• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
برطانیہ میں بیشتر علماء مذہب کا تعلق پاکستان سے ہے۔ ایک رپورٹ میں اس بات کی نشاندہی کی گئی ہے کہ برطانیہ میں پیدا ہونے والے مذہبی رہنماؤں کی تعداد آٹھ فی صد ہے جن میں سے بیشتر کا تعلق کشور حسین شاد باد سے ہے۔ چیسٹریونیورسٹی نے اپنے ایک حالیہ سروے میں برطانیہ میں موجود 300 مساجد کے ایک جائزے کے بعد اس بات کا انکشاف کیا ہے کہ انگریزی زبان میں خطبہ دینے والے آئمہ کی تعداد صرف چھ فیصد ہے جبکہ 55 فیصد خطبہ اردو میں دیتے ہیں جن میں سے 75 فیصد کی مادری زبان اردو ہے۔ سروے میں اس بات کا بھی انکشاف کیا گیا ہے کہ برطانیہ میں آنے والے 50 فیصد آئمہ مساجد کا تعلق پاکستان سے 15 فیصد کا تعلق بھارت سے اور 20 فیصد کا تعلق بنگلہ دیش سے ہے۔ رپورٹ کے مطابق 45 فیصد آئمہ ایسے ہیں جن کا عرصہ قیام پانچ برس سے بھی کم ہے۔ رپورٹ کے مصنف پروفیسر ران گیویز نے کہا ہے کہ اس سروے سے ایسے مسلمانوں کا نقشہ سامنے آیا ہے جو انتہائی قدامت پسند اور دقیانوسی خیالات کے حامل ہیں جو صرف اپنی مادری زبان اردو بولتے ہیں اور وہ روایتی طرز تعلیم و تربیت پر عمل پیرا ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جس نظام تعلیم سے ان کا تعلق ہے وہ قرون وسطیٰ سے تبدیل نہیں ہوا۔ ادھر ہالینڈ کے ایک اخبار نے رائٹر کے حوالے سے خبر دی ہے کہ جرمنی کے شہر بوشوم میں پولیس نے دو ایسی مساجد میں لوگوں کی (نمازیوں کی) تلاشی لی ہے جن کے بارے میں ان کو شبہ ہے کہ وہاں اسلامی دہشت پسندوں کو پناہ دی جاتی ہے۔ پولیس ترجمان نے بتایا کہ دو مساجد کے باہر 400 افراد کو چیک کیا گیا۔ یہ کارروائی مساجد پر ”چھاپے“ کے زمرے میں نہیں آتی۔ ترجمان نے بتایا کہ نمازی پولیس سے تعاون کر رہے ہیں اور ابھی تک کوئی گرفتاری عمل میں نہیں آئی۔ رائٹر ہی کی ایک دوسری رپورٹ کے مطابق اخبار نے سوئٹزرلینڈ کے شہر زیورخ سے خبر دی ہے کہ اسلامی انتہاپسند یورپی ملکوں کے پیچیدہ قانونی نظام اور اسٹرٹیجک لوکیشن کی وجہ سے سوئٹزرلینڈ کی مساجد کو ”بیس“ کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔ فیڈرل پولیس آفس سوئٹزرلینڈ کی رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ سوئٹزرلینڈ کو اسلامی دہشت پسند، دہشت گردی کے سلسلے میں پروپیگنڈے اور لاجسٹک کو استعمال کر رہے ہیں۔ یورپی یونین کے ممالک میں مختلف جرائم میں قید کاٹنے والے یا مقدمات کا سامنا کرنے والے شدّت پسند اپنے قیام کیلئے متبادل جگہ کے طور پر سوئٹزرلینڈ کو منتخب کر رہے ہیں جس کی بنا پر اس ملک میں نسلی، معاشرتی اور مذہبی کشیدگی میں اضافہ ہو رہا ہے، خصوصاً مسلمانوں کے حوالے سے کہ ان کی نقل مکانی بڑھ رہی ہے اور وہ مقامی آبادی میں گھل مل نہیں پائے۔ ادھر میرے ہمسائے بلجیم کی حکومت نے ملک کی تاریخ میں پہلی بار سرکاری طور پر یہ تسلیم کیا ہے کہ مساجد عبادات کی جگہ ہے۔ اس اعتراف کے ساتھ ہی حکومت نے مساجد کو وہ قانونی حیثیت دے دی ہے جو دوسرے مذاہب کی عبادت گاہوں کو حاصل ہے۔بلجیم مسلم کونسل نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ صوبے فرانکفونی کی حکومت نے اس صوبے کے چار اضلاع کی 43 مساجد کی حیثیت کو تسلیم کرتے ہوئے اسے قانونی حیثیت دے دی ہے۔ اس طرح ان مساجد کو احترام اور قانونی حقوق حاصل ہوں گے جس کی ضمانت ملکی قانون اور تسلیم شدہ مذاہب کے بارے میں آئین میں دی گئی ہے۔ یہاں یہ بات بھی یاد رکھنے والی ہے کہ بیلجیم نے اسلام کو ملک کا مسلمہ مذہب 1974ء میں ہی تسلیم کر لیا تھا مگر مساجد قانونی تحفظ سے محروم تھیں مگر اب اس کی کمی کو بھی پورا کر دیا گیا ہے۔
اب لگے ہاتھوں فرانس کا بھی ذکر ہو جائے۔ ہالان دے کی حکومت نے فرانس میں مساجد کے اماموں کی تربیت یا ٹریننگ کیلئے ایک منصوبہ تیار کیا ہے۔ دراصل منصوبہ تو پہلے سے ہی موجود تھا تاہم اب اس میں پیش رفت ہوئی ہے جس کے تحت ایسے امام پیدا کیے جائیں گے جو اعتدال پسند، روادار اور لبرل اسلام کا پرچار کریں گے، جس کے نتیجے میں نہ تو نمازیوں کی تلاشی لینے کی ضرورت پڑے گی اور نہ اردو میں خطبات دینے کی ضرورت پیش آئے گی، نہ ہی مساجد میں چھاپے مارے جائیں گے اور نہ ہی پولیس کے جوتوں اور کتّوں سمیت خانہٴ خدا میں داخل ہونے کی نوبت آئے گی۔ حکومت فرانس مسلمانوں کو حقوق انسانی اور فرانس کے ضابطہٴ قانون و اخلاق کا احترام کرنا سکھائے گی۔ اس کا سبق لیتے ہوئے نہ کوئی پیش امام خواتین کی سنگ ساری کی حمایت کرے گا اور نہ خاوندوں کو بیویوں پر تشدد کے حق میں فتویٰ دے گا۔ حکومتی ترجمان کا کہنا ہے کہ حکومت ان غیر ملکیوں کو فوری ملک بدر کرے گی جو تشدد، منافرت، نسل پرستی، دہشت گردی، انتہاپسندی اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوں گے۔ اس بات کا درس دیں گے یا ان غیر انسانی کاموں کی وکالت کریں گے۔ یہاں پھر یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ کچھ عرصہ قبل کیون کی مسجد کے امام عبدالقادر بوزین نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ قرآن خاوندوں کو اپنی بیویوں کو پیٹنے کی اجازت دیتا ہے۔ اس انٹرویو کے شائع ہونے پر حکومت فرانس نے عبدالقادر کو ملک بدر کر دیا تھا۔ فرانس کی وزارت داخلہ کے مطابق اس وقت مسلمان کمیونٹی کی تعداد پانچ ملین سے زائد ہے اور اسی طرح اماموں کی تعداد ڈیڑھ ہزار سے زائد ہے، ان میں دس فیصد فرانس کے شہری ہیں جبکہ ان میں سے نصف سے بھی کم فرانسیسی روانی سے بول سکتے ہیں۔ ان کا معاشرتی و مذہبی طریقہٴ کار اور ڈھانچہ فرانس کے سیکولر اور جمہوری قوانین سے متصادم ہے۔ سوال یہ ہے کہ مسلمان کہاں متصادم نہیں ہیں؟ میں بھی سوچتا ہوں، آپ بھی سوچئے۔
تازہ ترین