• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ناقابل یقین ناقابل برداشت 60 سالہ باپ اپنے ماہِ شب ِچار دہم کو لحد میں اتار رہا تھا۔ ذہن ماؤف ، دل ٹکڑے ٹکڑے ، آنکھیں سیلاب کی زد میں ، کلیجہ دھواں دھواں اور جگر پاش پاش۔ نورِ چشم منوں مٹی کے نیچے اور کل تک توانا والدحالت ِ نزاع میں نور سے محروم۔ ایک قیامت جو برادرم میاں محمود الرشید کے اوپرگزر گئی۔
جاتے ہوئے کہتے ہو قیامت کو ملیں گے
کیاخوب! قیامت کا ہے گویا کوئی دن اور
ابھی کل ہی برادرمحترم صفدر جاوید سیدنے خوبرو ،چہکتے جگرگوشہ 24 سالہ حسنین کو بغیر آنسو ٹپکائے لحد میں اتارابظاہر آنکھیں خشک لیکن جگر خون خون اور کلیجہ پارہ پارہ ۔کل کا واقعہ بھی دلخراش اورآج یہ موت بھی انہونی ۔ جنازہ ایسا کہ خلقت ِ خدا سمائے نہیں سما رہی تھی ۔ جماعت ِ اسلامی ، تحریک ِ انصاف، مسلم لیگ ن کثیر تعداد میں باہم پیوست ایسے کہ محمود الرشید کا غم بانٹنے میں ایک دوسرے پر سبقت کے متمنی ۔ بیوروکریسی بھی موجوداور ٹیکنوکریسی بھی۔ سیاسی سماجی، مذہبی کارکن ایسے پژمردہ حال کہ دلخراش سانحے نے بنا دیا تھا بے حال ۔ اللہ تعالیٰ صفدر جاوید سید اور میاں محمود الرشید کے جگرگوشوں کو غریقِ رحمت کرے، جنت کے اعلیٰ مقام میں جگہ دے اور والدین کی بخشش کا ذریعہ و وسیلہ بنائے (آمین)۔
برخوردار حافظ محمود حسین کی موت نے صرف ذہنوں کو ہی شل کیا تھا لیکن کمال ہے احوالِ وطن کاکہ حواس ِ خمسہ معطل ہوچکے ۔ وطن عزیز ہر لمحہ ہر لحظہ خون اور آگ کی داستانِ الم پیش کر رہا ہے۔عجیب منظر نئی نویلی حکومت بظاہر مضبوط جبکہ ریاست کھوکھلی ۔
11 مئی کے انتخاب کے بعد گمان تھا کہ نئے چہرے ، نئے عزم ،نئے ولولے کچھ امید کے دیپک جلا پائیں گے۔ الیکشن کے نتائج دلچسپ بھی بہت تھے۔ مرکز اور پنجاب میں جناب نواز شریف ،زرداری صاحب صوبہ سندھ کے سیاہ و سفید کے مالک، عمران خان صاحب خیبرپختونخوا میں سریرآراء سلطنت جبکہ ہرقسم کے قوم پرست کثیر القومیتی صوبے بلوچستان کے حکمران قرار پائے۔ حضرت پرویز مشرف کو بھلے ندامت ِ سادات ہی سہی بذلہ سنجی میں کمال حاصل ہے کیا خوب فرماگئے کہ” اگر آئین کو بچاتا تو ریاست ٹوٹتی تھی اور جب ریاست کو بچایا تو آئین ٹوٹ گیا“۔آج وطن ِ عزیز جس بحران سے گزر رہا ہے۔ مراتب کا نشان آئین اور ریاست دونوں ہم رکاب تباہی کی طرف پُر خطر راستے پر تیزی کے ساتھ گامزن ۔ پاکستانی قوم بیچ منجدھار میں بلکہ بند گلی میں 3بڑی پارٹیوں مسلم لیگ ن، تحریکِ انصاف اور پیپلزپارٹی بمع آدھا درجن چھوٹی پارٹیوں کے رحم و کرم پر۔ تیرا کیا بنے گااے قوم ؟سوچ کر ہی دل گھٹتا ہے۔ پچھلی کئی دہائیوں کی ملکی سیاست تو بس اتنا ہی نقش کر چکی کہ سلطانی کی عیاری سے چھٹکارے کا سوچیں تو درویشی عوام الناس کو دبوچنے کے لیے پرعزم نظر آتی ہے۔سادہ لوح عوام بے بسی سے مالکِ کائنات سے سوالی کہ
خداوند یہ تیرے سادہ لوح بندے کدھر جائیں
کہ درویشی بھی عیاری ہے، سلطانی بھی عیاری
”عوام اور ریاست“ آئین و قانون شکنوں کے قبضہ استبداد میں۔پچھلے مہینوں سے اقتدار میں شریک سارے صوبائی و مرکزی فریقوں کی بھاگ دوڑدیدنی لیکن حالات مخدوش سے مخدوش تر ۔ جان کے لالے توپہلے ہی تھے اب وطن ِ عزیز انارکی، خانہ جنگی اور عدم تحفظ کی تصویر بن چکا ہے۔اے میری بدقسمت قوم !موجودہ حالات اورقائدین ہمارے اپنے شامتِ اعمال ہی تو ہیں ۔سرنگ میں ایسی گھٹن ، گھٹا ٹوپ اندھیرا روشنی کی معمولی رمق بھی تونہیں ۔ چند واقعات جو پچھلے دوماہ کی نئی نویلی حکومتوں کے استقبالیہ کے طور پر وقوع پذیر ہوئے اگلے دنوں کی فلم کا ٹریلر ہی تو ہیں ۔کیا آپ نے 11 مئی سے پہلے ایسا واقعہ سنا تھا کہ ڈاکو پولیس کو اغوا کرکے شرائط کی فہرست پیش کریں اور جواباََ ریاستی پولیس دوزانو من وعن قبولیت کا شرف بخشے۔ یہ کیسی بستی ہے جہاں پتھر مقید اور سگ آزاد ہیں۔ یہ کیسے محافظ ہیں جن کی اپنی حفاظت کا پول کھل چکا ؟ جاگتے رہنا حکومت پر نہ چھوڑنا۔ راجن پور میں چھوٹو گینگ پولیس معانقہ کے صدمے سے کیا جانبر ہونا تھا کہ خیبر پختونخواہ کے سانحہ ڈیرہ جیل نے دھلا دیا۔تحریک ِ انصاف کی حکومت ابھی تزئین و آرائش ونمائش کے ابتدائی مراحل میں ہی تھی ۔سارے بلند بانگ دعوؤں کے باوجود اندرونی ہچکولوں سے دوچارتھی ۔ یومِ آغازابھی ہوا نہیں تھاکہ سانحہ ڈیرہ جیل کا المیہ نازل ہو گیا۔ سانحہ بھی ایسا کہ ساراپاکستان آج بھی حالتِ سکتہ میں ہے ۔ دہشت گردیقین محکم، عمل پیہم ،پیشگی اطلاع کے ساتھ ڈیرہ جیل آئے فتح کی اور چل دئیے ۔ درجنوں دہشت گردآئے انتہائی محفوظ علاقے کی محفوظ ترین بلڈنگ ”سنٹرل جیل“ میں بلا خوف و خطر داخل ہوئے نہ پراپرٹی کو نقصان نہ محافظین اور انتظامیہ کو گزند۔ سینکڑوں انتہائی خطرناک قیدیوں کو آزاد کروایااور 60/70 گاڑیوں میں قافلے کی صورت میں سب کچھ روندتے ہوئے چلے گئے۔ جوں تو خیر کیا رینگنی تھی کہ ہماری سیاسی جماعتیں الزام گیم میں یکتائے زمانہ ہیں۔ البتہ عوام الناس حکمرانوں کے ماتھے پر احساسِ زیاں اورندامت کے پسینہ کی ایک بوند دیکھنے کے متمنی ۔
عمران خان صاحب نے خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ سے استعفیٰ طلب کیا اور نہ وزیراعلیٰ میں مستعفی ہونے کی اخلاقی جرأت ۔یاد رہے کہ بنوں جیل ٹوٹنے پر خان صاحب نے پورے شدومد کے ساتھ ANP کو مستعفی ہونے کا مشورہ دیا تھا۔ دہشت گردوں نے ریاست کی یہ توہین ایسے وقت کی جب نارتھ وزیرستان کو زیر نگین لانے کی تیاریاں جاری تھیں۔ گنجی دھوئے گی کیا اور نچوڑے گی کیا؟حکومت سند ھ کی طرف توجہ ہی عبث بوری بند لاش کا نہ ملنا ہی خبر۔ عید کے اوپر اربوں کا بھتہ اور 19 لاشیں جبکہ کل ہی 5 ہاتھ بندھے اوربوری بند لاشیں ریاست پاکستان کا منہ چڑا رہی ہیں۔ بلوچستان میں عید کی چھٹیوں پر جانیوالے لوگوں کو بسوں سے نکال کر چن چن کرقتل کرناپھر بعد ازاں پولیس کا قتل ِ عام۔ بلوچستان حکومت توکونپل ہی نہیں بن پار ہی کھلنا کیا اور مرجھانا کیا۔ البتہ چوہدری نثار علی خان کا کوئٹہ جا کر حالات کا بہ نفس نفیس جائزہ لینا انتہائی قابل ستائش جتنی بھی تعریف کی جائے کم۔ کاش کوئی ڈیرہ اسماعیل خان کا بھی پرسانِ حال ہوتا دل گیری اور حوصلہ افزائی ہی ہو جاتی۔بے حسی بے حسی۔
برائی کی ماں امریکہ جبکہ باپ بھارت۔ ایک عرصے سے براہِ راست بھی اور بذریعہ دہشت گرد وطن عزیز کی اینٹ سے اینٹ بجا رہے ہیں۔ امریکہ کے آگے ہمارے قومی رہنماء ”کانے “کیونکہ تمام بڑے رہنمابیرون ملک کسی نہ کسی واردات میں ملوث ایسے میں برائی کی ماں کے تعاقب میں کہاں تک جایا جا سکتا ہے ۔ افواجِ پاکستان حیرانی کے عالم میں کہ قیادت اپنی ذمہ داری قبول کرے اور فرنٹ فٹ پر آکر عالمی اور علاقائی دہشت گردی پر پالیسی دے جبکہ قائدین کی خواہش کہ فوج خود ہی سے ڈومور(Do More) کرے ۔ کیسی دلچسپ حقیقت کہ امریکہ کا دشمن نمبر1 ایران لیکن کیا مجال کہ ایک ڈرون بھی ایرانی حدود میں داخل ہوپائے ۔آخر ایسا کیوں؟ کیونکہ برق فقط ان بیچارے مسلمانوں پرہی گرے گی جن کے حکمران امریکہ سے آنکھیں چار نہیں کر پاتے۔ باقی امریکہ بہادر نے تو افراتفری، انارکی اور خانہ جنگی کو ہمارا مقدر ٹھہراہی دیا ہے ۔ اللہ کی مدد کا امکان اس لیے کم کہ پورے ملک پر جھوٹ، خیانت اور ظلم کے سائے گہرے ہو چکے۔ تحریک ِ انصاف کے چیئرمین نے دو دن پہلے بڑے پتے کی وارننگ دی ہے کہ ”22 اگست کو ہونے والے ضمنی انتخابات میں اگر دھاندلی ہوئی تو بھرپور تحریک چلائیں گے“۔تحریکِ انصاف کی 17 سالہ مختصر تاریخ ”بعد ازخرابی بسیار“سے مزین ہے جبکہ اپنے ہی فیصلوں کی تضحیک اس پر مستزاد۔ باقی غلطیاں، کوتاہیاں، بلنڈرز، نعرہ ِ مستانے شمار کرنا کسی کے بس میں نہیں۔چنانچہ بیانات اور موقف بدلنا یا ڈٹ جانا دونوں صورتیں عذابِ جان بن چکیں۔رائٹ مین فاردا رانگ جاب اور رانگ مین فار دا رائٹ جاب محبوب مشغلہ ہے۔ خان صاحب کی تازہ دھمکی انتہائی خوش آئند کہ اس دفعہ دھاندلی کے خلاف موثر تحریک کا پہلے ہی سے اہتمام کیا جارہا ہے بلکہ میرا مشورہ کہ چونکہ دھاندلی ہونی ہی ہے کیوں نہ فی الفور احتجاج شروع کر دیا جائے کہ 22اگست کس نے دیکھی ہے ”ہور چُوپو“ کہہ کر ماردھاڑ شروع۔
میرا ایک اہم سوال کہ اندرون ِ خانہ دھاندلی، رعونت، استبداد ، نااہلی ، ناپختگی کاسدباب کیسے ہوگا؟اس پرتادیبی کاروائی کب ہو گی؟۔ ضمنی انتخاب کے موقع پر میرٹ اور سمجھ بوجھ کا جس طرح جنازہ اٹھا اس پر بھی گرفت ہو سکے گی؟میانوالی میں ورکرز پوچھتے ہیں کہ آپ نے جعلی ڈگری والی خاتون کو ٹکٹ کس میرٹ پر دیاتھا۔مجرمانہ غفلت کہ پارٹی قیادت کو جعلی اسنادکا پہلے سے بخولی علم تھا؟اب تو راولپنڈی بورڈ نے عدالت میں یہ شکایت درج کروائی ہے کہ محترمہ کی سند (Forged) اورجعل سازی ہے اوربورڈکی طرف سے FIR کی درخواست میانوالی تھانے کو مل چکی ہے ۔میانوالی کے ورکرزلیڈرشپ کی ہٹ دھرمی اور بے حسی کے خلاف 16 اگست کو پریس کلب کے باہر دھرنا دے رہے ہیں۔معدودے چند پوری کی پوری تحریکِ انصاف چیئرمین صاحب کی اس ضد کے اوپر شاکی اور فکر مند ہے کہ آخرپارٹی قیادت روز روز اایسی ہزیمتیں کیوں برداشت کرتی ہے ؟ غیر اہم سوال کہ اب ملک عبدالوحید کوNA-71 کا ٹکٹ کس میرٹ پر دیا گیا ؟تحریک ِ انصاف یا سیاست سے اس کا تعلق ہی کیاہے؟ مجھے دلی رنج ہو گااگر چیئرمین کے دورانِ دورہ میانوالی سخت نعرے ا ستقبالیہ کا حصہ ہوں ۔بفرض محال NA-71 جس کو PTI کا گڑھ سمجھا گیا PTI ہا رگئی جس کا قوی امکان ہے تو کیا چیئرمین غلطی تسلیم کر کے اپنی گردن پر خون لیں گے ؟
تازہ ترین