• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پیگی نونن کو امریکی سیاست میں وہی درجہ حاصل ہے جو پاکستان میں قدرت اللہ شہاب کے حصہ میں آیا۔معروف امریکی مصنفہ و کالم نگار نے رونالڈ ریگن کی معاون خصوصی اور تقریر نویس کی حیثیت سے اقتدار کی غلام گردشوں کا نہایت باریک بینی سے مشاہدہ کیا، یوں تو انہوں نے بے شمار کتابیں لکھیں مگر ان کی پانچ کتابوں کو نیویارک بیسٹ سیلر کا اعزاز حاصل ہوا۔اگر میں منصب صدارت کے لئے درکار اوصاف کے ضمن میں پیگی نونن کے الفاظ مستعار لوں۔ تو صدر کے لئے صاحب کردار ہونا شرط اول بھی ہے اور شرط آخر بھی۔صدر کے لئے غیر معمولی ذہین ہونا بھی ضروری نہیں ۔ہیری ٹرومین بہت ذہین وفطین نہیں تھے مگر پھر بھی انہوں نے یورپ کو اسٹالن کے حملوں سے بچایا۔صدر کیلئے چالاک ہونا بھی لازم نہیں ہے۔آپ چالاک لوگوں کو اپنے قریب رکھ کر رائے لے سکتے ہیں،دنیا میں ایوان اقتدار ایسے حاضر دماغ ذہین عبقری شخصیات سے بھرے پڑے ہیں جو آپ کوفوراً مشورہ دے سکتے ہیں کہ کسی بھی حکمت عملی پر کیسے من وعن عملدرآمد کرایا جائے لیکن میں پیگی نونن کی اس رائے سے قطعاً اتفاق نہیں رکھتا۔صدر ریاست کا سب سے سپریم عہدہ ہوتا ہے کردار کی خوبی تو ہر خوبی پر فوقیت رکھتی ہے مگر اس میں فیصلہ کرنے کی جرأت بھی ہونی چاہئے۔آپ چالاک لوگوں اور موقع شناسوں کو ملازم تو رکھ سکتے ہیں لیکن آپ عزت ،شجاعت اور ذہانت نہیں خرید سکتے ۔قومی اخلاقی حس سے لے کر یہ تمام اوصاف پیدائشی خدا کا تحفہ ہوتے ہیں جو منتخب صدر ساتھ لے کر آتا ہے۔ پاکستان کی گزشتہ 65 برس کی تاریخ میں آصف علی زرداری کے بعد ممنون حسین بارہویں صدر ہوں گے ۔ہر دور میں ہر صدر منفرد خوبیوں کے ساتھ نمودار ہوا۔
امریکہ کے37ویں صدر رچرڈ نکسن جن کا سیاسی کیرئیر خود تو تنازعات میں جکڑا رہا مگراکثر کہا کرتے تھے کہ منصب صدارت تک پہنچنا دو قسم کے لوگوں کی خواہش ہوتی ہے۔ پہلی قسم ان لوگوں پر مشتمل ہے جو بڑے کام کرنا چاہتے ہیں جبکہ دوسرے وہ ہیں جو اپنی ذات کو بڑا بنانا چاہتے ہیں۔جیسا کہ نکسن خود چاہتے تھے۔پاکستان میں ایوب خان اور ذوالفقار علی بھٹوکا شمار پہلی قسم کے لوگوں میں کیا جاسکتا ہے۔فیلڈ مارشل ایوب خان عہدہ صدارت پر پہنچنے سے قبل ہی بڑے آدمی بن گئے تھے،مگر اب انہیں بڑے کام کرنے تھے جو وہ نہ کرسکے جبکہ ذوالفقار علی بھٹو جب صدر پاکستان بنے تب بھی بڑے آدمی تھے اور ملک کے لئے بڑے کام کرنے کا حوصلہ بھی رکھتے تھے۔ ذوالفقار علی بھٹو کی بڑائی ان کی جرأت تھی۔ پیپلزپارٹی کے تیسرے صدر آصف علی زرداری بھی پہلی قسم کے مستحق ہیں۔دولت کے حریص ضرور ہیں،مگر بڑے کام کرنا کا جذبہ رکھتے تھے۔اگر تاریخ پر نگاہ دوڑائی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یحییٰ خان کے علاوہ باقی جتنے بھی صدور منصب صدارت پربراجمان ہوئے۔نکسن کی دوسری کٹیگری میں آتے ہیں جبکہ یحییٰ خان دونوں قسموں میں سے کسی میں بھی اپنی ذات کو نہ سمو سکے ۔نہ تو انہیں بڑا کام کرنے کا شوق تھااور نہ بڑ ا آدمی بننے کی تمنا رکھتے تھے۔بس اپنی نادانیوں سے ملک کو ناقابل تلافی حد تک نقصان پہنچانے میں مگن رہتے تھے۔
اب جب ایوان صدر کی فضائیں اپنے نئے صدر ممنون کی منتظر ہیں تو یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ بارہویں صدر پاکستان کس قسم کے لوگوں میں شمارہوتے ہیں۔ مسلم لیگ ن کے پاس نومنتخب صدر ممنون سے بہتر کئی قدآور شخصیا ت موجود تھیں ۔جن کی فہم و فراست سے فائدہ اٹھایا جا سکتا تھا مگر پھر بھی انہیں یہ اعزاز بخشا گیا۔ ممنون حسین کو دیکھ کر اینڈریو سنکلیر کی بات یاد آجاتی ہے۔’ہارڈنگ کو جب بتایا گیا کہ وہ امریکہ کے صدر منتخب ہوگئے ہیں تو چھلانگ مار کر کھڑے ہوگئے اور کہنے لگے اے خدا میری مدد کرنا میں اس عہدے کے قابل نہیں ہوں لیکن پھر بھی مجھے اس کی بے حد ضرورت ہے‘۔عین ممکن ہے کہ بھرپور تنقید کا سامنا کرنے والے ممنون حسین صدر نکسن کی پہلی قسم میں خود کو درج کرانے میں کامیاب ہوجائیں جو بظاہر ممکن دکھائی نہیں دے رہا مگر پرامید رہنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔جبکہ دوسری جانب صوبہ پنجاب کے گورنر کے تقرر پر بھی قابل پارٹی رہنماؤں کے بجائے امپورٹڈ قیادت کو اعزاز بخشا گیا ہے۔چوہدری سرور کو گورنر پنجاب بنانے سے مسلم لیگ ن میں شدید اختلافات جنم لے چکے ہیں۔گزشتہ رات پارٹی کے ایک سینئر رہنما قیادت سے اس قدر نالاں دکھائی دیئے کہ معلوم ہورہا تھا کہ صاحب کہیں وزارت اور اسمبلی رکنیت سے استعفیٰ ہی نہ دے دیں اور الیکشن کمیشن کو لاہور کے ایک مزید حلقے میں انتخابات نہ کرانے پڑجائیں۔ پارٹی میں یہ بات زبان زد عام ہے کہ آمریت اور اپوزیشن میں ذوالفقار کھوسہ جیسے لوگوں کو سامنے رکھا جاتا ہے اور جب اقتدار نصیب ہو جاتا ہے تو امپورٹڈ قیادت منگوالی جاتی ہے۔سابق گورنر پنجاب سے لے کر نئے گورنر پنجاب کی تعیناتی تک کی روداد بڑی دلچسپ ہے۔میاں شہباز شریف نے فیصلہ تو جنرل الیکشن کے دوران ہی کرلیا تھا کہ کسے ،کب اور کیسے گورنر لگانا ہے؟ اسی لئے عام انتخابات کے فوراً بعد وزیراعلیٰ پنجاب کے سابقہ دیرینہ دوست مخدوم احمد نے استعفیٰ دے دیا تھا تاکہ بھرم بھی برقرار رہ جائے اور شہباز شریف کو زیادہ مشکل بھی پیش نہ آئے لیکن میاں شہباز شریف سے ان کی پرانی رفاقت تھی۔ویسے چوہدری سرور صاحب کی برطانوی شہریت کا مسئلہ بھی لٹکا ہوا تھا۔شہریت چھوڑنے کے مرحلے میں چند ماہ درکار ہوتے ہیں۔ اسی لئے میاں صاحب نے خود مخدوم احمد محمود کو کہا کہ نئے صدر کی تعیناتی تک آپ عہدے پر براجمان رہیں جبکہ دوسری جانب پارٹی رہنماؤں سے مشاورت کے بعد گورنر پنجاب کے لئے تین نام دے دیئے گئے۔جو تینوں ہی سینیٹر تھے۔جعفر اقبال اور رفیق رجوانہ کا نام تو پارٹی رہنماؤں کے لئے حیران کن تھا مگر سردار ذوالفقار کھوسہ سے تو میاں نواز شریف نے چند ماہ قبل خود وعدہ کیا تھا کہ آپ پارٹی کی پنجاب صدارت سے دستبردار ہوجائیں ۔اگر مسلم لیگ ن مرکز میں حکومت بنانے میں کامیاب ہوگئی تو آپ کو 12اکتوبر 1999ء والی پوزیشن دی جائے گی۔یاد رہے کہ 12اکتوبر 99ء کو ذوالفقار کھوسہ کو گورنر بنے ایک ماہ ہوا تھا کہ جمہوری حکومت کو برطرف کر دیا گیا۔اس صورتحال میں جعفر اقبال اور رفیق رجوانہ کو سامنے لانے کا مقصد بظاہر پارٹی کے اندرہی اختلاف پیدا کرنا تھا تاکہ تینوں امیدوار گورنری کی دوڑ سے باہر ہو جائیں گے اور ایسا ہی ہوا۔ وگرنہ ذوالفقار کھوسہ کا سیاسی قد کاٹھ اور پارٹی کے لئے لازوال قربانیاں بھلائی نہیں جاسکتیں۔مسئلہ یہاں ذوالفقار کھوسہ یا رفیق رجوانہ کا نہیں ،عوام کی توقعات کا ہے۔چوہدری سرور صاحب سے میرے ذاتی تعلقات ہیں ۔ذاتی تعلق سے ہٹ کر میرٹ اور اصول کی جوبھی تعریف کر لی جائے چوہدوری سرور گورنری کے لئے مس فٹ تھے۔
پنجاب کا گورنرایسے شخص کو ہونا چاہئے تھا جو پنجاب کے عوام میں سے ہو،عوامی درد رکھتا ہوں اور ان کے جذبات کا صحیح ترجمان ہوں۔جو شخص سالہا سال سے بیرون ملک مقیم ہیں،اسے کیا علم کے پنجاب کے تو 50 فیصد علاقوں میں 50ملی میٹر بارش ہوجائے تو سیلاب کے خطرات منڈلانے لگ جاتے ہیں۔صوبے کے90 فیصد علاقوں میں سیکڑوں ہلاکتیں تو بارش کے باعث کرنٹ لگنے سے ہوتی ہیں جبکہ ہمارے چوہدری سرور کے لندن میں کئی کئی دن لگاتار بارشوں کے باوجو ایساکوئی انہونا واقعہ پیش نہیں آتا۔چوہدری سرور یقینا باصلاحیت ہیں۔لیکن ان کی صلاحیتوں سے کسی اور جگہ پر درست انداز میں فائدہ اٹھایا جا سکتا تھا۔ عوام نے مسلم لیگ ن کو بھرپور مینڈیٹ دیا ہے جس کا تقاضا بھی یہی تھاکہ اقتدار کی کرسی ایسے شخص کو دی جائے جو عوامی مسائل سے آشنا ہو۔حکومت کے اس فیصلے سے جنوبی پنجاب کے عوام میں بھی سخت مایوسی پائی جارہی ہے۔ایک مرتبہ پھر بدترین سیلابی آفت سے نبرد آزما ہونے والے عوام کا کوئی بھی منتخب نمائندہ کابینہ کا حصہ نہیں ہے ۔راجن پور سے جس شخصیت کو ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی کا عہدہ دیا گیا ہے انہیں عام انتخابات والے روز پریذائڈنگ آفیسر پر تشدد کرنے پرتین روزہ ریمانڈ پرجیل بھیج دیا گیا تھا مگر اقتدارآتے ہی دباؤ ڈلواکر نہ صرف مقدمہ خارج کرایا گیا بلکہ انہیں ڈپٹی اسپیکر کے عہدے کے لئے بھی نامزد کردیا گیا۔ ایسی صورتحال میں جب جنوبی پنجاب کے عوام میں احساس محرومی روز بروز بڑھ رہا ہے تو اسے دور کرنے کے لئے اس علاقے سے کسی بھی باصلاحیت شخص کو گورنر پنجاب بنایا جاسکتا تھا۔جس کا مسلم لیگ ن کو پارٹی کے اندر بھی فائدہ ہوتا اور عوام بھی مطمئن ہو جاتے۔حاصل کلام یہ ہے کہ مسلم لیگ ن کی جانب سے کئے گئے حالیہ فیصلوں کے دورس نتائج بہت خوفناک ہوسکتے ہیں۔شاید ہمارے حکمران اقتدار ملتے ہی یہ بھول جاتے ہیں کہ اقتدار کی عظمت کے ساتھ احتساب کی ہیبت بھی جڑی ہوتی ہے۔
تازہ ترین