• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بھلا ہو وزیراعظم کا جس نے ’’خوابیدہ‘‘ اپوزیشن کو ’’بیدار ‘‘کردیا ہے۔ اس بیداری کے پیچھے کسی قوت کا عمل دخل ہے اور نہ ہی کوئی سازش کار فرما ہے بلکہ اس میں بڑی حد تک خود ’’کپتان ‘‘ کا کردار ہے۔ حکومت نے جہاں مہنگائی کے ہاتھوں عام آدمی کی زندگی اجیرن بنا دی ہے وہاں ترجمانوں کی’’فوج ظفر موج‘‘ کے غیر سنجیدہ بیانات نے اپوزیشن کو میدانِ عمل میں اترنے پر مجبور کر دیا ہے۔ پی ٹی آئی کو زعم ہے کہ ’’ٹکڑوں‘‘ میں منقسم اپوزیشن اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی، لہٰذا اسے من مانی کرنے سے کوئی قوت نہیں روک سکتی۔ وزیراعظم نے آئین میں درج اختیارات کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنی ’’اتھارٹی‘‘ منوانے کی ایک ناکام کوشش کی ہے، سیاسی منظر پر گہما گہمی سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پی ڈی ایم کو متحرک کرنے اور پی ڈی ایم و پیپلز پارٹی کو ایک بار پھر قریب تر کرنے کا کریڈٹ ’’کپتان‘‘ کو ہی جاتا ہے۔ رواں سال کے اوائل میں ’’لانگ مارچ اور استعفوں‘‘ کے مسئلہ پر پی ڈی ایم سے پی پی پی اور اے این پی نکل گئی تھیں لیکن رواں سال کے اواخر میں ان کے درمیان فاصلے کم ہوتے نظر آرہے ہیں۔ پاکستان میں مہنگائی کا جن بےقابو ہو چکا ہے جس کے سامنے موجودہ حکومت بےبس دکھائی دے رہی ہے۔ اپوزیشن کو کپتان کی اِس کمزوری کا ادراک ہے یہی وجہ ہے اس نے راتوں رات ورچوئل اجلاس بلا کر مہنگائی کے خلاف اسلام آباد کی جانب مارچ کرنے کا اعلان کر دیا۔ یہ سب کچھ بلا سوچے سمجھے نہیں ہوا، دراصل کپتان نے اپنے سیاسی مخالفین کو گہری نیند سے بیدار کر دیا ہے۔ اپوزیشن بالخصوص پی ڈی ایم کے متحرک ہونے میں ’’غیبی‘‘ اشاروں کا بڑا عمل دخل ہے۔ اگرچہ ابھی تک لانگ مارچ کے لئے حتمی تاریخ کا اعلان نہیں کیا گیا لیکن شنید ہے لانگ مارچ کے لئے دسمبر کو موزوں قرار دیا جا رہا ہے۔ اس سے قبل لاہور، کراچی، کوئٹہ اور پشاور میں بڑے جلسے منعقد کئے جائیں گے، پھر لاہور سے اسلام آباد کی جانب مارچ کرنے کی کال دی جائے گی۔ سر دست پی پی پی اور اے این پی، پی ڈی ایم سے باہر ہیں۔ پیپلزپارٹی تاحال کوئی متاثر کن سیاسی شو نہیں کر سکی۔ اسلام آباد میں ہونے والی ڈویلپمنٹ سے ’’بےخبر‘‘ قمرزمان کائرہ نے پی ڈی ایم ختم ہونے کا بیان داغ دیا ہے لیکن شاید انہیں معلوم ہی نہیں کہ بلاول تو عشائیوں میں شہباز شریف کے پہلو میں بیٹھے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔ نواز شریف اور آصف علی زرداری کے درمیان موجود دوریاں بھی کسی حد ختم ہو گئی ہے۔ نواز شریف لندن میں بیٹھ کر پاکستان کے سیاسی افق پر ہونے والی تبدیلیوں پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں۔ پارلیمنٹ کی حد تک شہباز شریف اور بلاول بھٹو کے درمیان رابطے بحال ہو گئے ہیں۔ لوہا گرم ہے، پی ڈی ایم نے ایک بار پھر عوام کو سڑکوں پر لانے کا فیصلہ کیا ہے۔ پیپلزپارٹی کو پی ڈی ایم میں دوبارہ واپس لانے کی کوششیں بار آور ہوتی نظر آ رہی ہیں۔ موجودہ غیر معمولی صورتحال نے اپوزیشن جماعتوں کو ایک بار پھر ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا ہونے کا موقع فراہم کردیا ہے۔ پی ڈی ایم کا سربراہی اجلاس جو بوجوہ ملتوی کر دیا گیا ہے، میں لاہور سے اسلام آباد کے لئے لانگ مارچ کے پروگرام کو حتمی شکل دی جائے گی۔ اسلام آباد میں لانگ مارچ کو دھرنے میں تبدیل کرکے ’’عمرانی حکومت‘‘ پر مستعفی ہونے کے لئے دباؤ ڈالا جائے گا۔ اپوزیشن پنجاب اور وفاق میں تحریک عدم اعتماد لانے پر سنجیدگی سے غور کر رہی ہے۔ سب سے پہلے پنجاب میں تحریک عدم اعتماد لائی جا سکتی ہے۔ پنجاب میں تحریک عدم اعتماد میں کامیابی کی صورت میں وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانا آسان ہو جائے گا پھر ان کے پاس مستعفی ہونے یا قومی اسمبلی تحلیل کرنے کے آپشن ہی رہ جائیں گے۔ ’’ون ملین‘‘ سوال یہ ہے کہ کیاعمران خان اِس وقت اکیلے ہو چکے ہیں؟ یہ سوال بھی بڑا اہم ہے کہ کیا مسلم لیگ ن کی اعلیٰ قیادت نے شہباز شریف کے سر پر تاج سجانے کی منظوری دے دی ہے؟ اتحادی جماعتوں کے ’’باغیانہ‘‘ طرزِ عمل نے بھی عمران خان کے لئے پریشان کن صورت حال پیدا کر دی ہے۔ اتحادی جماعتیں بظاہرحکومت کے ساتھ کھڑے ہونے کے نعرے لگا رہی ہیں لیکن کچھ دنوں سے ان کےتیور بدلے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔ انتخابی اصلاحات اور نیب قانون میں ترامیم پر اتحادی جماعتوں نے تحفظات کا اظہار کرکے پارلیمنٹ کا اجلاس ملتوی کرا دیا ہے۔ ایوانِ بالا میں حکومتی اور اتحادی جماعتوں کے ارکان سے ملاقات کے دوران وزیراعظم نے جہاد کے جذبہ سے قانون سازی میں ووٹ دینے کا ’’بھاشن‘‘ دیا تھا لیکن اتحادی جماعتوں کے ’’باغیانہ‘‘ طرزِ عمل نے اسی شام انہیں پارلیمنٹ کا اجلاس ملتوی کرنے پر مجبور کر دیا۔ قومی اسمبلی میں پرائیویٹ ممبرز ڈے پر ایک ہی دن میں دو بلوں پر ہونے والی شکست سے حکومت خاصی شرمندہ نظر آرہی ہے۔ عمرانی حکومت قائم کرنے میں اسٹیبلشمنٹ نے کلیدی کردار ادا کیا ہے لیکن اب وہ صفحہ تار تار ہو گیا ہے جس کے ایک ہونے پر وزیراعظمنازاں تھے۔ اپوزیشن کو بھی حکومت کی اس کمزوری کا علم ہوگیا ہے لہٰذا اب وہ اس کی کمزوری سے پورا فائدہ اٹھانے کی تیاریاں کر رہی ہے۔ پی ٹی آئی کا اتحادی بننے میں سب سے زیادہ سیاسی فائدہ مسلم لیگ ق نے اٹھایا ہے، چوہدری شجاعت حسین اور چوہدری پرویز الٰہی کا شمار ملک کےجہاں دیدہ سیاستدانوں میں ہوتا ہے، انہوں نے پی ٹی آئی سے اتحاد کرکے اپنی سیاسی قوت میں اضافہ کیا ہے۔ مسلم لیگ ن نے اگرچوہدری پرویز الٰہی کو پنجاب کا وزیراعلیٰ بنانے کا ’’کڑوا‘‘ گھونٹ پی لیا تو پھر پنجاب سے تبدیلی کا شروع ہونے والا عمل وفاق میں جا کر ختم ہوگا۔ سیاست میں کل کے دشمن آج کے دوست بن سکتے ہیں۔ وزیراعظم نے شاید ہی کسی موقع پر اپوزیشن سے اپنی نفرت کا اظہار نہ کیا ہو، اپوزیشن کے بارے میں ان کے دل میں کوئی جگہ نہیں یہی وجہ ہے کہ وہ اپوزیشن کے ساتھ بالواسطہ مشاورت تو دور کی بات ہے، اس کے ساتھ بیٹھنے کے لئے تیار نہیں۔ حتیٰ کہ انہوں نے اب تک قومی سلامتی پر پارلیمانی کمیٹی کے کسی اجلاس میں شرکت بھی نہیں کی۔ ’’میں بد عنوان، چور اور ڈاکو سیاست دانوں سے ہاتھ نہیں ملاؤں گا‘‘ یہ جملہ ان کی ہر تقریر کا حصہ بن گیا ہے۔ وزیراعظم چومکھی لڑائی لڑ رہے ہیں لیکن سیاسی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ چومکھی لڑائی لڑنے والا لیڈر بالآخر شکست سے ہی دوچار ہوتا ہے۔ اپوزیشن سے دوستانہ تعلقات استوار کرنے والا لیڈر اقتدار کے مزے لوٹتا ہے۔ پارلیمنٹ میں اپوزیشن کی اسٹیرنگ کمیٹی قائم ہو گئی ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ پارلیمنٹ کی حد تک اپوزیشن متحد ہو گئی ہے اب آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا؟

تازہ ترین