دوسرا معاملہ ہے۔انھیں اپنے عوام کے لیے معاشی پالیسیز بنانا ہوں گی، جس کے لیے اقتصادی امور پر مہارت درکار ہے۔یہ بات تو کسی حد تک درست ہے کہ طالبان کو وقت دیا جانا جاہیے، لیکن کتنا؟ اُنہیں سمجھنا ہوگا کہ اب وہ میدانِ جنگ میں نہیں ہیں۔اُنھیں ایسی پالیسیز بنانی ہوں گی، جن کے ذریعے عالمی پابندیوں سے چھٹکارا ملے، تو دنیا سے تعلقات بھی قائم ہو سکیں۔نظریات اپنی جگہ، لیکن عوام کو ضروری اشیاء کی فراہمی بھی ضروری ہے۔

چین اور امریکا کو’’ نظریاتی دشمن‘‘ کہا جاسکتا ہے،لیکن دونوں نے اپنے عوام کی خوش حالی کے لیے بہت سے معاملات میں لچک دِکھائی ہے۔ اِس سے زیادہ اور کیا کہا جاسکتا ہے کہ افغانستان میں جس قسم کے انسانی مسائل، خاص طور پر بھوک، غربت اور پس ماندگی سامنے آرہے ہیں، اُن کا بہتر گورنینس کے بغیر حل ممکن نہیں اور اس کے لیے دنیا سے تعاون حاصل کرنا بھی ضروری ہے، کم ازکم چین، روس اور علاقے کے دوسرے ممالک کی تو فوری ضرورت ہوگی۔افغان عوام کے متعلق مشہور ہے کہ اُنہوں نے کبھی شکست نہیں کھائی،اگر ایک طرف حکومتی پالیسیز بہتر ہوں اور دوسری طرف عوام حوصلے سے کام لیں، تو اُن کے لیے بھوک، افلاس، جہالت اور پس ماندگی کو بھی شکست دینا مشکل نہیں ہوگا۔

ایران نیوکلیئر مذاکرات پھر سے شروع کر رہا ہے۔دو ماہ پہلے امریکا اور ایران کے منجمد تعلقات کی برف اُس وقت پگھلی، جب مذاکرات کا ایک دور، برسلز میں فرانس اور جرمنی کی سرپرستی میں ہوا۔اُس کی اہم بات یہ تھی کہ امریکا، جس نے ٹرمپ کے دَور میں نیوکلیٔر ڈیل مسترد کر دی تھی،ایران کو انگیج کرنے پر تیار ہوگیا ۔

شاید اس کی ایک وجہ وہ خبریں بھی تھیں کہ ایران نے یورینیم کی افزودگی بڑھا دی ہے اور وہ ایٹمی قوّت حاصل کرنے کے قریب تر ہے۔امریکی پابندیوں کی وجہ سے ایران کی اقتصادی حالت بے انتہا خراب ہو چُکی ہے اور وہ ریلیف چاہتا ہے، کیوں کہ اس طرح ہمیشہ نہیں رہا جاسکتا، گو کہ یورپی ممالک نے اُس کا ساتھ دیا ، لیکن وہ اُن بڑی ملٹی نیشنل کمپنیز کے سامنے مجبور ہو گئے تھے، جو امریکا کی وجہ سے ایران سے تجارت کرنے کو تیار نہیں تھیں۔

ایران کی مذاکرات میں دل چسپی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ تیل کی قیمتیں اب عالمی مارکیٹ میں گزشتہ سالوں کے مقابلے میں دُگنی ہوچُکی ہیں۔ایران دنیا میں تیل پیدا کرنے والا چوتھا بڑا مُلک ہے،اب اس کی فوری ضرورت یہ ہے کہ اُس کا تیل فروخت ہو۔ پابندیاں ہٹیں اور وہ تیل بیچ کر اپنی معیشت بحال کر سکے، وگرنہ تیل کی پیداوار میں اضافے کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا،بلکہ عرب ممالک، جو اب تک اُس کے رقیب ہیں، قیمتوں سے فائدہ اُٹھالیں گے۔ اگر علاقے کی سیکیوریٹی کے نقطۂ نظر سے دیکھا جائے، تو ایران کے نیوکلیئر ایشو نے بہت سے معاملات جنم دیے۔

مشرقِ وسطیٰ میں اس کی پیش رفت اور پھر اسلامی عرب ممالک سے مقابلہ، جس میں سعودی عرب پیش پیش رہا، ایک اہم ایشو ہے۔ایران نے جنرل سلیمانی کے دَور میں جس قسم کی جارحانہ خارجہ پالیسی کا آغازکیا، اُس نے بھی معاملات کو پیچیدہ بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ شام میں براہِ راست مداخلت، عراق، لبنان اور یمن میں اس کے حمایت یافتہ مسلّح گروہوں کی موجودگی اس کی مثالیں ہیں۔ لیکن یوں لگتا ہے کہ سلیمانی کے بعد اب ایران کی پالیسیز کچھ اعتدال کی طرف جا رہی ہیں، لیکن پھر بھی عرب ممالک کے تحفّظات اپنی جگہ موجود رہے، جس کی وجہ سے امریکا کو اسرائیل کو خطّے کی سیاست میں فعال کردار دینا پڑا۔ٹرمپ کے زمانے سے شروع ہونے والے خلیجی ممالک سے اسرائیل کے روابط اب باقاعدہ سفارتی اور تجارتی تعلقات میں ڈھل چُکے ہیں۔

ایران، اسرائیل کو اپنا علانیہ دشمن کہتا ہے اور اُس کی اپنی سرحدوں کے قریب موجودگی اُس کے لیے تشویش کا باعث ہوسکتی ہے، کیوں کہ عرب اور اسرائیل دونوں ہی ایران کے ایٹمی معاملات پر شدید تحفّطات کا کھلم کُھلا اظہار کرتے ہیں۔اسی ضمن میں دیکھا جائے، تو ایک طرف ایران نیوکلیٗر ڈیل پر امریکا سے پیش رفت کر رہا ہے کہ اُس کے مذاکرات کار کہتے ہیں کہ’’ بات چیت مثبت ماحول میں آگے بڑھ رہی ہے‘‘، تو دوسری طرف، ایران اور سعودی عرب کے تعلقات کو بھی کسی باقاعدہ معاہدے کی شکل دینے کے لیے دونوں ممالک کے درمیان مذاکرات کے کئی دور ہو چُکے ہیں۔

تیل کی چڑھتی قیمتیں بھی اب اس میں اپنا کردار ادا کریں گی کہ ایران، عرب ممالک کے ساتھ اوپیک تنظیم کا فعال رُکن ہے اور اس کی بھی خواہش ہے کہ اِس قدرتی دولت سے اپنی معیشت بحال کرے۔ درحقیقت، عربوں اور ایران کے تیل کے مفادات یک ساں ہیں۔ ادھر امریکا نے دنیا کا سب سے زیادہ تیل پیدا کر کے ان ممالک، خاص طور پر اوپیک کی اجارہ داری کو چیلنج کیا ہے۔ کم ازکم اب امریکا کے اتحادیوں کو تیل کے معاملات میں عربوں اور ایران کے دبائو میں آنے کی ضرورت نہیں ہوگی۔

یعنی تیل کی سیاست کا باب اب ختم ہونے کو ہے۔اسی لیے کوپ کانفرنس میں گرین انرجی اور فوسل فیولز پر جہاں حکومتیں متفّق تھیں، وہیں عوامی تنظیموں کا بھی یہی مطالبہ تھا کہ تیل پر انحصار ختم کیا جائے۔ایسے میں ایران اور سعودی عرب کے پاس بہت کم آپشن رہ جاتے ہیں، کیوں کہ ان کی معیشتوں کا دارومدار تیل ہی پر ہے۔ بہتر یہی ہے کہ عربوں اور ایران میں مفاہمت ہوجائے تاکہ وہ اپنے معاشی مفادات کا تحفّظ کر سکیں۔ایران، سعودی عرب مذاکرات اسی پس منظر میں بہتر طور پر سمجھے جاسکتے ہیں۔ 

ان کی قربت سے خطّے کی سیکیوریٹی اور اقتصادی معاملات پر بھی مثبت اثرات مرتّب ہوں گے۔ شاید زیادہ تر دشمن، دوست بننا پسند کریں گے، یوں جنگ اور تنازعات کا اختتام ہوجائے گا۔ ایک تبدیلی یہ بھی آرہی ہے کہ شاید اب مسلّح گروہوں کو نظریے کے نام پر سپورٹ کرنے کا دور بھی ختم ہوجائے۔اِس مقصد کے لیے ایف اے ٹی ایف جیسی تنظیم فعال ہوچُکی ہے۔پاکستان کو اس کا تکلیف دہ تجربہ ہورہا ہے۔

عرب ممالک نے اِس مرتبہ طالبان کا مالی طور پر ساتھ نہیں دیا، جسے اسی پس مظر میں دیکھا جا رہا ہے۔ اگر شدّت پسند تنظیموں کی فنڈنگ ختم ہوگئی، تو اُن کے لیے اپنا وجود برقرار رکھنا مشکل ہوجائے گا۔جب تنازعات ہوں گے اور نہ ہی فنڈز ملیں گے، تو پھر سیدھی سی بات ہے کہ ان گروپس کا کیا مصرف باقی رہے گا؟

تازہ ترین