• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان اور بھارت میں کشیدگی عروج پر ہے۔ لائن آف کنٹرول پر پاکستان اور بھارت کی فوجوں کے درمیان آئے روز کی فائرنگ سے دنیا پر ایک دفعہ پھر واضح ہو رہا ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان اصل تنازعہ کشمیر پر ہے اور جب تک مسئلہ کشمیر حل نہیں ہوتا پاکستان اور بھارت کے درمیان امن کی آشا کبھی حقیقت نہیں بن سکتی۔ حالیہ پاک بھارت کشیدگی پر غور کیا جائے تو صاف پتہ چلتا ہے کہ بھارت کی حکمران کانگریس پارٹی اور اپوزیشن پارٹی بی جے پی 2014 کے انتخابات میں پاکستان کے خلاف نفرت کو ایک سیاسی نعرے کے طور پر استعمال کر رہی ہیں۔ 20 جنوری 2013ء کو بھارتی وزیر داخلہ سوشیل کمار نے میڈیا کے سامنے بی جے پی اور آر ایس ایس پر الزام لگایا کہ یہ دونوں جماعتیں ہندو ٹیرر ازم پھیلانے کے لئے عسکریت پسندوں کو ٹریننگ دے رہی ہیں۔ بی جے پی اور آر ایس ایس نے سوشیل کمار کے اس الزام کے جواب میں کہا کہ کانگریس افضل گرو کو پھانسی کیوں نہیں دیتی؟ کانگریس نے دباؤ میں آ کر افضل گرو کو پھانسی دیدی اور اُن کی لاش کو جیل کے احاطے میں دفن کر دیا۔ افضل گرو کی پھانسی کے خلاف مقبوضہ جموں و کشمیر میں ایک نئی تحریک شروع ہو گئی۔ اس تحریک کو دبانے کیلئے بھارت نے ایک طرف مقبوضہ علاقے میں فرقہ وارانہ فسادات پھیلانے کی کوشش کی اور دوسری طرف لائن آف کنٹرول پر فائرنگ شروع کر دی۔ حالیہ پاک بھارت کشیدگی کے دوران مقبوضہ جموں کے مختلف علاقوں میں بھارتی فوج اور اس کی تیار کردہ ہندو عسکریت پسند تنظیموں نے مسلمانوں پر ظلم و ستم کی انتہا کر دی لیکن میڈیا میں یہ ظلم و ستم نظر نہیں آیا کیونکہ جموں کے مختلف علاقوں میں کرفیو نافذ ہے۔ عید الفطر کے دن کشتواڑ میں بھی فسادات برپا کئے گئے۔ بھارتی فوج ایک منظم منصوبے کے تحت جموں کو مسلمانوں سے پاک کرنے کی کوشش میں مصروف ہے لیکن 66 سال میں اسے کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔ جموں کے مسلمانوں نے 1947ء میں بھی ڈوگرہ فوج کے ظلم کا سامنا کیا ، 1965ء میں پاکستانی فوج کے آپریشن جبرالٹر کی ناکامی کا غصہ بھی جموں کے مسلمانوں پر نکلا اور اب ایک دفعہ پھر جموں کے مسلمان بے یارومددگار ہیں۔ گزشتہ دنوں برٹش لائبریری لندن میں ریسرچ کے دوران مجھے 10 اگست 1948ء کا ٹائمز لندن کا شمارہ دیکھنے کا اتفاق ہوا جس میں کہا گیا تھا کہ ستمبر اور اکتوبر 1947ء میں صرف جموں سے 8 لاکھ مسلمانوں نے پاکستان کی طرف ہجرت کی جن میں سے 2 لاکھ 37 ہزار مسلمانوں کو شہید کیا گیا اور جموں کے مسلمانوں پر ہونے والے اس ظلم کی قیادت خود مہاراجہ ہری سنگھ نے کی تھی۔
اس حقیقت میں کوئی شک نہیں کہ آج پاکستان کو بہت سے اندرونی مسائل کا سامنا ہے اور جموں و کشمیر کے مسلمانوں کے حقوق کے لئے بھارت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنا کافی مشکل ہے لیکن ہم دنیا کے سامنے کچھ تاریخی حقائق رکھ دیں تو ثابت ہو جائے گا کہ پاک بھارت کشیدگی کی اصل وجہ نئی دہلی سرکار کی ہٹ دھرمی اور کانگریس کی دوغلی پالیسی ہے۔ پاکستان میں کچھ دانشور کہتے ہیں کہ اگر 1947ء میں قبائلی لشکر کشمیر پر حملہ نہ کرتا تو بھارتی فوج کو کشمیر پر قبضے کا جواز نہ ملتا۔ یہ درست ہے کہ قبائلی لشکر سے کچھ غلطیاں سرزد ہوئیں لیکن قبائلی شکر کے حملے کی وجہ جموں و کشمیر میں مسلمانوں کا قتل عام تھا۔ برٹش لائبریری لندن میں موجود ریکارڈ یہ گواہی دیتا ہے کہ بھارتی حکومت نے کشمیر پر قبضے کا منصوبہ قبائلی لشکر کے حملے سے بہت پہلے تیار کر لیا تھا۔ 17 اگست 1947ء کو ریڈ کلف ایوارڈ کا اعلان ہوا جس کے مطابق ضلع گورداسپور کی تین تحصیلیں بھارت کے حوالے کر دی گئیں تاکہ بھارت کو جموں پر قبضے کا راستہ مل جائے۔ اگر گورداسپور بھارت کو نہ ملتا تو جموں پر بھارت کبھی قبضہ نہ کر سکتا۔ ریڈ کلف ایوارڈ کے اعلان کے بعد 26 اگست 1947ء کو ڈوگرہ فوج نے ضلع پونچھ میں مسلمانوں پر گولی چلا دی۔ پونچھ میں مارشل لاء نافذ ہو گیا۔ بھارت کے محکمہ ڈاک و تار کی جانب سے یکم ستمبر 1947ء کو ایک میمورنڈم شائع ہوا جس میں ریاست جموں و کشمیر کو بھارت کا حصہ دکھایا گیا حالانکہ حکومت کشمیر اور حکومت پاکستان نے 12 اگست کو ایک عارضی معاہدے میں طے کیا تھا کہ ریاست کے محکمہ مواصلات کی نگرانی پاکستان کرے گا۔ پونچھ کے مسلمانوں کی بغاوت جموں تک پھیل چکی تھی۔ ڈوگرہ فوج کے ظلم کی داستانوں نے صرف پاکستان نہیں بلکہ افغانستان کے مسلمانوں میں بھی بے چینی پھیلا دی تھی۔
برٹش لائبریری لندن میں موجود ریکارڈ کے مطابق کابل میں برطانوی سفارتخانے نے 27 ستمبر 1947ء کو اپنی حکومت کے نام ایک خفیہ مراسلے میں بتایا کہ مختلف افغان قبائل حضرت صاحب شور بازار کی قیادت میں ہندوستان پر حملے کی تیاری کر رہے ہیں۔ افغان وزیر قانون سردار احمد شاہ خان اور ولیٴِ کابل محمد اسماعیل خان قبائلیوں کو حملے سے روکنے کی کوشش میں مصروف تھے۔ اس دوران بھارت نے جونا گڑھ پر فوج کشی کر دی حالانکہ جونا گڑھ نے پاکستان سے الحاق کا اعلان کیا تھا۔ 18 اکتوبر 1947ء کو برطانوی نمائندے گرافٹی سمتھ نے لندن کو ایک مراسلہ بھیجا اور کہا کہ اگر کشمیر کے مہاراجہ نے بھارت کے ساتھ الحاق کا اعلان کیا تو حالات خراب ہو جائیں گے۔ اس مراسلے میں یہ بھی کہا گیا کہ وادی کشمیر اور پونچھ کے مسلمان پاکستان کے ساتھ الحاق کر لیں اور جموں بھارت کے ساتھ الحاق کر لے تو معاملات بہتر ہونے کی بجائے مزید بگڑیں گے۔ اس تجویز کا ذکر صاف بتاتا ہے کہ 1947ء میں بھی تقسیم کشمیر کی سازش پر غور کیا جا رہا تھا۔ انہی دنوں قبائلی لشکر نے مظفر آباد کے راستے سری نگر پر حملہ کر دیا۔ 27 اکتوبر 1947ء کو بھارتی فوج نے سری نگر پر قبضہ کیا تو اسی رات قائداعظم نے پاکستانی فوج کے انگریز سربراہ جنرل گریسی کو حکم دیا کہ وہ جموں پر حملہ کر دے لیکن جنرل گریسی نے اپنے کمانڈر انچیف فیلڈ مارشل آکن لیک کے کہنے پر حملے سے گریز کیا۔ آکن لیک نے 28 اکتوبر کو لندن ایک خفیہ مراسلہ بھیجا اور کہا کہ محمد علی جناح جموں، بارہ مولا اور سری نگر پر قبضہ کرنا چاہتے تھے لیکن ہم نے انہیں بتایا کہ ریاست جموں و کشمیر نے بھارت سے الحاق کر لیا ہے اور ہم حملہ نہیں کر سکتے۔ آکن لیک نے لکھا کہ جناح بہت غصے میں تھے ہم نے انہیں بتایا کہ پاکستان کی فوج بہت کمزور ہے۔ 8 نومبر 1947ء کو آکن لیک نے بتایا کہ قبائلی لشکر سری نگر ایئر پورٹ سے صرف ساڑھے چار میل دور ہے۔ بھارتی ایئرفورس نے کوہالہ کے پل پر بمباری کی اور ایک بھارتی ہوائی جہاز مری میں کریش ہو گیا۔ مقامی لوگوں نے پائلٹ کو گرفتار کر لیا۔ 15 نومبر 1947ء کو گرافٹی سمتھ نے کراچی سے لندن بھجوائے گئے خفیہ مراسلے میں کہا کہ 27 اکتوبر کو قبائلی لشکر بارہ مولا پہنچا تو تین یورپی باشندے مارے گئے دو زخمی ہوئے تاہم ایک پٹھان نے 4 مسیحی راہباؤں کو قتل ہونے سے بچا لیا اور باقی یورپی باشندوں کو قبائلی لشکر نے گاڑی میں بٹھا کر بارہ مولا سے راولپنڈی بھیج دیا۔ اس رپورٹ میں سمتھ نے برطانوی فوج کے میجر کرانسٹن کے حوالے سے کہا کہ مہاراجہ ہری سنگھ کی فوج نے کشمیر میں پھنسے یورپی باشندوں کی کوئی مدد نہیں کی۔ 9 دسمبر 1947ء کو سمتھ نے کراچی میں قائداعظم سے ملاقات کی اور پوچھا کہ آپ نے قبائلیوں کو کیوں نہ روکا تو قائداعظم نے کہا کہ ایک ہی طریقہ تھا کہ اُن پر گولی چلاتے لیکن ہم نے خون خرابے سے گریز کیا۔ کوئی مانے یا نہ مانے لیکن میر پور سے مظفر آباد اور باغ سے اٹھمقام تک آزاد کشمیر کا علاقہ آج قبائلیوں اور مقامی مجاہدین کی قربانیوں کی وجہ سے پاکستان کے ساتھ ہے۔ ہم نے آپریشن جبرالٹر اور کارگل آپریشن جیسی غلطیوں سے کشمیریوں کا مقدمہ کمزور کر دیا ہے لیکن جب تک مسئلہ کشمیر حل نہ ہوا خطے میں امن قائم نہیں ہو سکتا۔ آج ہمیں دنیا کے سامنے یہ سوال رکھنا چاہئے کہ ریاست جونا گڑھ نے پاکستان کے ساتھ الحاق کا اعلان کیا لیکن بھارت نے نامنظور کر دیا کشمیر کے مہاراجہ نے بھارت سے الحاق کا اعلان کیا تو پاکستان نے نامنظور کر دیا لیکن آپ بھارت کی بات مان گئے پاکستان کی نہیں مانتے۔ اگر دنیا نے انصاف سے کام نہ لیا تو پاکستان کی کوئی حکومت کشمیریوں کو بندوق اٹھانے سے نہیں روک سکے گی۔
تازہ ترین