• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وست وہ جو مشکل میں کام آئے، جیسے 1947 میں ایران ہمارے کام آیا، اور آج سعودی عرب آگے بڑھا اور ہمیں کسی اور کے آگے کاسہ لیسی سے بچا لیا۔ سعودی عرب پاکستان کا ایسا ہی دوست ہے جیسا امریکہ، انگلینڈ کا یعنی دونوں کو ہمیشہ ساتھ پایا۔ 

پاکستان کے وزیر اعظم سےنالاں سعودی عرب نے ثابت کیا کہ اس کا تعلق شخصیت سے نہیں بلکہ ایک قوم سے ہے جس کا نام پاکستان ہے اور پاکستان نے بھی کئی موقعوں پر سعودی عرب کا جس طرح ساتھ دیا اس کی بین الاقوامی تعلقات میں نظیر نہیں ملتی۔ سعودی عرب کی سلامتی پر اسلامی جمہوریہ پاکستان کا ہمیشہ سے یہ واضح موقف رہا ہے کہ سعودی عرب کو خطرہ ہوا تو پاکستان خاموش نہیں بیٹھے گا۔ 

یوں بھی پاکستان کے سابق آرمی چیف سعودی عرب میں اہم کردار ادا کررہے ہیں اور پاکستان کی افواج بھی اگر سعودی عرب کو کوئی خطرہ ہوا تو وہاں کی مسلح افواج کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑی نظر آئیں گی جس طرح پاکستان کے معاشی حالات چل رہے ہیں اور جس بات کا تقاضہ آئی ایم ایف کررہا ہے اور جو کچھ اسٹیٹ بینک کا گورنر اس ملک کے حکمرانوں سے کروانا چاہتا ہے وہ کسی سے چھپا ڈھکا نہیں ہے۔ 

ان ساری اقتصادی مشکلات سے نمٹنے کے لیے سعودی عرب نے پاکستان کو اس کے زرِ مبادلہ کے ذخائر بڑھانے کے لیے تین ارب ڈالر دینے کا فیصلہ کیا ہے اور ساتھ ہی تیل کی خریداری میں بھی مدد دینے کا فیصلہ کیا ہے اور ایسا فیصلہ پہلی بار نہیں ہوا پہلے بھی سعودی عرب اس طرح کے حالات میں پاکستان کی مدد کرچکا ہے۔

اسلامی جمہوریہ پاکستان کو سعودی عرب کی طرف سے 3 ارب ڈالر دینے اور مؤخر ادائیگی پر پٹرولیم مصنوعات فراہم کرنے کے فیصلوں کے بعد انٹر بنک مارکیٹ میں ڈالر کی قدر میں 2 روپے 49 پیسے کی کمی دیکھنے میں آئی۔ 

رواں کاروباری ہفتے کے تیسرے روز امریکی ڈالر 2 روپے 49 پیسے کمی کے بعد 172 روپے 80 پیسے پر ٹریڈ ہوا جبکہ اوپن مارکیٹ میں ڈالر ایک روپیہ کی کمی سے 175 روپے 40 پیسے پر فروخت ہوا۔ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی بےقدری کی وجہ سے پاکستان میں مہنگائی کا نہ تھمنے والااضافہ جاری ہے، بیروزگاری بڑھ رہی ہے۔ 

غربت میں اضافہ ہورہا ہے، لوگ خود کشیاں کررہے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ سعودی عرب کے پاکستان کو تین ارب ڈالر دینے کے بعد ڈالر کی قیمت میں جو کمی آئی ہے اس سے غریب کی صحت پر کیا آثر پڑے گا۔ کیا آٹا چینی اور دال سستی ہوگی ؟ یا پھر ڈالر ہی سستا ہوگا جس کا غریب سے کوئی سروکار نہیں۔

عوام کو ریلیف کون دے گا یا صرف زبانی جمع خرچ کیا جاتا رہے گا۔ عمران خان کے دعوے کہاں گئے کہ جب ڈالر مہنگا ہوتا ہے تو حکمران چور ہوتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ چونکہ میرا یقین ہے کہ میرا وزیر اعظم سب کچھ جانتا ہے۔ اسے سب کچھ علم ہے۔

وہ ڈالر کو ڈالر سے زیادہ جانتا ہے، وہ مہنگائی کو مہنگائی سے زیادہ جانتا ہے اور اس کی کوشش ضرور ہوگی کہ مہنگائی کم ہو لیکن کوششوں سے مہنگائی کم ہوتی تو کیا ہی بات تھی۔ جناب یہ بیماری ہے جس کے لیے علاج کے ساتھ دوا کی ضرورت ہے۔

تحریک انصاف کی حکومت کے ساڑے تین سال بعد بھی حالات ابھی تک قابو میں نہیں آسکے، مہنگائی روز بروز بڑھ رہی ہے، ڈالر سے مہنگائی کو نتھی کرنے والے دانشور یہ بات ماننے کو تیار نہیں کہ مہنگائی کا تعلق حکومت کی کوتاہی سے جڑا ہوتا ہے۔ 

مہنگائی کو کھلی چھوٹ ملی ہوئی ہے کیوں کہ حکومت چھٹی پر گئی ہوئی ہے اب یہ چھٹی موسم سرما کی ہے یا موسم اقتدار کی مگر یہ ایسی چھٹی ہے جس کا مہنگائی بھرپور فائدہ اٹھا رہی ہے۔

2018ء کے مقابلے میں آج اشیائے ضروریہ کی قیمتیں چار گنا زائد ہیں، مگر کوئی اس بات کو ماننے کے لیے تیار نہیں کہ جن آشیاہ کی ملک میں کمی نہیں اور کافی بڑی تعداد میں موجود ہیں وہ بھی 4 گنا مہنگی ہوچکی ہیں۔

پاکستان کے معاشی حالات کو دیکھتے ہوئے ہمارے پرانے دوست چین اور سعودی عرب سمیت دیگر بہت سے دوست ہمیں کسی نہ کسی طرح مشکل وقت میں سہارا دے دیتے ہیں یعنی یوں کہنا غلط نہ ہوگا کہ یہ ممالک پاکستان کے عوام کا مشکل وقت میں ساتھ دیتے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ حکمران خاص طور پر موجودہ حکمران کیا کر رہے ہیں وہ اپنے عوام کو مشکل وقت میں کیوں تنہا چھوڑ دیتے ہیں ؟ 

آج مہنگائی کو کم کرنے کا ہتھیار جس حکمران کے ہاتھ میں ہے وہ پاکستانی عوام کو ریلیف فراہم کرنے سے متعلق کس حد تک سنجیدہ ہے ؟ کیا وہ نہیں جانتا کہ چینی کی قیمتوں میں مصنوعی طور پراضافہ کیا گیا ؟ گوداموں میں آج بھی وافر مقدار میں چینی ذخیرہ اندوزوں نے رکھی ہوئی ہے ؟ 

ڈالر آج بھی لاکھوں کی تعداد میں لوگوں کی تجوریوں میں موجود ہیں مگر کوئی تلاشی لینے کو تیار نہیں کیوں کہ بیشتر لوگ حکمرانوں کی چھتری تلے یہ کاروبار کر رہے ہیں، کب تک ہم بیرونی امداد پر انحصار کریں گے ؟ کب تک سعودی عرب اور آئی ایم ایف کے ڈالر کی بدولت ہم ڈالر کو کنٹرول کرتے رہیں گے؟ 

ہم کیوں نہیں ایسی پالیسی بناتے کہ اشیاء خورونوش کی قیمتوں کی ذخیرہ اندوزی بند ہوجائے؟ اور ڈالر جن لوگوں کے بینکوں میں پڑا ہے جبکہ انھیں اس کی ضرورت نہیں ان سے کہا جائے کہ یہ ڈالر امانت ہے اے گھر پر یا بینک میں نہیں حکومت کے خزانے میں رکھیں کیوں کہ پاکستان میں آپ کو روپے کی ضرورت ہے نہ کہ ڈالر کی مگر یہ شائد ہمت والا کام ہے، جو حکمرانوں کے بس کی بات نہیں۔ 

چلیں یہ مشکل کام سہی کیا وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو کسی نے ذخیرہ اندوزی سے نمٹنے کے لیے بھی روک رکھا ہے ؟ کیا یہ حقیقت نہیں کہ جب تک چینی، آٹا اور ادویات مافیاکو قابو نہیں کیا جاتا تب تک مہنگائی اور بے روزگاری پر قابو نہیں پایا جاسکتا، جناب وزیر اعظم آپ کو سعودی عرب نے ریلیف دے۔

اب آپ بھی غریب عوام کو ریلیف دیں اور یہ تب ہی ممکن ہوگا جب ذخیرہ اندوزوں اور ڈالر خوروں کو لگام دی جائے گی، جس کے لیے ڈالر صرف بیرون ملک جانے والے اور امپورٹ ایکسپورٹ کرنے والے کو اپنے اکاونٹ میں رکھنے کا اجازت دی جائے باقی تمام اکاونٹ سیز کردیے جائیں تاکہ لوگ ڈالر کے بدلے قائداعظم محمد علی جناح کو عزت دو کا نعرہ بلند کریں۔

تازہ ترین