• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
الیکٹرونک میڈیا جہاں ایک طرف زندگی کے ہر شعبے میں تبدیلیاں لارہا ہے وہاں ماہ رمضان بھی اس سے مبرا نہیں اور رمضان المبارک میں ٹی وی چینلز پر نشر ہونے والی خصوصی رمضان ٹرانسمیشن سے ہر مسلمان مستفید ہوا۔ الیکٹرونک میڈیا پر ماہ رمضان میں جو انقلابی تبدیلیاں آئیں اس کا سہرا ڈاکٹر عامر لیاقت کو جاتا ہے جنہوں نے کچھ سال قبل اس بابرکت ماہ کو ایک فیسٹیول کے طور پر متعارف کرانے کی بنیاد رکھی جس میں ہر سال جدت آتی رہی مگر اس سال ڈاکٹر عامر لیاقت کے پروگرام ”امان رمضان“ نے مقبولیت کے تمام سابقہ ریکارڈ توڑ دیئے، ان کی متاثر کن گفتگو اور انداز بیان نے نہ صرف پاکستان بلکہ ملک سے باہر کروڑوں ناظرین کے دل جیت لئے۔ اس پروگرام سے جہاں ایک طرف لوگوں میں مذہب میں دلچسپی اور دینی معلومات میں اضافہ ہوا وہاں اللہ تعالیٰ نے ان کے پروگرام کو غریبوں کی مدد کا وسیلہ بھی بنایا اور انعامات کی ایسی بارش ہوئی جس سے ان ہزاروں غریبوں اور بیماروں کی مدد ہوئی جن کی اس سے قبل کوئی شنوائی نہیں ہوتی تھی۔
عامر لیاقت کے پروگرام ”امان رمضان“ کی ایک خصوصیت یہ بھی رہی کہ انہوں نے اس پروگرام میں ایک طرف مختلف مکاتب فکر کے علماء کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا جس سے بین المذاہب ہم آہنگی پیدا ہوئی جبکہ دوسری طرف ان کی والدہ کے نام پر قائم محمودہ سلطانہ فاؤنڈیشن نے ہزاروں غریبوں اور بیواؤں کو مالی مدد فراہم کی۔ پروگرام کے دوران ملک اور بیرون ملک مقیم پاکستانیوں نے ٹیلیفون پر پروگرام میں شریک مستحق افراد کی فوری طور پر مالی مدد کی یقین دہانی کرائی۔ عامر لیاقت کے شروع کردہ پروگرام کے فارمیٹ کو دوسرے ٹی وی چینلز اور اینکرز نے بھی اپنایا لیکن جو جدت ان کے حصے میں آئی وہ کسی اور کو حاصل نہ ہوسکی۔ عامر لیاقت کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ وہ نہ صرف بڑوں بلکہ بچوں میں بھی بے حد مقبول ہیں۔ لاعلاج مرض میں مبتلا میک اے وش پاکستان کی13 سالہ عظمیٰ اور 12 سالہ نیہا جو خون کے کینسر میں مبتلا ہیں، کی کئی ماہ سے یہ آخری خواہش تھی کہ وہ ڈاکٹر عامر لیاقت سے ملاقات کریں اور ان کے ساتھ کچھ وقت گزاریں۔ یہ پہلی بار نہیں ہوا بلکہ اس سے قبل بھی میک اے وش کے کئی لاعلاج بچوں کی خواہش پر ان کی ملاقات ڈاکٹر عامر لیاقت سے کرائی جاچکی ہے جبکہ محمودہ سلطانہ فاؤنڈیشن ہر سال میک اے وش کے کچھ بچوں کی عمرے کی خواہشات کی تکمیل بھی کرتا رہا ہے۔ اس طرح جب گزشتہ دنوں ڈاکٹر صاحب نے مجھے اپنے پروگرام ”امان رمضان“ میں مدعو کیا تو ان 2 بیمار بچیوں کو بھی ساتھ لانے کی تاکید کی جو ان سے ملاقات کی خواہشمند تھیں۔ وقت مقررہ پر جب میں ان 2 بچیوں کے ہمراہ ”امان رمضان“ کے سیٹ پر پہنچا توعامر لیاقت سے ملاقات کی خواہشمند بچیوں کی کیفیت قابل دید تھی۔ پروگرام کے سیٹ کو دیکھ کر میں بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکا۔ مجھے بتایا گیا کہ اس سیٹ کو ڈاکٹر عامر لیاقت نے اپنی نگرانی میں تیار کرایا ہے، اس کی ایک ایک چیز خود انہوں نے اپنے ہاتھوں سے دبئی سے خریدی ہیں اور معیار کے معاملے میں کوئی سمجھوتہ نہیں کیا۔ اس طرح 2 کروڑ روپے کی لاگت سے تقریباً 2 ماہ میں تیار کئے جانے والے اس سیٹ کو دنیا کے خوبصورت ترین سیٹوں میں شمار کیا گیا۔
پروگرام کے دوران ڈاکٹر عامر لیاقت دونوں بچیوں سے بڑی محبت اور شفقت سے ملے اور ان کی بیماری کے بارے میں دریافت کیا۔ بچیوں نے بتایا کہ وہ ان کی بہت بڑی فین ہیں اور ان کی نعتوں اور دینی پروگرام میں متاثر کن گفتگو اور انداز بیان کی بڑی دلدادہ ہیں، آج انہیں یقین نہیں آرہا کہ وہ اپنی من پسند شخصیت سے ملاقات کررہی ہیں۔ بچیوں نے یہ بھی بتایا کہ ہر 15 روز بعد خون کی تبدیلی کیلئے وہ بسوں میں بیٹھ کر اسپتال جاتی ہیں۔ ڈاکٹر عامر لیاقت نے بچیوں کے والد کیلئے موٹر سائیکلوں کا تحفہ دیا تاکہ بچیوں کو بسوں میں پیش آنے والی تکالیف کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ اس کے علاوہ بچیوں کو بے شمار دیگر تحائف بھی دیئے گئے۔ اس موقع پر ڈاکٹر عامر لیاقت نے ان بچیوں اور میک اے وش پاکستان کے دیگر بچوں کی صحت یابی کیلئے دعا بھی کی اور میک اے وش کو اپنے تعاون کا یقین دلایا۔
ڈاکٹر عامر لیاقت نے اپنے خوبصورت انداز بیان سے جس طرح ”امان رمضان“ کو پوری دنیا میں پاکستان کی پہچان بنایا اور مقبولیت کے جو ریکارڈ قائم کئے وہ اس سے قبل کسی چینل اور ٹی وی پروگرام کے حصے میں نہیں آئے۔ اس طرح ڈاکٹر عامر لیاقت میڈیا کی سب سے زیادہ دیکھی اور پسند کی جانے والی شخصیت بن گئے اور ان کے پروگرام کو دنیا کے دوسرے چینلز اور اخبارات بھی سراہنے پر مجبور ہوئے۔ سی این این نے ڈاکٹر عامر لیاقت کو غریبوں پر تحفوں کی بارش کرنے پر پاکستان کا ”سانتا کلاز“ قرار دیا مگر ساتھ ہی اس میں تنقید کا عنصر بھی شامل رہا۔ دنیا کے دوسرے بڑے نشریاتی ادارے اے ایف پی، عرب نیوز، نیویارک ٹائمز، ہندوستان ٹائمز، ٹیلی گراف اور بی بی سی بھی ڈاکٹر عامر لیاقت اور ان کے پروگرام کی طرف متوجہ ہوئے۔ نیویارک ٹائمز نے ڈاکٹر عامر لیاقت کو پاکستان کا ”سپر اسٹار“ قرار دیا جبکہ ہندوستان ٹائمز نے ان کے پروگرام کے بارے میں لکھا کہ ”ڈاکٹر عامر لیاقت کا پروگرام اسلام کی درست عکاسی ہے جہاں غریبوں کی شنوائی کرکے ان کی مدد کی جاتی ہے“۔ پروگرام کے اختتام پر جب میں بچیوں کا ہاتھ تھامے ”امان رمضان“ سے رخصت ہوا تو ان بچیوں کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو اور لبوں پر ڈاکٹر صاحب کیلئے دعائیں تھیں۔ مجھے اس بات پر یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ جب کسی نیک کام کیلئے اپنے کسی بندے کا انتخاب کرتا ہے تو اسے اس بات کا علم نہیں ہوتا کہ وہ کس مقصد کیلئے چنا گیا ہے۔ شاید ڈاکٹر عامر لیاقت کے ساتھ بھی یہی کچھ ہوا جب کچھ سال قبل انہوں نے رمضان المبارک میں خصوصی ٹرانسمیشن کی بنیاد رکھی تو شاید انہیں بھی اس بات کا اندازہ نہ تھا کہ ایک دن ان کے پروگرام کو اتنی مقبولیت حاصل ہوگی اور وہ ان کی پہچان بن جائے گا۔ ڈاکٹر عامر لیاقت پاکستانی میڈیا کی تاریخ کی طویل ترین اور منفرد نشریات پیش کرنے پر مبارکباد کے مستحق ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ جو پذیرائی انہیں حاصل ہوئی ہے وہ کسی اور کے حصے میں نہیں آئی۔ ہمیں چاہئے کہ ہم اپنے اندر کی تلخیوں اور نفرتوں کو نکال کر محبت اور ایثار بانٹیں، تاریکیوں کا شکوہ کرنے اور مایوسی پھیلانے کے بجائے خاموشی سے ایسے کام کریں جو دوسروں کی زندگیوں میں خوشیاں لاسکتے ہوں۔ ہمیں حسد کی باتوں کے بجائے آگے بڑھ کر ان لوگوں کی مدد کرنی چاہئے، جہاں تک عامر لیاقت نہیں پہنچ سکے۔ اس کے ساتھ ساتھ جو اسپرٹ رمضان المبارک میں قائم ہوتی ہے اُسے سال بھر برقرار رکھنا چاہئے۔
تازہ ترین