• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہمارے بعض صحافی صدر ایردوان کی مقبولیت میں بے حد کمی آنے اور سن 2023 کے صدارتی انتخابات میں صدرایردوان کے کسی بھی صورت کامیاب نہ ہونے سے متعلق دعوے کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ یہاں پر سب سے پہلے یہ عرض کردوں کہ صدر ایردوان کو آج بھی ترکی کے تمام سیاسی رہنمائوں پر واضح برتری حاصل ہے اور کوئی بھی لیڈرآج تک ان کی مقبولیت کے عشرِ عشیر تک بھی نہیں پہنچ سکا۔ یہ بات درست ہے کہ صدر ایردوان کی مقبولیت میں عالمی حالات خاص طور پر کوویڈ19کی وجہ سے گزشتہ دو سال میں ملکی اقتصادیات پر پڑنے والے منفی اثرات اور مہنگائی کی وجہ سے کمی آئی ہے لیکن تمام منفی رجحانات کے باوجود اب تک ترکی کی سیاست میں کوئی ایسا لیڈر نظر نہیں آتا جو صدر ایردوان کا مقابلہ کرتا دکھائی دے۔ ترکی میں2023کے صدارتی انتخابات میں حصہ لینے کیلئےصدر ایردوان کی جماعت’’جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی‘‘ اور انکے حلیف دولت باہچے کی جماعت ’’ نیشنلسٹ موومنٹ پارٹی‘‘ پر مشتمل ’’جمہور اتحاد‘‘ اور حزبِ اختلاف کی جماعتوں پر مشتمل اتحاد جسے ’’ملت اتحاد‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے میں’’ری پبلکن پیپلز پارٹی، گڈ پارٹی، سعادت پارٹی، ڈیموکریٹ پارٹی، دیوا پارٹی، فیوچرپارٹی اور کردوں کی پیپلز ڈیمو کریٹک پارٹی‘‘ پر مشتمل ہے۔ جیسا کہ عرض کرچکا ہوں عالمی حالات اور کوویڈ19 کی وجہ سےدنیا کے دیگر ممالک کی طرح ترکی بھی بُری طرح متاثر ہوا ہے اور مہنگائی نے ترک عوام کی کمر توڑ رکھی ہے لیکن حالیہ کچھ عرصے سے ترکی جس تیزی سے ان تمام مشکلات پر قابو پاتے ہوئے حیر ت انگیز رفتار سے ترقی کی راہ پر گامزن ہوا ہے اس نے دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا ہے اور تمام عالمی اور اقتصادی ادارے ترکی سے متعلق آئندہ سال کے لیے ترقی کے تخمینوں پر نظر ثانی کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ کم و بیش تمام ہی عالمی مالیاتی اور اقتصادی اداروں نے ترکی کی سالانہ شرح نمو 6 فیصد سے بڑھ کر آئندہ سال نو فیصد تک پہنچنے کا تخمینہ لگایا ہے جبکہ صدر ایردوان شرح ترقی کے دہرے ڈیجیٹ تک پہنچنے یعنی دس فیصد سے بھی زائد ہونے کا عندیہ دے چکے ہیں۔ اس دوران امریکی صدر جو بائیڈن اور یورپی یونین کے رہنمائوں نے جس طریقے سے صدر ایردوان کو مظلوم مسلمانوں کی کھل کر حمایت کرنے پر نشانہ بنایا اور ترکی کی اقتصادیات کو نقصان پہنچانے کے اقدامات کئے اس سے اگرچہ ترکی کی کرنسی ’’ٹرکش لیرا‘‘ پر منفی اثرات مرتب ہوئے،اس پر قابو پانے کیلئے صدر ایردوان نے اسٹیٹ بینک کے گورنروں کو اوپر تلے تبدیل بھی کیا لیکن ٹرکش لیرے کی قدرو قیمت کو ابھی تک کنٹرول نہیں کیا جاسکا ہےلیکن ترک عوام کو صدر ایردوان پر مکمل بھروسہ ہے اور یہی یقین اور بھروسہ صدر ایردوان کے 2023ء کے انتخابات میں کامیابی کاعندیہ بھی دیتا ہےکیونکہ ماضی کے تمام واقعات صدر ایردوان کی اس خصوصیت کو اجاگر کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ کالم کے آخر میں صدر ایردون کے ’’جمہور اتحاد‘‘ اور حزبِ اختلاف کے ’’ملت اتحاد‘‘ کی کامیابی کے امکانات کو اعدادو شمار کے ذریعے پیش کرتا ہوں تاکہ آپ پر صحیح صورتِ حال واضح ہوسکے۔حالیہ سروئیز کے مطابق حزبِ اختلاف کے ’’ ملت اتحاد‘‘ میں ری پبلکن پیپلز پارٹی کو 25فیصد، گڈ پارٹی کو 10فیصد، پیپلز ڈیموکریٹ پارٹی کو 10فیصد، سعادت پارٹی کو ایک فیصد، دیوا پارٹی اور مستقبل پارٹی کو بھی ایک ایک فیصد سے زائد ووٹ ملنے کی توقع نہیں اورسب سے اہم بات اسی اتحاد میں کردوں کی قومیت پسند ’’پیپلز ڈیموکریٹ پارٹی‘‘اور ترکوں کی قومیت پسند پارٹی’’گڈ پارٹی‘‘ کے درمیان دشمنی کی حد تک اختلافات موجود ہیں جسکے اثرات لازمی طور پر انکے اتحاد پر مرتب ہونگے۔ اس اتحاد کو، اگر آج انتخابات ہوتے ہیں تو، 44 فیصد کے لگ بھگ ووٹ مل سکتے ہیں جبکہ صدر ایردوان کے ’’جمہور اتحاد‘‘ کو اس وقت 48 فیصد کے لگ بھگ ووٹ ملنے کی توقع ہے،تاہم صدر ایردوان جو سیاسی حالات کو اپنے حق میں بدلنے میں اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتے 2023ء تک ملک کو مزید ترقی کی راہ پر گامزن کرتے ہوئے، معیار زندگی بہتر بناکر اور ترک لیرے کو مضبوط بناتے ہوئے بڑی آسانی سےکامیابی کی راہ ہموار کرسکتے ہیں کیونکہ حزبِ اختلاف آپس کے اختلافات کی وجہ سے صدر ایردوان سے مقابلہ کرنے کی سکت نہیں رکھتی۔

تازہ ترین