• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اسلامی ممالک میں ترکی اور پاکستان دو ایسے جمہوری ممالک ہیں جہاں وقفوں وقفوں سے فوج کسی نہ کسی شکل میں اقتدار پر قابض رہی ہے اور جب اقتدار پر براہ راست قبضہ کرنے کا اسے موقع نہ ملا تو اس نے درپردہ سویلین حکومت پر اپنی گرفت قائم کرنے کی کوشش کی۔ پاکستان میں فوج نے پرویز مشرف کی شکل میں2008ء تک اپنا اقتدار قائم رکھا تو ترکی میں کنعان ایورن کے روپ میں فوج نے 1980ء میں اقتدار پر قبضہ کرتے ہوئے ملک کو1982ء میں آئین عطا کیا اور (بدقسمتی سے ترکی میں آج بھی فوجی حکومت کے تیار کردہ آئین پر عملدرآمد کیا جا رہا ہے سویلین حکومت تمام تر کوششوں کے باوجود ابھی تک ملک میں سویلین آئین تیار کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکی ہے)۔1989ء تک اپنے اقتدار کو جاری رکھا۔ اگرچہ1989ء میں ترگت اوزال نے سویلین صدر کے طور پراختیارات سنبھال لئے لیکن اصل اقتدار فوج کے ہاتھوں میں ہی رہا۔ فوج نے بیرک میں رہتے ہوئے بھی حکومتوں کو تگنی کے ناچ نچانے کا سلسلہ ہمیشہ کی طرح جاری رکھا لیکن یہ بڑی ستم ظریفی ہے کہ ترک فوج اتاترک کے دور میں حاصل کی جانے والی کامیابیوں اور ملک میں برپا کئے جانے والے انقلابات کی آڑ میں ہمیشہ ہی ترک عوام پر اپنی گرفت مضبوط بنانے کی کوششوں میں مصروف رہی ہے اور اس نے اس مقصد کے لئے ری پبلیکن پیپلزپارٹی (جو اتاترک نے قائم کی تھی) کو استعمال کیا (اور ری پبلیکن پیپلزپارٹی نے بھی فوج کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرنے سے کبھی بھی گریز نہ کیا بلکہ نام نہاد اور یکطرفہ سیکولرازم کو فروغ دینے اور اس پر عملدرآمد کرانے میں چولی دامن کا ساتھ رہا) اور مظلوم عوام کو دیوار پر لگاتے ہوئے ان کیلئے سرکاری اداروں کے دروازے بند کردیئے اور مذہب کی جانب جھکاوٴ رکھنے والی جماعتوں کا قلع قمع کردیا۔ جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی ( مختصر نام ”آق پارٹی“) کے برسراقتدار آنے سے قبل صرف نجم الدین ایربکان مرحوم کی پارٹی، دیگر سیاسی جماعتوں کے ساتھ مل کر مخلوط حکومت بنانے میں کامیاب رہی تھی اور نجم الدین ایربکان نے ابھی ایک سال ہی وزیراعظم کے طور پر فرائض ادا کئے تھے کہ بڑے عجیب طرز کے فوجی انقلاب (عجیب طرز کے فوجی انقلاب سے میری مراد فوج کے پردے کے پیچھے رہتے ہوئے حکومت کا تختہ الٹنا ہے۔ ترکی میں اسے 28 فروری پوسٹ ماڈرن مارشل لاکے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے) سے نجم الدین ایربکان کو اقتدار سے محروم کردیا گیا۔ ایربکان حکومت پر مذہب پرستی اور قدامت پرستی کا الزام لگائے جانے کے بعد سیاسی استحکام کو شدید دھچکا لگا اور اقتدار ایک پارٹی سے دوسری پارٹی کو منتقل ہوتا رہا اور ملک اقتصادی بدحالی کا شکار بنتا رہا اور ایک دور ایسا بھی آیا کہ آئی ایم ایف نے ترکی کو قرضہ دینے ہی سے انکار کردیا۔ ملک میں اس سیاسی اور اقتصادی بحران پر اس وقت قابو پانے میں کامیابی حاصل ہوئی جب رجب طیّب ایردوان کی قیادت میں آق پارٹی نے اقتدار حاصل کیا۔
میں اپنے گزشتہ کئی ایک کالموں میں عرض کرچکا ہوں کہ ترکی نے ترگت اوزال کے دور میں ترقی کی جانب اپنے سفر کا آغاز کیا تھا لیکن بعد کے ادوار میں ترکی کے لئے اس سفر کا جاری رکھنا ممکن نہ رہا تاہم بعد میں رجب طیّب ایردوان نے ترگت اوزال کے اس سفر کو وہاں سے شروع کیا جہاں سے اس کا سلسلہ منقطع ہوا تھا۔رجب طیب ایردوان کے گیارہ سالہ دور اقتدار میں ملک میں ہونے والی ترقی کے بارے میں کچھ کہنا سورج کو چراغ دکھانے کی مانند ہے لیکن کتنے ہی افسوس کی بات ہے ملک کی فوج ، ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے والی اس پارٹی کا تختہ الٹنے کا کوئی موقع بھی ہاتھ سے نہیں جانے دیتی رہی ہے۔ فوج نے کئی بار ایردوان حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کی لیکن ہر بار اسے ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ اس وقت تک جن دو سازشوں کا پتہ چلایا گیا ان میں سے ایک ”ایر گینے کون“ اور دوسری ”بالیوز“ نام کی دو مختلف سازشیں ہیں۔
”ایرگینے کون“ نام کی سازش کے بارے میں کی جانے والی ابتدائی تحقیقات کے بعد گزشتہ پانچ سالوں سے خصوصی اختیارات کی مالک سول عدلیہ میں مقدمہ چل رہا تھا جس کا چھ اگست 2013ء کو فیصلہ سنادیا گیا۔ اس فیصلے کی رو سے ملک میں پہلی بار سابق چیف آف جنرل اسٹاف، جنرل (ر) اِلکر باشبو (چیف آف آرمی اسٹاف نہیں کیونکہ ترکی میں چیف آف جنرل اسٹاف کا رینک چیف آف آرمی اسٹاف سے بڑھ کر ہوتا ہے جبکہ ہمارے ہاں آرمی چیف کو چیئرمین جوائنٹ چیف آف اسٹاف کمیٹی پر برتری حاصل ہوتی ہے) جنرل (ر) خورشید تولون، جنرل (ر) حسن ایسز، جنرل (ر) شینر ایروگور، جنرل (ر) نصرت تاش دے لر ، لیفٹینٹ جنرل (ر) مہمت ایراوز کو عمر قید کی سزاسنائی گئی ہے۔ اس کے علاوہ دو وائس چانسلر، دو بریگیڈیر، پانچ کرنل، دو ارکانِ پارلیمینٹ اور صحافیوں سمیت تیرہ افراد کو عمر قید کی سزا سنائی گئی ہے۔ اس سازش میں 275 ملزمان پر مقدمہ چلایا جا رہا تھا جن میں 67 زیر حراست تھے جن میں سابق چیف آف جنرل اسٹاف ، جنرل (ر) اِلکر باشبو بھی شامل تھے۔ مقدمے کی یہ کارروائی گزشتہ پانچ سالوں سے جاری تھی جس کا فیصلہ چھ اگست کو سنادیا گیا تاہم تفصیلی فیصلے کا اعلان بعد میں کیا جائے گا۔ عدلیہ کے جج کی جانب سے فیصلہ سناتے وقت ملزمان کے وکلا نے عدلیہ کا بائیکاٹ کرنے کا فیصلہ کیا لیکن جج نے عدلیہ کے دروازے بند کرتے ہوئے ان تمام وکلا کو فیصلہ سننے کا پابند بنادیا۔ بعد میں ان تمام وکلا نے عدالت سے باہر نکل کر ” ہم سب اتاترک کے سپاہی ہیں“ کے نعرے لگاتے ہوئے حکومت پر شدید تنقید کی جس پر آق پارٹی کے ترجمان حسین چیلیک نے بیان دیتے ہوئے کہا کہ ” اگر اس قسم کے وکلا اتاترک کے سپاہی ہوتے تو اتاترک ان کو اپنے پاس پھٹکنے نہ دیتے بلکہ ان سے آلو چھلوانا تک پسند نہ کرتے“۔ اگر عدلیہ کے اس فیصلے کو اعلیٰ اپیل کورٹ بحال رکھتی ہے تو پھر سابق چیف آف جنرل اسٹاف، جنرل (ر) اِلکر باشبو سمیت دیگر تمام فوجی جنرلوں اور افسران کے رتبے اور رینک واپس لے لئے جائیں گے اور ان کو ایک عام سپاہی کی حیثیت حاصل ہو جائے گی۔عدلیہ کے اس فیصلے کے بارے میں ٹوئٹر پر بیان دیتے ہوئے سابق چیف آف جنرل اسٹاف، جنرل (ر) اِلکر باشبو نے کہا ہے کہ ” ان کو عوام میں جو مرتبہ اور رتبہ حاصل ہے عدلیہ کبھی بھی اس کو ختم نہیں کرسکتی ہے“۔ انہوں نے موجودہ چیف آف جنرل اسٹاف، جنرل نجدت اوزیل کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ”وہ اس بات کو سمجھنے سے قاصر ہیں کہ فوج عدلیہ کے اس فیصلے پر کیوں خاموشی اختیار کئے ہوئے ہے ؟“ جس پر جنرل نجدت اوزیل نے بیان دیتے ہوئے کہا کہ” فوج قانون کے دائرہ کار میں رہتے ہوئے اپنی ذمہ داریوں کو پوری کرنے اور اپنے ملازمین کے احساسات کا خیال رکھتے ہوئے ان کی مدد کو جاری رکھے گی۔” ترکی کی قومی اسمبلی کے اسپیکر جمیل چیچک نے عدلیہ کے اس فیصلے کے بعد بیان دیتے ہوئے کہا کہ ”آق پارٹی کے اقتدار میں آنے سے لے کر اب تک فوج نے اس پارٹی کا تختہ الٹنے کی کوششوں کا آغاز کردیا تھا۔ فوج نے پہلے عدلیہ کے ساتھ مل کر صدرکے منتخب ہونے کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کی تھیں اور پھر آق پارٹی کو کالعدم قرار دینے کی سازش تیار کی اور ان تمام کوششوں کے ناکام رہنے پر آق پارٹی کی حکومت کا تختہ الٹنے کی سازشیں تیار کی جانے لگیں“۔
عدلیہ کے اس فیصلے کے بعد حزب اختلاف کی جماعت ری پبلیکن پیپلز پارٹی کے چیئرمین کمال کلچدار اولو نے بیان دیتے ہوئے کہا کہ ”خصوصی اختیارات کی مالک عدلیہ کے فیصلے غیر قانونی حیثیت رکھتے ہیں اور وہ اس فیصلے کو قبول نہیں کریں گے“ لیکن بڑے ہی مزے کی بات ہے کہ عدلیہ نے ان کی جماعت کے جس رکن ِپارلیمینٹ کو رہا کیا ہے اس کو شرف ِملاقات بخشتے ہوئے انہوں نے بالواسطہ طور پر اس فیصلے کو قبول کرلیا۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ ترکی نے جس طریقے سے فوج پر گرفت کی ہے اور فوجیوں کے درمیان کسی قسم کا امتیاز کئے بغیر ان سب کو عدلیہ کے روبرو پیش کردیا اور مقدمے کی کارروائی کو خوش اسلوبی سے پایہٴ تکمیل تک پہنچایا ہے، کیا پاکستان بھی ترکی کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے فوجی انقلاب برپا کرنے والوں کو عدلیہ کے روبرو پیش کرنے اور مقدمے کی کارروائی کو پایہٴ تکمیل تک پہنچاتے ہوئے آئندہ فوج کو غیر آئینی اقدام اٹھانے سے روک سکتا ہے؟
تازہ ترین