• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حکومت غیر آئینی اور غیر قانونی بلز قومی اسمبلی سے پاس کرانا چاہتی ہے۔ وہ خواہ ڈومیسٹک بل ہوں یا ممبر پارلیمنٹ پر پارٹی بدلنے پر قدغن لگانا، درحقیقت یہ بلز یہ واضح کرتے ہیں کہ حکومت آئندہ انتخابات میں اپنے لوگوں کو پابند کرنا چاہتی ہے کہ کوئی تحریک انصاف چھوڑ کر نہ جائے۔ اگر حکومت نے عوام کو ڈیلیور کیا ہوتا تو اس قسم کی متنازعہ قانون سازی کرنے کی ضرورت ہی نہ تھی۔ مگر المیہ یہ ہے کہ حکمرانوں نے عوام کے مسائل میں بے پنا ہ اضافہ کر دیا ہے۔عوام کی زندگی اجیرن ہو چکی ہے۔ پاکستان ایک اسلامی ریاست ہے اور یہاں صرف اور صرف اللہ اور اس کے رسولؐ کا نظام ہی کامیابی کے ساتھ چل سکتا ہے۔ موجودہ حکمرانوں نے گزشتہ تین برسوں میں جو بھی قانون سازی کی، چاہے یہ ایف اے ٹی ایف کے نام پر ہو یا پھر ڈومیسٹک قانون سازی کے نام پر، سب کے پیچھے مغرب کا پریشر تھا۔ عوام کو متاثر کرنے کے لئے حکمرانوں نے مدینہ کی اسلامی فلاحی ریاست جیسے الفاظ استعمال کئےجبکہ اس کے برعکس اقدامات اور قانون سازی کی کوششیں کی جارہی ہیں۔

گزشتہ ساڑھے تین برس میں حکومت سوائے زبانی جمع خرچ کے کچھ بھی قوم کو ڈیلیور نہیں کر سکی۔آج پورے پاکستان میں لوگ مہنگائی، غربت اور بے روزگاری سے تنگ آکر سٹرکوں پر نکلنے پر مجبور ہیں لیکن المیہ یہ ہے کہ وزیر اعظم کو عوام کے دکھ اور تکلیف کا کوئی احساس نہیں۔ ان کا یہ بیان کہ پاکستان نے مہنگائی کا دوسرے ممالک کی نسبت بہتر مقابلہ کیا ہے۔ انتہائی افسوسناک اور یہ لمحہ فکریہ بھی ہے ایسے لگتا ہے کہ وہ پاکستان کے عوام کو مہنگائی کے عذاب میں مبتلا کر کے ان کے زخموںپر نمک چھڑک رہے ہیں۔ پیٹرول کی قیمت میں اضافے کے بعد ایک ہفتے کے دوران بجلی کے نرخوں میں دوسری بار اضافہ قابل مذمت ہے۔ بجلی کی قیمت میں 2.52روپے فی یونٹ اضافے سے صارفین پر 30ارب روپے کا اضافی بوجھ پڑے گا۔حکومت نرخوں میں 52فیصد تک اضافہ کرچکی ہے۔ قومی اسمبلی میں حکومت کو اکثریت ثابت کرنے میں ناکامی، حکمرانوں کی آنکھیں کھولنے کے لئے کافی ہے، اس کے اپنے لوگ اور اتحادی بھی حکومت کی کارکردگی سے مطمئن نظر نہیں آتے۔ پاکستان سنگین بحرانوں کی زد میں ہے جو کہ موجودہ حکمرانوں کی نا تجربہ کاری کا نتیجہ ہے۔ ملک کےبعض سیاسی حلقوں کے مطابق، تحریک انصا ف کی حکومت کوجب تک گھر نہیں بھیج دیا جاتا اس وقت تک معاشی استحکام نہیں آسکتا۔ ملک و قوم کو درپیش مشکلات پر قابو نہ پایا گیا تو اس کے سنگین نتائج برآمد ہوںگے۔ ایک کروڑ نوکریاں اور پچاس لاکھ گھروں کا وعدہ کرنے والوں نے اب سرکاری ملازمین کو فارغ کرنا شروع کردیا ہے۔ ساڑھے تین سال گزرنےکے باوجود وفاقی حکومت کے ماتحت پچاس سے زائد اداروں اور کمپنیوں کے سربراہوں کی تقرری کا عمل مکمل نہیں کیا جاسکا۔ متعلقہ ادارے سربراہان کے بغیر کام کررہے ہیں۔ بدقسمتی یہ ہے کہ وزیراعظم احتساب اور معاشی انصاف کا نعرہ لگا کر برسراقتدار آئے تھے وہ ان دونوں کاموں میں ناکام رہے۔ان کے نعرے اور تقریریں خوشنما ہیں لیکن ان پر عملدرآمد نہیں ہوسکا۔حقیقت یہ ہے کہ ملک میں حقیقی معنوں میں احتساب ہونا چاہئے۔ پینڈورا پیپرز میں شامل افراد کے خلاف جماعت اسلامی ایک بار پھر میدانِ عمل میں آگئی ہے۔ اس نے چند روز قبل سپریم کورٹ میں درخواست جمع کروادی ہے۔ پاناما اسکینڈل کے حوالے سے بھی سب سے پہلے امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے ہی سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا تھا۔پاناما کیس میں تو عمران خان بھی سپریم کورٹ میں پیش ہوئے تھے لیکن پینڈورا پیپرز پر وہ اب تک یہ جرأت نہیں کر سکے ہیں کیونکہ اس میں وفاقی اور پنجاب حکومت کے بعض وزرا کے نا م شامل ہیں۔ بلا تفریق احتساب کا نعرہ بری طرح پٹ چکا ہے۔ پاکستان کو حقیقی اسلامی فلاحی ریاست بنانے کے لئے احتساب کا نظام، بغیر کسی دباؤ کے جاری رکھنے کی ضرورت ہے۔ مگر بدقسمتی سے ہر دورِ حکومت میں احتساب صرف اپوزیشن کو سائیڈ لائن کرنے کے لئے انتقامی حربے کے طور پر استعمال ہوتا رہا ہے۔ یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔حکومت نے کرپشن کے خاتمے کیلئے اب تک کوئی ایک اقدام بھی ایسا نہیں کیا کہ جس کو قابل تحسین سمجھا جائے، بلکہ الٹا نیب کی جانب سے 8سو ارب روپے کی ریکوری پر بھی انگلیاں اٹھائی جارہی ہیں۔قوم کو بتایا جائے کہ نیب ریکوری کی رقم کہاں جمع کی جا رہی ہے؟

تازہ ترین