• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
لاہور کے ایک موقر روزنامہ میں ایک ”ڈاکٹر صاحب“ اپنے پر مغز سر پر بڑی سی پگڑی باندھے کالم کے نام پر اللہ جانے کیا لکھتے رہتے ہیں البتہ پڑھنے والے کو یہ اندازہ بہرحال ہو جاتا ہے کہ وہ اپنی بے ”نیازیاں“ظاہر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ان دنوں وہ مجھ سے اپنی اس بے نیازی ہی کی وجہ سے ناراض ہیں۔ موصوف ایک ادبی ادارے کی سربراہی کے خواہاں تھے لیکن میں کچھ کرنے کی پوزیشن میں نہیں تھا ۔ قبلہ گاہی اپنے چوتھے اخبار سے فارغ ہوئے اور جس قابل احترام ایڈیٹر کے وہ قصیدے لکھتے تھے، فراغت کے بعد اس کے نام گالیاں بھرا ایک خط لکھا اور اس کی سینکڑوں فوٹو اسٹیٹ کاپیاں ان کے مداحوں میں تقسیم کیں پھر انہوں نے ہر اخبار کا دروازہ کھٹکھٹایا مگر کسی کا دل نہ پسیجا، ظاہر ہے یہاں بھی میں ان کے لئے کچھ نہیں کر سکتا تھا۔ چنانچہ انہیں واپس اس اخبار میں جانا پڑا جس کے ایڈیٹر کو انہوں نے گالیاں دی تھیں۔ ان کے ”جرمِ خانہ خراب “ کو اسی ”عفو بندہ نواز “ میں پناہ ملی ۔ اب میں منتظر تھا کہ کب وہ ڈنڈے کو کشکول سے الگ کرتے ہیں چنانچہ گزشتہ پیر کو انتظار کی گھڑیاں ختم ہوئیں اور انہوں نے کالم کے نام پر شائع ہونے والی تحریر میں فرمایا کہ چونکہ میں خود گورنر پنجاب بننا چاہتا تھا (لاحول ولاقوة)اس لئے میں نے چودھری سرور صاحب کے گورنر بننے کی مخالفت کی ۔ حالانکہ میں نے اپنے کالم ہی میں لکھا تھا کہ پنجاب کا گورنر جنوبی پنجاب سے ہونا چاہئے ۔
میں اسے حسن اتفاق ہی کہوں گا کہ برادرم رؤف طاہر کا کالم اسی روز ”جنگ“میں شائع ہوا جس روز موصوف نے گورنر پنجاب چودھری محمد سرور صاحب کا قصیدہ پڑھتے ہوئے متذکرہ گوہر افشانی کی اور اس کے علاوہ بھی میرے لئے وہ تمام حرف لکھے جو ان کی ”لغت ہائے حجازی “ میں موجود تھے اور جو کسی شدید مجبوری کے تحت ہی کسی موقر روزنامے میں شائع ہو سکتے تھے ۔ میں ”حضرت“ کے ان فرمودات کا جواب دینے کی بجائے ذیل میں اسی روز شائع ہونے والے برادرم رؤف طاہر کے کالم کا ایک اقتباس درج کرتا ہوں کہ اپنے قلم سے ان باتوں کا بیان مجھے اچھا نہیں لگتا مگر اس سے پہلے انگریزی میں ایک نہایت خوبصورت مقولہ پڑھ لیں۔
People who hate you, are just your confused Admirers, They cant figure out the reason why every one loves you
برادرم رؤف طاہر کے کالم سے ایک اقتباس پیش کرنے کے بعد میں قبلہ گاہی کی شخصیت کا ایک ہلکا سا خاکہ پیش کروں گا، مگر اس سے قبل یہ اقتباس ملاحظہ فرمائیں ۔
بعض”حاسدین نے یہ بے پرکی اڑانے کی کوشش کی ہے کہ عطاء الحق قاسمی پنجاب کی گورنری کے امیدوار تھے، ہم جس قاسمی کو جانتے ہیں وہ پروٹوکول اور سرکاری آداب و تکلفات سے بے نیاز شخص ہے، دوستوں میں قہقہے لگانے اور ہنسنے ہنسانے والے اس شخص کو سرکاری مناصب سے کبھی دلچسپی نہیں رہی ۔ وہ اپنے نظریات اور اپنے دوستوں کے ساتھ وفا نبھانے والا شخص ہے، اپنے دوسرے دور میں نواز شریف نے انہیں ناروے میں پاکستان کا سفیر بنانے کا فیصلہ کیا اور اس پیشکش کو قبول کرنے کیلئے شاہ صاحب اور دیگر دوستوں نے قاسمی صاحب کو کس طرح قائل کیا وہ ایک الگ کہانی ہے، ناروے میں بطور سفیران کی خدمات کے تذکرے کا یہ محل نہیں یہاں دو سال گزارنے کے بعد وہ اگلے دو سال کیلئے تھائی لینڈ میں سفیر ہو گئے، اگلے تین ماہ گزرے تھے کہ 12اکتوبر ہو گیا، مشرف انتظامیہ کی طرف سے پیغام تھا کہ وہ اپنے کنٹریکٹ کے باقی 2سال پورے کریں، اس میں شاید یہ حکمت یا مصلحت تھی کہ اس طرح وہ قاسمی کے زہر بھرے کالموں سے محفوظ رہیں گے، قاسمی نے معذرت کی، اپنا استعفیٰ وزارت خارجہ کو فیکس کیااور پہلی دستیاب پرواز سے وطن واپسی کیلئے ٹکٹ کروالیا، اہلخانہ کیلئے ان کا پیغام تھا کہ انہیں لاہور ایئر پورٹ سے باہر آنے میں دیر ہو جائے تو وہ گھر واپس چلے جائیں، وطن واپسی پر وہ ہر طرح کے حالات کا مقابلہ کرنے کیلئے تیار تھے، فروری 2008ء کے انتخابات کے بعد شہباز شریف حکومت نے انہیں الحمراء آرٹ کونسل کی سربراہی سونپی ، اگلے سال گورنر راج نافذ ہوا تو انہوں نے استعفیٰ ارسال کرنے میں لمحہ بھر کی تاخیر نہ کی، وہ مصاحب نہیں ،مخلص دوست اور سچا مشیر ہے، ہم نے میاں صاحبان سے نجی ملاقاتوں میں انہیں دل کی بات کہتے دیکھا اور سنا ہے، اپنے کالموں میں بھی انہیں دل کی بات لکھنے میں عار نہیں ہوئی ، (اقتباس ختم )
اور اب ”حسب وعدہ “ ڈاکٹر صاحب کی ”بے نیاز “ شخصیت کا ایک مختصر خاکہ!جس روز ”ڈاکٹر “ صاحب کا ”کالم“ شائع ہوتا ہے اس روز دو طرح کے لوگوں کو ڈاکٹر صاحب کا فون آتا ہے یا فون پر میسج موصول ہوتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے جن لوگوں کو مکھن لگایا ہوتا ہے انہیں فون کرکے بتاتے ہیں کہ آج میں نے تمہاری تعریف میں کالم لکھا ہے اور جن پر کیچڑ اچھالا ہوتا ہے انہیں ایک گمنام میسج بھیجا جاتا ہے کہ آج اخبار میں ”ڈاکٹر “ کا کالم پڑھیں ”ڈاکٹر صاحب “جس اخبار میں کالم لکھتے ہیں اس میں شائع ہونے و الی کسی تحریر کے بارے میں کسی کو اطلاع دینے کی ضرورت نہیں ہوتی مگر ”ڈاکٹر صاحب “ کی مجبوری یہ ہے کہ انہیں افراد کے بارے میں لکھے ہوئے اپنے کالم کی اطلاع ان افراد کو ذاتی طور پرپہنچانا ہوتی ہے کیونکہ مردم شماری کالم کی ذیل میں نہیں آتی جو سب پڑھیں صرف یہی نہیں بلکہ جن گھروں میں یہ اخبار نہیں آتا ان کیلئے ڈاکٹر صاحب نے ”ہوم ڈیلیوری سروس“ کا انتظام کر رکھا ہے وہ اپنے کالم کی روزانہ بیسیوں فوٹو کاپیاں کراتے ہیں اور انہیں ا رسال کر دیتے ہیں اس کے علاوہ وہ علی الصبح اپنی ”کچھ“ میں اپنا کالم دبائے گھر سے نکلتے ہیں تاکہ بوقت ضرورت کام آئے اور کوئی خوش نصیب اس کی زد سے نکلنے نہ پائے۔ ایک بہت دلچسپ واقعہ کا میں عینی شاہد ہوں جب چودھری پرویز الٰہی پنجاب کے وزیر اعلیٰ تھے تو مشرقی پنجاب کے وزیر اعلیٰ سردار امریندر سنگھ لاہور آئے اور چودھری صاحب نے ان کے اعزاز میں ایک ضیافت کا اہتمام کیا، سردار امریندر سنگھ جب صحافیوں سے ملاقات کر رہے تھے تو ہمارے ڈاکٹر صاحب نے اپنی ”کچھ“ میں سے اخبار نکال کر انہیں پیش کیا اور کہا ”میں نے آپ کے لئے آج ایک کالم لکھا ہے پڑھ لیجئے“
سردار صاحب نے ہمارے ”سردار صاحب “ کی طرف دیکھا اور بے بسی سے کہا ”مگر مجھے تو اردو پڑھنا نہیں آتی “ ڈاکٹر صاحب نے فرمایا “ کوئی بات نہیں مگر آپ اخبار تو رکھیں!!!
چودھری پرویز الٰہی صاحب کا ذکر آیا ہے تو ڈاکٹر صاحب کی کچھ مزید ”بے نیازیوں“ کا ذکر بھی ہو جائے، چودھری پرویز الٰہی نے ان کے ایک صاحبزادے کو چیف منسٹر ہاؤس میں گریڈ سترہ میں ملازم رکھا، وہ ایک بہت اچھا بچہ ہے، یہ ملازمت اس کا حق تھا، میں یہ تذکرہ باامر مجبوری اس لئے کر رہا ہوں کہ ”ڈاکٹر صاحب “ جب اپنی بے نیازیوں کا تذکرہ کرتے ہیں تو اکثر فرماتے ہیں” میں ایک درویش آدمی ہوں، ساری عمر میں نے وحدت کالونی کے ایک کوارٹر میں بسر کر دی ہے اور آج بھی وہیں رہتا ہوں “جبکہ جسے وہ اپنی بے نیازی اور درویشی قرار دیتے ہیں، وہ دراصل ان کی بدنصیبی اور روپے پیسے کی حرص ہے کیونکہ میں نے اور انہوں نے ایک ہی وقت میں علامہ اقبال ٹاؤن لاہور میں بہت خوبصورت گھر بنائے تھے، میرا گھر ابھی پورا تیار بھی نہیں ہوا تھا کہ اچھرے میں کرائے کا مکان چھوڑ کر میں وہاں منتقل ہو گیا تھا مگر ”ڈاکٹر صاحب “ چونکہ ایک ”درویش صفت انسان “ ہیں چنانچہ انہوں نے اپنا گھر کرائے پر چڑھا دیا اور اپنے لئے سرکاری گھر میں رہائش پسند کی جو صرف ان کا استحقاق ہوتا ہے جن کے پاس اپنا گھر نہ ہو …جب موصوف کالج کی ملازمت سے ریٹائر ہوئے تو الزام یہ ہے کہ انہوں نے چشم زدن میں یہ گھر اپنے بیٹے کے نام کروالیا، سو اس سرکاری گھر پر ان کا قبضہ کئی عشروں سے قائم و دائم ہے،ابھی میں نے جو کچھ بیان کیا ہے یہ ڈاکٹر صاحب کی روشن شخصیت کی محض ایک جھلک ہے ،باقی پھر کبھی سہی!
تازہ ترین